کوٹھہ

 لوگ بینک میں حج پے جانے کی درخواستیں جمع کروانے آئے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر مذہبی انداز کی متانت، سنجیدگی اور خوش گواری کے جذبات جلوہ کشا تھے۔ بینک کے ملازم ان کے ساتھ معمول سے زیادہ خوش اسلوبی سے پیش آ رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے استفسار کر رہے تھے کہ کتنی درخواستیں آ چکی ہیں اور جواب ملنے پر وہ اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ اس بار کرہ اندازی میں سب کی درخواستیں نکل آئیں گی۔ کیوں کہ پچھلوں سالوں میں ایسے موقعوں پر بہت رش ہو جایا کرتا تھا، اس سال ایک تو مہنگائی بہت ہوئی ہے، حج پہلے سے کافی زیادہ مہنگا ہو گیا ہے اور دوسرا’ کرونا وائرس‘ کی وجہ سے بھی کچھ خوف وہراس پھیل گیا ہے۔

ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا اور درخواست گزار ابھی فارموں کے مختلف مراحل سے گزرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ شام کا دھندلکا بینک کے بیرونی دروازے پر دستک دے رہا تھا کہ پاس سے ایک کھلے عبایا میں ملبوس ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس سے گزرتی ہوئی ڈرسینگ روم کی طرف گئی اور پھر چند سیکنڈ بعد وہی لڑکی عبایا اتار کر پھر باہر نکلی تو سب کی نظریں اسے دیکھ کر بس دیکھتی ہی رہ گئیں! اس نے ضرورت سے زیادہ ہی ٹائٹ پینٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کی ٹانگوں کے اوپر کے حصوں تک بھی نظروں کو دیکھنے کی اجازت مل رہی تھی کیوں کہ اس کی کرتہ نما شرٹ کچھ اٹھی اٹھی سی تھی۔ اس لڑکی نے بینک کے فرش پر ایک راؤنڈ لگایا اور پھر واپس ڈریسنگ روم میں چلی گئی اور چند سیکنڈ بعد اسی کھلے سے کالے رنگ کے عبایا میں گھری ہوئی پھر باہر آ گئی۔ ایسے لگا جیسے اس نے کسی بڑے کام کی ریہرسل کی ہو۔

اس کی چال ڈھال میں عجب سی کشش تھی کہ نظروں کو اس کی جانب اٹھنے کے لئے دل کی اجازت درکار نہ تھی۔ اور نظروں کی برق رفتاری اس کے بدن کے محلے میں داخل ہوتے ہے ایک تھکی ہوئی ندی کی سی سست روی اختیار کر لیتی ۔اس کی جوانی بھی مستانی تھی اور اس کی ادائیں بھی لا ابالی ۔ اس نے کئی ایک چاہنے والوں کو ترسا ترسا کے ’رولا‘ تھا اور اب وہ خود بھی معاش کے ہاتھوں کچھ مجبوریوں کے صحراؤں کی ریت بنتی جا رہی تھی۔معاش ،بڑوں بڑوں کو چھوٹے چھوٹے بنا دیتا ہے۔ یہ اپنا ہی ایسا طلسم رکھتا ہے جو باقی کسی بھی جادو سے کم تر نہیں ہے۔ یہ انسان کو کوٹھوں سے اتار بھی دیتا ہے اور کوٹھوں پر چڑھا بھی دیتاہے۔

حالات کی تنگی آہستہ آ ہستہ انسان کو کسی ایسی تنگ گلی میں لے جاتی ہے کہ جس سے نہ واپسی ممکن ہوتی ہے اور نہ کسی دوسری سمت کا سراغ ہی ملتا ہے۔ مدیحہ کے باپ پر فالج کے اٹیک نے اس کے گھر کے حالات کو کچھ اس طرح بدل کر رکھ دیا جیسے فطرت دن کو رات میں بدل کے ہر طرف گہری تاریکی پھیلا دیتی ہے۔اس کی تعلیم مکمل ہوئے بغیر ہی اختتام پذیر ہو گئی ،اور وہ وقت کی اس تبدیلی پر کفِ حیرت ملنے کی سوا کچھ نہ کر سکی۔اس نے ایک دو پرائیویٹ سکولوں میں بھی کچھ مہینے کام کیا ، لیکن اسے کسی اچھی جاب کی تلاش تھی جس کی تنخواہ سے اس کے گھر کا گزارہ ہو سکے۔اور دوسرا سکولوں کی جانب اس کا ٹرینڈ بھی نہیں تھا۔

مدیحہ کی ایک دوست، ندا،نے کچھ مہینے پہلے ایک بینک میں جاب حاصل کی تھی لیکن وہ بھی اپنے کام سے اتنی خوش نہیں تھی۔ کام کی ٹینشن،صبح سے شام گئے تک دفتر میں موجودگی اور پھر لوگوں کے رویئے اسے بھی پریشان کر رہے تھے۔ لیکن بینکوں میں عام ماحول کی سی آلودگی نہ تھی۔ گرمیوں میں ٹھنڈک اور سردیوں میں گرمائش کا ماحول بہت زیادہ وی آئی پی محسوس ہوتا ہے۔صاف ستھرے ماحول کی کشش بہت سی لڑکیوں کو بینکوں کے چارم میں مبتلا کر رہی تھی۔

اس کا اپنی بینک کی جاب کرنے والی دوست سے رابطہ تھا، وہ سکول کے زمانے سے ہی اس کی بہترین دوست رہی تھی۔اور ابھی تک اس کے ساتھ تعلقات میں کوئی ناگوار موڑ نہیں آیا تھا۔ اس نے اپنی دوست کو اپنی معاشی پریشانی سے آگاہ کیا اور اسے ریکوسٹ کی کہ اگر اس کے بینک میں کوئی جاب نکلے تو اسے ضرور آگاہ کرے، وہ بہت مجبور ہے اور جلد از جلد کوئی جاب کرنا چاہتی ہے۔

اتفاق سے کچھ ہی ہفتوں بعد اس کی دوست سے اسے فون کیا اور بتایا کہ اس کے بینک میں ایک سیٹ خالی ہو رہی ہے اور اگر وہ بینک میں جاب کرنے کی خواہش مند ہے تو اس کے گھر آ کر اس سے ملاقات کر لے تا کہ وہ اسے بینک میں جاب سے متعلق کچھ باتیں سمجھا دے۔ اس کو اس اطلاع کے ملنے کی خوشی بھی ہوئی اور ساتھ ہی تعجب بھی ہوا کہ ایسی کون سی باتیں ہیں جو اس کی دوست سے اسے سمجھانی ہیں؟

مدیحہ نے اپنی دوست کے گھر جانے کا فیصلہ کیا تا کہ علیحدگی میں اس سے بات کی جا سکے۔ اس کی دوست نے اسے بتایا کہ بینکوں میں مینجر کے اختیارات کافی زیادہ ہوتے ہیں اور یہ بھرتی بھی اس کے مینجرنے ہی کرنی ہے۔ اور اس کی خوشنودی کام ملنے یا کام کرنے دونوں میں ضروری ہوتی ہے۔ اور اگر مینجر کسی بات سے ناراض ہو جائے تو وہ کام سے جواب بھی دے سکتا ہے۔ بینکوں نے پرائیویٹ ہونے کے بعد زیادہ تر اختیارات مینجرز کو دئے ہوئے ہیں اس لئے ان کی رضا مندی بینک میں کام کرنے کے لئے ضروری ہے۔

’ ملازمت میں یہ فقرہ تو تم نے سنا ہی ہو گا ، نوکر کیہہ تے نخرہ کیہہ‘ ندا نے کچھ معنی خیز انداز میں اپنی آنکھوں سے کوئی بات مدیحہ کے ذہن میں اتارنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’ہاں یہ بات تو ہے، ہر جگہ یہی ماحول ہے۔‘ مدیحہ نے بات سمجھتے ہوئے کہا۔

’مینجر لوگ بڑے ’من مان‘ ہوتے ہیں!کبھی کبھی بڑا تنگ کرنے لگتے ہیں ، بس ملازمت کی خاطر سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بندہ کیاا کرے! ان کی کسی بھی بات کا انکار نہ ہی کیا جائے
تو بہتر ہے ورنہ وہ جلد ہی کام سے جواب دے دیتے ہیں!‘

’بندہ مجبور ہو جائے تو لوگ اس کا فائدہ اٹھانے لگتے ہیں، لیکن پیٹ کی خاطر بہت کچھ کرنا بھی پڑتا ہے۔ چلیں جو ہو گا دیکھا جائے گا!‘

مدیحہ نے مجبوری کا نام شکریہ کا اضافہ کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔

’اچھا مدیحہ اس مہینے کی پچیس تاریخ کو آپ نے ہمارے بینک مینجر کے پاس انٹرویو کے لئے آنا ہے۔ اپنی سی وی آپ مجھے بھیج دینا میں بینک میں لا جاؤں گی اور میں نے آپ کے اور آپ کے گھر کے حالات کے متعلق مینجر صاحب کو سب کچھ بتا دیا ہے۔ بینک میں گھر سے کافی زیادہ اپ ٹوڈیٹ اور ماڈرن بن کے آنا ہوتا ہے۔‘ ندا نے ایک بار پھر مدیحہ کی جانب استخراجی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

مدیحہ ان ساری باتوں اور نظروں کے اشاروں کے مفاہیم کافی اچھی طرح سمجھتی تھی ۔ لیکن مجبوری انسان کو کوٹھے پر چڑھاتی رہی ہے اور یہ حقیقت صدیوں پرانی ہے۔

مدیحہ کے ذہن میں دونوں خیالات باری باری آ رہے تھے ایک سکول کا اور دوسرا بینک کا: سکول والے دماغ نچوڑ لیتے ہیں اور دیتے کچھ نہیں، جب کہ بینک والے جسم نچوڑ لیتے ہیں لیکن کچھ دے دیتے ہیں۔ آگے اپنی اپنی قسمت۔ گھر کے گزارے کا احساس اسے بینک کے طرف گھسیٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
٭۔٭۔٭
مینجر: جی آجائے ، میں آپ ہی کا انتظار کر رہا ہوں، کیا نام آپ کا ؟
مدیحہ: مدیحہ ، سر!
مینجر: مدیحہ سر، کیا آپ ’سر‘ ہیں۔
مدیحہ: نہیں سر میں نے آپ کو سر کہا ہے، میرا نام مدیحہ ہے!
مینجر: (قہقہہ لگاتے ہوئے) اچھا اچھا! مجھے پتہ ہے، وہ میری طبیعت میں ظرافت ہے ناں تو کبھی کبھی مذاق سوجھ جاتا ہے، اچھا بتائیں آپ کی کوالیفیکیشن کتنی ہے۔
مدیحہ: بی کام ، ایم کام مکمل نہیں ہو سکا ۔
مینجر: کیا وجہ بنی، کیا ہوا۔ آپ دیکھنے میں بہت ذہین لگتی ہو!
مدیحہ: جی شکریہ، بس کچھ معاشی حالات خراب ہو گئے تھے!
مینجر: کیا آپ کے والد صاحب کو فالج کا اٹیک ہوا تھا ، وہ اب کیسے ہیں؟
مدیحہ: بس ٹھیک ہیں سر، چل پھر نہیں سکتے۔ زیادہ وقت بستر پر یا پھر ویل چیئر پے ہی گزرتا ہے۔
مینجر: آپ کی فیملی کتنے افراد کی ہے؟
مدیحہ: کل پانچ افراد ہیں، والدین اور میرے دو چھوٹے بھائی جو ابھی سکول پڑھتے ہیں۔
مینجر: آپ کو کونسا کلر پسند ہے،( مدیحہ کے لباس کی طرف گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جیسے کلر اور لباس اس کے انٹرویو کی کامیابی کے لئے سب سے ضروری سوال ہوں۔)
مدیحہ: مجھے بچپن ہی سے گلابی کلر پسند ہے، سر!
مینجر: آپ کے منہ سے ’سر‘ کا لفظ بہت اچھا لگتا ہے، مجھے بھی گلابی کلر ہی پسند ہے،کیسا عجیب اتفاق ہے!
مدیحہ: ( مدیحہ، مینجر کی باتوں کے اندر کے معنی بھی سمجھنے کی کوشش کر تے ہوئے) بہت شکریہ سر !
(مینجر کو اس کی بیوی کی طرف سے فون آتا ہے، فون کی گھنٹی بجتی ہے، وہ فون اٹھا تا ہے اس کی بیوی بتاتی ہے کہ وہ بچوں کے لے کر اپنی امی کے گھر چلی گئی ہے اور وہ رات کو ادھر ہی اجائیں۔ وہ جواب دیتا ہے کہ آج بینک میں کام بہت زیادہ ہے رات دیر تک وہ فارغ نہیں ہو سکتا ، اس لئے آج وہ سیدھا گھر ہی جائے گا اور ان کی طرف نہیں آ سکے گا، لیکن صبح وہ ضرور ادھر کا چکر لگائے گا ۔ )
٭۔٭۔٭
رات کے گیارہ بج رہے تھے اور مینجر اپنی گاڑی اپنے گھر کے گیراج میں کھڑی کر رہا تھا۔ گاڑی سے مدیحہ اتر کر اپنا عبایا اتار رہی تھی جس کے نیچے اس نے ضرورت سے زیادہ ٹائٹ پینٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کی شرٹ بھی اٹھی اٹھی تھی۔ وہ بڑے غور سے مینجر کا گھر دیکھ رہی تھی اور مینجر صاحب گاڑی کی ڈگی سے شوپر نکال رہے تھے جن میں روسٹ کی ہوئی مچھلی، نان، اور کئی اور مزے مزے کی چیزیں تھیں جنہیں وہ مدیحہ کے ساتھ مل کر کھانا چاہتا تھا۔ دروازوں کے تال کھولے گئے اور گھر کی اس شبستانی تنہائی میں مینجرمدیحہ کو کوٹھے کے ایک کمرے میں لے گیا ۔۔۔۔
٭۔٭۔٭
رات بارہ بجے کے قریب مدیحہ کا باپ ، اپنی پریشان حال بیوی سے پوچھ رہا تھا کہ مدیحہ ابھی کیوں نہیں آئی۔ اسے بتایا جا رہا تھا کہ بینک میں آج کام بہت زیادہ ہے، حج کی درخواستیں جمع ہو رہی ہیں شاید وہ وہاں ندا کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا رہی ہو۔ شاید اسے آج ہی کام پر رکھ لیا گیا ہو۔ ان یقین تھا کہ ان کی بیٹی بہت ہونہار ہے !!!

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284974 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More