روٹی

ملک میں ہوئے لاک ڈاؤن نے کاروبارِ زندگی کو نیم مردہ کر دیا ہے۔ زندگیوں کو گھروں تک محدود کر دیا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن سے کیا فرق پڑا ہے؟اگر کوئی فرق پڑا ہے تو کسے اور کیسے؟ ابا لاک ڈاؤن کیا صرف ہمارے گھر میں ہوا ہے؟ بوٹا ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں افسردہ سا بیٹھا تھا۔جب اسکی پانچ سالہ گڑیا نے اسکا گھٹنا ہلا کر پوچھا۔نہیں بیٹا سب کے گھروں میں ہوا ہے۔ اس نے بچی سے نظریں چراتے کہا۔

ابا کیا اب ہمیں کبھی روٹی نہیں ملے گی؟ ابا کیا کرونا ساری روٹیاں کھا گیا؟ اس ننھی کے سوال پھر سے شروع ہوگئے تھے۔بوٹا روز مزدوری کر کے کمانے والا ایک محنت کش تھا۔ ملک میں ہوئے لاک ڈاؤن نے اسکی مزدوری کو بھی لاک ڈاؤن کر دیا۔ تین دن ہوگئے تھے اسے گھر میں محصور ہوئے۔ آخری روٹی وہ صبح اپنی بیٹی کو کھلا چکے تھے۔ اب شام ڈھل چکی تھی۔ ننھی جان آخر کب تک باپ کی ان باتوں سے بہلتی۔ اب تو اسکا وجود چیخ چیخ کر روٹی مانگ رہا تھا۔

نہیں! گڑیا بس میری طبیعت ٹھیک نہیں نا، اس لیے باہر نہیں گیا۔ میں ابھی جاتا ہوں نا باہر پھر اپنی گڑیا کے لیے روٹی لے کے آتا ہوں۔ اس نے بے بسی سے اپنی پھولوں جیسی بیٹی جنت کی طرف دیکھا تھا۔ اور پھر اپنے آنسو پونچھتا اٹھ کر باہر نکل گیا۔جھونپڑی سے نکل کر ریلوے اسٹیشن کی طرف آیا ہی تھا کہ ایک ٹرین آ کر رکی۔ ٹرین سے اترتے شخص نے بوٹے کو اشارے سے بلا کر اپنا سامان رکشے تک پہنچانے کو کہا تھا۔ جب وہ اسے سامان لے جانے کا کہہ رہا تھا تب اس نے اپنا ماسک ہٹا کر گہرا سانس لیا تھا، باہر کی کھلی فضا کو محسوس کیا اور ایک چھینک فضا کے سپرد کر دی۔ اس کی چھینک کے قطرے سامان اٹھانے کے لیے جھکے بوٹے کے منہ پہ پڑے تھے۔ اس نے سر اٹھا کر اس بابو کو دیکھا جس نے چھینکنے کے بعد ماسک چڑھا لیا تھا۔ بوٹا اسکا سامان پہنچا آیا تھا۔اس سے ملے پیسوں کو اس نے آسمان کی طرف نگاہ کرتے شکر ادا کرتے دیکھا اور مسکراتے ہوئے گڑیا کے لیے روٹی لینے کے لیے بازار کی طرف چل پڑا۔وہ ابھی روٹی لے ہی رہا تھا جب اسے چھینکیں آنے لگیں۔ اس نے اپنی چھینکوں کو اپنی پھٹی آستینوں میں چھپایا تھا۔گڑیا! گڑیا دیکھو!

تمہارے لیے روٹی لایا ہوں۔ اس جھونپڑی میں ایک طرف نیم مردہ سی حالت میں لیٹی اپنی جنت کو آواز دیتے ہوئے گود میں اٹھا لیا تھا۔

اس نے ابھی نوالہ بنا کے اس کے منہ کی طرف کیا ہی تھا جب پولیس پہنچ گئی تھی۔ پولیس کے ساتھ وہی بابو تھا۔ جس کا سامان بوٹا رکشے پہ لوڈ کر کے آیا تھا۔پولیس نے آتے ہی اسے ماسک لگوایااور ساتھ آئے ڈاکٹر نے بوٹے کو انجیکشن بھی لگادیا۔اسے حفاظتی سوٹ بھی پہنایا گیاتھا۔گڑیا پھٹی آنکھوں سے اپنے ابا کے ساتھ یہ سب ہوتا دیکھ رہی تھی۔بوٹا بھی اس اچانک آن پڑی افتاد پرحیران تھا۔مائی باپ یہ آپ کیا کر رہے ہو میرے ساتھ۔بالآخر بوٹے نے پولیس والوں سے پوچھ ہی لیا۔اس بابو کو کرونا وائرس ہے اور وہ بھی شدیدتم اس سے ملے ہو اس لیے تمہیں بھی یہ وائرس ہوگیا ہوگا اس لیے ہم تمہیں قرنطینہ لے جارہے ہیں۔

تا کہ باقی سب محفوظ رہ سکیں،کہتے ساتھ ہی اسے ایمبولینس میں بٹھایا گیا۔ایسی صورتحال میں وہ اپنی جنت کو پیار بھی نہ کر سکا تھا۔ادھر ایمبولینس بوٹے کو لے کر جانے لگی تھی۔ ادھر جھونپڑی کی پھٹی چادر کوتھامے ننھی جنت رو رو کر پکار رہی تھی۔مجھے روٹی نہیں چاہیے۔ میری روٹی لے جاؤ، ڈاکٹر چاچا! مجھے میرا ابا دے جاؤ''
 

Sidra Iqbal
About the Author: Sidra Iqbal Read More Articles by Sidra Iqbal: 2 Articles with 1587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.