لاچارگی

وہ آئی،سی،یو میں بیڈ پر لیٹی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی
اسکے لبوں پر بس ایک ہی نام کا ورد چل رہا تھا
جیک،جیک،جیک،جیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لڑکی کا نام ایش تھا
جیک اسکے بچپن کا بہت اچھا دوست تھا
دونوں ایک ساتھ کھیلے کودے ایک ساتھ بڑے ہوئے تھے
نجانے کب انکی زندگیوں میں محبت نے اپنا قدم رکھا اور وہ دوستی محبت میں بدل گئی
وقت بیتتا گیا
محبت عشق میں تبدیل ہو گئی
انکا ایک دوسرے کے بنا رہنا تو کیا ایک دوسرے سے بات کیئے بنا دن کا گزرنا تک ناممکن ہو گیا تھا
بعدازاں جیک کچھ کچھ پریشان رہنے لگ گیا تھا
کیوں؟؟؟
یہ کسی کو نہ پتا تھا
نہ سیدھے منہ ایش سے بات کرتا تھا
ایش چونکہ ماڈرن ایرا میں پلی بڑی تھی اسکے ذہن میں بہت سے الٹ پلٹ خیالات نے جنم لینا شروع کر دیا
شاید اسکا کہیں اور افیئر چل رہا ہے
شاید اسکا مجھ سے دل بھر گیا
شاید وہ مجھ سے کنارہ کرنا چاہ رہا وغیرہ وغیرہ
ایش نے ایک دن غصے میں آجر جیک کو لمبی چوڑی تحریر سلاوتوں سے بھری ایس ایم ایس کر دی
جسکا اختتام ان الفاظ سے تھا
آج کے بعد مجھے اپنی شکل مت دیکھانا
یہ پڑنا تھا کہ
جیک کے پاؤں تلے زمین نکل گئی
جیک نے فورا ایش کا نمبر ڈائل کیا مگر اسکا نمبر سویچڈ آف تھا
بارہا بار ایس ایم کیئے واٹس ایپ وائس ٹیکسٹ کیئے مگر ریپلائی نہ آیا
رات کے پچھلے پہر ایش کا غصہ ٹھنڈا پڑا تو اس نے موبائل آن کیا
آن کرتے ہی نہ ختم ہونے والے ایس ایم ایسز کا سلسلہ شروع ہو گیا
ایش نے بنا پڑھے سب ڈیلیٹ کر دیئے
صبح ہونے کو تھی
ایش کی آنکھ کھلی
اور فورا سیل فون پکڑا اسے پتا تھا کہ جب بھی وہ جیک سے ناراض ہوتی تھی
جیک بنا ریپلائی ملے اسے رات بھر ٹیکسٹ کرتا رہتا تھا
مگر یہ کیا آج ایک بھی ٹیکسٹ نہ تھا
ایش نے ناچاہتے ہوئے بھی جیک کا نمبر ڈائل کیا
بیل جا رہی تھی مگر کوئی ریسیو نہ کر رہا تھا
مسلسل بیل جا رہی تھی مگر
کوئی پک نہ کر رہا تھا
کوئی دس پندرہ کالز کے بعد اسکی کال پک ہوئی
ایش نے فورا جو منہ در آیا بول دیا
مگر دوسری جانب سے کوئی ریپلائی نہ آیا
ایش بار بار چلا رہی تھی
جیک جیک
فون کی دوسری جانب ایک نسوانی آواز نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا
جیک از نو مور
یہ سننا تھا کہ ایش کے ہاتھ سے موبائل زمیں پر گرا اور اسکی سکرین ٹکڑوں میں بٹ گئی
یہ کیا ہو گیا
ایش فورا جیک کے گھر پہنچی
جہاں ہر سو ماتمی سما تھا
سوگ کی کالک اس گھر کی چاروں اور ڈل چکی تھی
ایش کا جیک پاس بیٹھنا ممکن نہ ہو پا رہا تھا اسکا بی پی شوٹ کر چکا تھا
چکر اور بے ہوشی کی سے کیفیت اس پر طاری تھی
ایش کو اٹھا کر جیک کے روم میں اسی کے بیڈ پر لٹا دیا گیا
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ایش کی آنکھ کھلی
تو سامنے پورٹریٹ موڈ میں لگی جیک کی تصویر دیکھتے ہی اسکی زور دار چیخ نکل گئی
مگر باہر رونے کی آوازیں اتنی تھی کسی نے اسکی چیخ نہ سنی
ایش نے ناچاہتے ہوئے جیک کی تکیے کے نیچے رکھی ڈائری ہاتھ میں پکڑ لی
اور اسکا لاسٹ پنا جو حال ہی میں لکھا گیا تھا پڑھنا شروع کر دیا
میری ڈیئر ایش تمہارے گلے شکوے سب جائز ہیں مجھ سے مگر مجھے ڈاکٹرز نے مجھے بلڈ کینسر بتلایا تھا
جو کہ اپنی لاسٹ سٹیج پر پہنچ چکا تھا
اس صورت میں میں تمہیں اپنے ساتھ رکھ کر اپنی مصیبت تمہارے سر نہیں ڈالنا چاہتا تھا
اور آج جب کہ میں تن تنہا اس روم میں بیڈ پر لیٹا موت سے لڑ رہا ہوں
سانس اکھڑ اکھڑ کر آرہی ہے
تب بھی میں تمہی یاد کر رہا ہوں
ایش یو آر مائی لائفففف ف پر قلم کی سیاہی پھیلی ہوئی تھی
یوں لگ رہا تھا جیسے یہی جیک نے اپنی جان دی تھی
یہ سب پڑنا تھا کہ ایش کب بےہوش ہو گئی اسے پتا ہی نہ چلا
جب آنکھ کھلی تو ایش نے خود کو اس بیڈ پر پایا
ٹینشن کی وجہ سے ایش کی دماغی نس کمزور پڑ چکی تھی
ڈاکٹرز کا کہنا تھا
اگر اس نے مزید ٹینشن لی تو ہو سکتا ہے کہ یہ پھٹ جائے
اور ایش زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے
مگر ایش ان سب باتوں سے بے نیاز
جیک جیک جیک کی صدائیں لگا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Saleem Saqi
About the Author: Saleem Saqi Read More Articles by Saleem Saqi: 21 Articles with 29397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.