مرکزِ تبلیغی جماعت:شیشے کا مکان اور جھاڑو کی دوکان

تبلیغی جماعت کے مرکز پر میڈیا میں برپا ہنگامہ سے لوگ پریشان ہیں حالانکہ اس کا یہ رویہ توقع کے عین مطابق ہے۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے لیے وزیراعلیٰ دہلی اروند کیجریوال نے (presstitute) کی منفرد اصطلاح ایجاد کی تھی جس کا بے دریغ استعمال سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور بری فوج کے سربراہ وی کے سنگھ نے بھی بجا طور پر کیا تھا۔یہ اصطلاح جسم فروش کی نہج پر ایجاد کی گئی ۔ وطن عزیز میں لاکھوں خواتین جسم فروشی کے لیے مجبور ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی عصمت کا سودہ کرتی ہیں اسی طرح یہ خبر فروش جھوٹ بیچنے کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ ان کے پاس اس کا لائسنس ہے ۔یہ لوگ مجبور بھی نہیں ہیں بلکہ برضا و رغبت انہوں نے یہ پیشہ اختیار کررکھا ہے۔ اس لیے ان کو تو یہی کرنا تھا جو انہوں نے کیا۔ کسی کیبرٹ (cabret) ڈانسر سے یہ شکایت نہیں کی جاتی کے اس نے بھری محفل میں اپنے لباس اتار کر کیوں پھینک دیا ۔ اس لیے کہ وہ اس کی پیشہ وارانہ مجبوری ہے۔ جس محفل میں وہ ایسا کرتی ہے وہاں پر لوگ وہی دیکھنے کے لیے جاتے ہیں اور محظوظ ہوکر آتے ہیں ۔
گودی میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حکومت کے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ اس کو دو کاموں کے پیسے ملتے ہیں ۔ اول تو اپنے آقا کی تعریف و توصیف بیان کرنا اور دوسرے اس کی ناکامیوں کی جانب سے توجہ ہٹاو ۔ اس لیے اس نے پہلے تو جنتا کرفیو کے دوران پانچ بجے شام اس کی خلاف ورزی کو خوب سراہا لیکن لاک ڈاون کے بعد جب عوام بغاوت کرکے نکل کھڑے ہوئے تو وہ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے لگا ۔ اس مقصد کے لیے انہیں ایک سلگتے ہوئے مسئلہ کی تلاش تھی جو مرکز مسجد کے نام سے ہاتھ آگیا ۔ ویشنو دیوی کے مندر میں 400 لوگوں کے پھنسے ر ہنے پر ماتم کرنے والے لوگوں کو مرکز مسجد کے اندر کورونا جہاد کے لیے چھپے ہوئے دہشت گرد نظر آنے لگے ۔ یہ گودی میڈیا کی ضرورت اور تقاضائے فطرت ہے۔ یہ کرشمہ سازی اس کی آنکھوں پر چڑھی فرقہ پرستی کی عینک کی اور دل میں بسی دولت کے محبت کی ہے۔ یہ عینک مجبوری میں نہیں بلکہ بصد شوق چڑھا ئی گئی ہے ۔
گودی میڈیا سے قطع نظر شکایت اس سیاسی جماعت سے ہے جو میڈیا کو خبر فروش بھی کہتی ہے اور اس کے دباو میں آکر مولانا اسعد کاندھلوی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ مرکز مسجد کے منتظمین نے جس طرح لاک ڈاون کے بعد وہاں پر موجود لوگوں کی بابت انتظامیہ سے تعاون طلب کیا اور اپنا تعاون پیش کیا وہ ذرائع ابلاغ میں شائع ہوچکا ہے اس لیے اس کو دوہرانا بے سود ہے۔ اس کے باوجود عآپ کی رکناسمبلی آتشی کا مولانا سعد کاندھلوی پر ایف آئی آر درج کرنے پر اصرار حیرت انگیز ہے۔ آتشی حکومت دہلی کے دو حکمناموں کا حوالہ دیتی ہیں کاش کے انہوں نے اس پر لکھی تاریخیں اور اندر کے مواد کو پڑھا ہوتا۔ پہلا سرکلر 12 مارچ کا تھا اس میں صرف کھیل کی سرگرمیوں کا ذکر ہے مذہبی و دیگر اجتماعات پر اس کا سرےسے اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔ دوسرا 16 مارچ کا ہے جبکہ اجتماع 15کو ختم ہوگیا تو اس کا بھی اطلاق نہیں ہوتا۔ ایسے میں خلاف ورزی ہوئی کہاں؟ جو ایف آئی آر درج کی جائے ؟ عآپ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ہندو رائے دہندگان کو ساتھ رکھنے کے لیےباربار یہ جتانا پڑتا ہے کہ وہ بی جے پی سے زیادہ مسلم مخالف ہے۔ مرکز مسجد کے خلاف کارروائی میڈیا کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی مذموم کوشش ہے کیونکہ ’رام کی یہ گنگا کب کی میلی ‘ ہوچکی ہے۔
کورونا وائرس کے سبب دو سو سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی کی خلاف ورزی کا رونا رونے والی آتشی کو یہ بتانا ہوگا کہ خود وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے دہلی اسمبلی کا خصوصی اجلاس 14 مارچ کو کیوں طلب کیا۔ اس تاریخی اجلاس میں این پی آر کے خلاف قرار داد منظور کی گئی ااور اس میں خود انہوں نے بھی خود تقریر کی ۔ اس اجلاس کے دوران اسمبلی ہال میں کل ارکان اسمبلی تو 70 تھے لیکن ان کے خدمتگاروں کی تعداد کتنی تھی؟ ظاہر ہے اس روز دو سو سے زیادہ ؛وگ وہاں موجود تھے تو کیا اس کا انعقاد کرنے والے اور اس میں شریک ہونے والوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہوگی؟ ایوان پارلیمان بھی دہلی کے حدود میں واقع ہے ۔ اس کا اجلاس تو لاک ڈاون کے اگلے دن تک چلتا رہا۔

ایوان بالا اور ایوان زیریں میں کل 800 ارکان کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کی خدمت میں کم ازکم 1600کا عملہ تعینات ہوتا ہوگا ۔ اس میں سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی حلف برداری بھی ہوئی اور وہاں موجود لوگوں نے شرم کرو کے نعرے بھی لگائے ۔ کیا ان کے خلاف بھی کیا ایف آئی آر درج ہوگی؟ ان ارکان پارلیمان میںکورونا سے متاثر کانیکا کپور کی پارٹی میں شرکت کرنے والے ارکان دشینت سنگھ بھی موجود تھے ۔ وہ ارکان پارلیمان کے96افراد پر مشتمل وفد میں بھی شامل تھے صدر جمہوریہ سے ملنے گیا تھا ۔ کیا ہندوستان کے حکمرانوں کے لیے مختلف قانون ہے اور عام لوگوں پر نافذ ہونے والا آئین جدا ہے ؟ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جس وقت اجتماع ہورہا تھا انہیں دنوں میں ہندو مہا سبھا نے دہلی میں واقع اپنے مرکز میں گائے کا پیشاب پی کر کورونا کو بھگانے کی کوشش کی ۔ اس پارٹی میں دوسو لوگ شریک تھے اور بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائیٹر نے بھی یہ خبر تصاویر کے ساتھ شائع کی ہیں ۔ اندھے میڈیا کو تو وہ نظر نہیں آتا لیکن کیا آتشی کی آنکھوں پر بھی زعفرانی پردہ پڑ گیا ہے؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کو عآپ کا جھاڑو صاف نہیں کرسکتا ۔ یہ گردو غبار برسوں تک اس کے منہ پر اڑتی رہے گی۔

کورونا کا مرض دہلی تک محدود نہیں ہے ۔ مدھیہ پردیش میں کورونا سے مقابلہ کرنے کے لیے جب بی جے پی کو صوبائی حکومت کے ساتھ سرجوڑ بیٹھنا چاہیے تھا تو اس نے سرکار گرادی ۔ اب پورے صوبے میں کورونا کے کے بجائے اقتدار بچانے اور اس کو ہتھیانے کی جنگ چھڑ گئی ۔ لاک ڈاون کے بعد 24 کو بھوپال میں دھوم دھام کے ساتھ شیوراج چوہان کی حلف برداری ہوئی ۔ اس سے قبل بی جے پی کے سو سے زیادہ اور کانگریس کے96 ارکان اسمبلی ایک ساتھ تھے۔ وہ سب اسمبلی ہال میں آکر جمع ہوگئے تو تعداد دو سو سے تجاوز کرگئی ۔ اب ان کے خدمتگاروں کی تعداد اس میں جوڑیں اور چوہان کو مبارکباد دینے کے لیے آنے والوں کا حساب لگا کر بتائیں کہ جملہ تعداد کتنی بنتی ہے؟ اس وقت شیوراج نے اپنے بھکتوں سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد کہا ’جائیے اپنا کام کیجیے دہلی والوں کو کورونا سے بہت ڈر لگتا ہے‘۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں نہیں لگتا ۔ یہ جملہ ذرائع ابلاغ نے نہیں سنا ۔

اب سیاست کی دنیا سے دینیاجتماعات کی طرف آئیں تو 25مارچ کو رام للا کی مورتی نئے مندر میں منتقل کرنے کے یوگی جی اپنے لاو لشکر کے ساتھ ایودھیا پہنچ گئے اور وہاں بھی سماجی فاصلوں کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن عقیدت کی نگاہوں نے اسے نظر انداز کردیا ۔ کیرالہ میں سب سے پہلے کورونا کا متاثر سامنے آیا وہاں کسی زعفرانی کی حکومت نہیں ہے بلکہ سرخ پرچم لہراتا ہے ۔ کیرالہ کی حکومت نے مجمع بندی کےسخت ترین احکامات نافذ کررکھے تھے اس کے باوجود 20 مارچ کو راجدھانی ترواننتا پورم کے سری کرشنا سوامی مندر میں روایتی ’ارتوّ‘ کی تقریبات کا انعقاد ہوا۔ اس کے جلوس اور دیگر رسومات مثلاً مقدس تالاب میں ڈبکی کے اندر سیکڑوں ،ہزاروں لوگ شریک تھے جبکہ اس وقت کیرالہ کے اندر 37 متاثرین کی شناخت ہوچکی تھی ۔ ملیشیا کے زائرین بڑ ا شور ہے ۔ وہاں فروری کے ابتداء سے سختی شروع ہوگئی تھی مگر ۸ فروری کو اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوالالمپور کے موروگن مندر میں ہزاروں ہندو عقیدتمندوں نے جمع ہوکرتھائی پوسم کا تہوار منایا لیکن ان کے خلاف تو کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ آخر یہ سارا ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ’سارے جہاں سے اچھے ہندوستاں ‘ میں کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنا بہت ضروری ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226905 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.