اے حاکم ِرائیونڈ آنکھیں کھول ذرا

پوری دنیاکی طرح ملک عزیز پاکستان میں بھی کرونا وائرس ایک عذاب الہیٰ کی صورت میں اُترا ہواہے اور اِس مہلک وائرس کے پھیلاؤ سے ساری دنیا آوازار و پریشان ہے۔اِس نہ نظرآنے والے کرونا وائرس نے دنیا کو وحشت و دہشت میں مبتلاکیے ہر سو تباہی و بربادی پھیلارکھی ہے۔ساری دنیا اِس سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کررہی ہے۔اِس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیے ہوئے ہے۔پاکستانی حکومت بھی ملک میں دفعہ 144لگائے ،لاک ڈون کیے کاروباری مراکز ،مذہبی و تفریحی مقامات ،مساجد و مدارس تک بند کیے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ حکومت کوبھی یہ گوارہ نہیں ہے کہ بندہ بندے سے ہاتھ ملائے ،پاس آئے یا گلے ملے،افراد کو ایک مناسب حد تک فاصلہ رکھنے کی مسلسل تلقین بھی کی جارہی ہے۔اِس خطرناک جراثیم سے بچنے کے لیے منہ پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے ہونے چاہیئے کہہ رہی ہے۔عوام کی حفاظت کے نقطہ نظر سے آگاہی کی غرض سے اشتہارات دے دے کر بتااور سمجھارہی ہے کہ بچاؤ اپنے آپ کو ،کرونا سے احتیاط ضروی ہے۔کرونا وائرس کے مہلک اثرات سے بچنے کے لیے ملک اور افراد کو لاک ڈون کیا ہوا ہے۔مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے تعاون کرنے کے لیے کہا جارہاہے۔کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہر ایک سے مدد مانگی جارہی ہے۔عوام کو کرونا وائرس سے بچنے کی تلقین کرتے ہر ممکنہ حد تک احتیاط کابولاجارہاہے۔حکومتی احتیاط اچھی اور سراہے جانے کے قابل ہے۔حکومتی اور اداراتی بہتر اقدامات موجودہ کرونا وائرس کے سبب پریشان کن صورتحال میں ایک تازہ ہواکے ایک جھونکے کی مانند ہیں۔ہر اقدام قابل تحسین ۔حکومت باالخصوص پولیس اورفوج کاعوام سے انتہائی CO.OPERATIVEکردار دل کو موہ لینے والا۔قربانی اور ایثار کی حد تک کرونا وائرس کے لیے فوج کی عمدہ کاوشیں تاریخ کے اُوراق پر سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔کرونا وائرس پر فوج کاکردار ایک اہم اور کلیدی حیثیت رکھتاہے۔پاک فوج کے انتہائی قابل،معاملہ فہم اور بہادر سربراہ آرمی چیف جناب قمر جاوید باجوہ کے اقدامات انتہائی شاندار ہیں۔پاک فوج ،ڈاکٹراور پاکستانی ادارے کرونا وائرس کے کنٹرول کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں اورکرونا وائرس کو اﷲ کی توفیق سے ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔کرونا وائرس کے خاتمے کے لیے جو افرادکوششیں کررہے ہیں وہ خراج تحسین پیش کیے جانے کے قابل ہیں۔ڈی سی لاہور افضال ریحان ،کمشنر کیپٹن سیف انجم ،سی سی پی اوذوالفقار حمید اور بہت سی اعلیٰ شخصیات و افسران کا اِس حوالے سے کردارانتہائی مثالی رہاہے ۔ضلع لاہور کے تمام اے سی صاحبان اِس کرونا وائرس کے تدارک کے لیے جی جان سے جدوجہد کرتے ہوئے تمام تر وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔قانون و انصاف کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے کسی کوبھی خاطر میں نہیں لارہے۔قانون شکن افراد کے خلاف خاص و عام بلا امتیاز کاروائیاں کررہے ہیں اور کرونا وائرس کے سبب گورنمنٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں پربھی برابر شکنجہ کسے ہوئے ہیں جو حکومتی احکامات کی بجاآوری فرمانے کے ساتھ ساتھ ایک جہاد بھی ہے۔ایک مستحسن اور لائق تحسین اقدام بھی۔مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ اسسٹنٹ کمشنر رائے ونڈ عدنان رشید کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی جدوجہد میں قطعی طور پر سنجیدہ اور فعال نظر نہیں آئے۔ اِن کی اِس حوالے سے کوئی خاص تیاری بھی نہیں ہے اور اُوپرسے اِن کی ناتجربہ کاری بھی اِن کے آڑے آرہی ہے ۔انتہائی نکمے اور سست آفیسر ہیں جو علاقے میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔21 مارچ رات 9;00pm سے لے کر 24 مارچ صبح9;00Am تک لگی دفعہ 144 پربھی پوری طرح عمل درآمدنہ کرواسکے،افراد ٹولیوں کی صورت میں گھومتے اورپھرتے رہے۔ شہر کے نظم ونسق کوبھی بہتر طریقے سے ہینڈل کرنے میں قاصر رہے۔پھربعدازاں پورے ملک میں حکومت پنجاب کی طرف سے لاک ڈون کے واضح احکامات آنے کے باوجودشہر رائیونڈ کی کچھ فیکٹریاں اِن کی ناک تلے کھلی رہیں اور موصوف خواب خرگوش کے مزے ،اختیار کے نشے میں مغرور ہوئے ’’سب اچھا‘‘کی رپورٹ بتاتے اور سمجھاتے رہے۔ایک بڑی گارمنٹس ملز کے کرتا دھرتااپنی فیکٹری کھولے اِن کو اپنے اشاروں اور انگلیوں پر نچواتے رہے اوریہ اِن کی پُرفریب باتوں اور مکارانہ حربوں کامسلسل شکار ہوتے رہے۔ ممتاز صحافیوں،سنئیر کالم نویسوں،اینکرزاور ایڈیٹرزکو اپنی سیٹ اور حیثیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے فیکٹری والوں کے خلاف کچھ نہ کرتے ہوئے بھی ،کارروائی کرنے کا لارا لگاکر مسلسل 24 اور25 مارچ ،دو دن ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے رہے۔فلاں فلاں فیکٹریاں کھلی ہیں،صحافیوں کے بتانے کے باوجود لیت و لعل کرتے رہے۔ایک ایک ثبوت اور تمام تر حقائق کا اپنی افسری کے نشے میں چور ہوئے گلا گھونٹتے رہے۔صحافیوں کے بارہا باربار بتانے اور MESSAGESکے باوجود بھی کاروائی پر کبھی اقرار کبھی انکار کرتے رہے۔ایک فیکڑی کے بڑوں کے جھانسے میں آکر پینٹ بنتی کو ماسک بنتے بتاتے رہے۔حالانکہ فیکٹری میں سرے سے ماسک تیار ہی نہیں ہورہے تھے۔اپنی دھندلی آنکھوں میں پڑے اختیار اور نجانے کس کس قسم کے پڑے ہوئے ککروں کو صحافیوں کی آنکھوں میں ڈالتے نظر آئے۔سارے کہے ،بتائے اوردکھائے کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایک فیکٹری والوں کے ہاتھوں میں کھیلے بے وقوف بنے رہے۔اُن سے باربار دھوکا کھاتے رہے۔صحافیوں کے باربار بتانے کے باوجودبھی اُن کی ہر بات کو جھٹلاتے رہے۔صحافیوں کو اپنی پوسٹ اور افسری کا رعب دکھاتے اپنا آپ دکھاتے رہے۔سر ہتھیلی پر رکھ کر چلنے والے صحافی ،کالم نویس اے آرطارق کے فیکٹری کھلی توجہ دلاؤ نوٹس پر اپنا تعارف کروانے کے باوجود بھی انتہائی نخوت و غروراور زیادہ بو میں ’’توہے کون ‘‘کہتے ،میں تیری کوئی بات نہیں سننی،فرماتے رہے۔ممتازاینکر زپرسن ،معروف کالم نویس ظفر اقبال ظفر کے توجہ دلاؤ نوٹس پر اگلے دن اُن کی کال ہی نہیں اُٹھاتے رہے۔ایک لاہور کے اخبار کے ایڈیٹر مہر سلطان محمود اور اُبھرتے ہوئے نوجوان صحافی وقار عظیم کوبھی خاطر میں نہ لاتے رہے۔صحافیوں کی سچی باتوں اور کنفرم خبروں کاسارا کیاکرم کیے ،کرونا وائرس روکنے کے خواہش مندوں پر ناراضگی اور کرونا وائرس پھیلاؤ مہم جاری وساری رکھنے والے فیکٹری والوں پر اپنی محبت نچھاور کرتے رہے۔اپنی فضول ضد،جھوٹی انا،غروروتکبر کے سبب میں نہ مانوں کی روش پر قائم رہے کوئیک ایکشن اور لیٹ ایکشن سے بھی گریزاں نظر آئے۔ایسے میں جب دیکھا اور محسوس کیا کہ اسسٹنٹ کمشنر صاحب کچھ نہیں کرنے والے ،فیکٹری والوں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں تو معاملہ اُوپر اُٹھانے کا سوچا،مزید صحافی دوستوں سے رابطہ کیا۔اے سی رائے ونڈ کی نالائقی ، ناتجربہ کاری اور کام میں پوری طرح مہارت نہ ہونے کا رونا رویا۔ واضح ثبوتوں کے باوجود ایکشن نہیں ہورہا کا بتایاتو پہلے میں اکیلا تھا پھر بندے ملتے گئے اور کارواں بن گیا۔جس نے پھر وہ کردکھایا کہ جس کا بہت سو ں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ ایسا بھی ہوسکتا۔اسسٹنٹ کمشنررائے ونڈ اپنی افسری کے نشے میں،فیکٹری HR اپنی شان و شوکت کے اور ہم اپنی قابلیت پر نازاں تھے۔ بسم اﷲ پڑھی ،پروردگار کانام لیا،قلم کو حرکت میں لائے۔جدید ٹیکنالوجی فیس بک ،واٹس اپ کا استعمال کیا۔چھوٹے بڑے چینل کی مدد لی۔ضلعی افسران تک بات اور معاملہ کو پہنچایااور وہ ہوگیا کہ جس کا نہ اُنہیں اور نہ ہمیں اندازہ تھا۔اے سی رائے ونڈ عدنان رشید کی بے حسی سے ہم مایوس ہوچکے تھے مگر اﷲ کے گھر سے مسلسل اُمید باندھے ہوئے تھے۔یقین کامل تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔سواﷲ کے بیجھے ہوئے کچھ فرشتے ۔۔۔اور ایک نیک نام آفیسر اے سی ماڈل ٹاؤن ذیشان رانجھا فرشتے بن کر آئے اور وہ کام کرگئے کہ جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا،جوکوئی سوچے ہوئے بھی نہ تھا۔نخوت و تکبر اور بڑائی میں اکثر کشتیاں ڈوب ہی جایا کرتی ہیں۔اے سی رائے ونڈ عدنان رشید کے بروقت نوٹس نہ لینے اور معاملے کو خوامخواہ اُلجھانے پر اُوپر سے ہوئی کارروائی سے جیت ہمارا مقدر بن چکی تھی۔فرشتے آ اور چھا چکے تھے۔کرونا وائرس کی طرف بڑھتے آسیب نما سایے چھٹ چکے تھے۔کرونا وائرس پھیلانے کی طرف بڑھتے کچھ قدم اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے اورکچھ اپنی لاعلمی ،کم عقلی اورسستی و کوتاہی کی وجہ سے شرمندگی سے تارتار۔اور ہم کرونا وائرس پھیلاؤ کو روکنے کی اِس کوشش میں اِس انسان دوست کامیابی پراﷲ کا شکر اداکرتے پیارے رب کے آگے سجدہ ریز۔

 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.