ریمنڈ ڈیوس کی واپسی

اس سال جنوری کے آخری ہفتے میں”سپر پاور ملک“ کے شہری ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دن دھاڑے دو افراد کو جان سے مار دیا تھا اور اسکو بچانے والی گاڑی نے ایک معصوم شخص کو ٹکر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ حضرت ریمنڈ ڈیوس کو واقعہ کے رونما ہونے کے بعد پنچاب پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا اور پوچھ گچھ شروع کر دی۔قانون کے مطابق اس کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز تو کر دیا گیا مگر اس کے سفارتی استثنیٰ کے معاملے ،گمنام شناخت اور اُس سے برآمد ہونے والی اشیاء نے اس ریمنڈ ڈیوس کو مزید پرسرار بنا دیا تھا ۔ اگرچہ ریمنڈ ڈیوس یہ بات ثابت نہیں کر سکا کہ اس نے اپنے دفاع کر تے ہوئے دو افراد کو جان سے مارا ہے مگر پھر بھی اسکا ملک اس کی بآسانی وطن واپسی چاہ رہا تھا ۔شروع میں متنازعہ بیانات جاری کر کے اس کے ملک ہی نے اسکی باعزت واپسی کو بہت مشکل بنا دیا تھا۔ اس کو شروع میں ہمارے ناعاقبت اندیش چاہتے ہوئے بھی چھوڑ نہیں پا رہے ہیں کہ اسکا”جرم “ کوئی معمولی حیثیت کا حامل نہیں ہے کہ یوں آسانی سے چھوڑ دیا جائے۔ اگرچہ واقعے کے چند روز تک امید تھی کہ ہمارے حکمران دباﺅ میں آکر اسے چھوڑ دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ اس کی رہائی کے لئے کچھ مطالبات جو ”سپر پاور آقا“ سے جو منوانے تھے پورے نہیں ہوئے تھے اور دیت کے بدلے رہائی کے عوض اپنی خود داری اور عزت کا بیچنے کا سودا نہیں ہوا تھا کہ فریقین میں کوئی معاملہ طے نہیں پا رہا تھا آخر کار ایک معزز شخصیت کے ذریعے معاملات طے کر لئے گئے اور مرنے والوں کے رشتہ داروں کو ”دولت کی چمک “ دکھا کر اس کو امریکہ کی راہ دکھا دی کہ ہمارے نزدیک یہ دولت سب سے اہم ہے۔

ریمنڈ ڈیوس کو دیت کے بدلے رہائی دے دی گئی جو کہ مرنے والوں کے ورثاء نے حاصل کی اور اس کے بعد بدنامی کے خوف سے یا حفاظتی نقطہ نظر سے روپوش ہو گئے ۔جس کی وجہ سے بہت سی باتیں گردش کرنے لگیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس معاملے میں اسلامی قانون کو محض مطلب کی خاطر استعمال کیا گیا ہے ۔ اگرچہ بہت قیاس آرائیاں پہلے سے کی جا رہی تھیں کہ اس کو چھوڑ دیا جائے گا مگر یوں دیت دے کر رہائی دینا تو بہت سے لوگوں کے شاید وہم و گمان میں بھی نہ تھا ؟ مگر کیا کریں جناب ہم پاکستانی تو چور راستہ تلاش کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور دفاع پر معمور حفاظتی اداروں نے بہت سے تحفظات تسلیم کروانے کے بعد ”سپر پاور ملک “کو اسکا شہری واپس کر دیا جس کا جشن ڈرون حملے میں پچاس افراد کو ہلاک کر کیا گیا تھا جو کہ اس کی روانگی کے چند گھنٹوں بعد ہی ہو گیا تھا۔ مگر بچاری عافیہ صدیقی کو واپس لانے میں کچھ خاص اقدامات ہمارے محب وطن لو گ نہیں کر رہے ہیں حالانکہ وہ بچاری ملک کی عزت کی خاطر بہت کچھ سہہ چکی ہے۔ اب ”انکل سام“کو کون سمجھائے کہ جناب آپ نے بچاری عافیہ صدیقی کو محض بندوق کے فائر فوجی کو نہ لگنے پر بھی 86سال کی سزا سنا دی ہے؟اور اپنے ایک بندے کو چار افراد کی ہلاکت میں ملوث ہو جانے کے باجود رہا کروا کر کس بات کا ثبوت دیا ہے ؟ کیا سپر پاور ملک کو اسطرح کے اقدامات زیب دیتے ہیں؟ دیت کے عوض رہائی نے سفارتی استثنیٰ کے معاملے کا بھی پول کھول کر ”سپر پاور ملک “ کی ساکھ کو کسی قدر متاثر کیا مگر اس کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی ہے ۔سب کی سوچ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا مگر اتنا بھی کافی ہے کہ سپر پاور ملک کا باشند ہ ہماری حراست میں اتنے دن گزار کر گیا ہے اب کوئی ایسی حماقت نہیں کر ے گا۔اس کی وجہ سے ہمارے دفاعی ادارے اب مزید بہتر اقدمات کریں گے تاکہ ایسے گھناؤنے فعل پھر سے نہ ہو سکیں۔

بہت عرصہ قبل ایک امریکی وکیل نے ہمارے بارے میں سنہری قول ارشاد فرمایا تھا کہ ”یہ ڈالر کے عوض ماں بھی بیچ سکتے ہیں“ اور اس کی بات سچ ہوچکی ہے کہ تین بچوں کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسکے اپنے ہی وطن کے لوگوں نے بیچ ڈالا کہ کچھ جیب ہی گرم ہو جائے کہ عزت تو مشکل سے حاصل ہو تی ہے دولت کمانا تو آسان کام ہے؟ویسے بھی ”انکل سام“ نے جو کچھ ہمارے ساتھ پچھلے برسوں میں دوستی میں کیا ہے وہ تو دشمنوں جیسا سلوک کیا ہے کہ اتنا ساتھ دیا پھر بھی کوئی قدر ومنزلت نہیں ہے۔اس سے تو اچھا ہے کہ ہم ایک حد میں رہ کر اپنی ترجیحات کو دیکھیں یہ کسی ملک کی غلامی سے اچھا ہو گا۔نیز ہماری عدالتوں کے منصبوں کو بھی چاہیے کہ آزادی سے اپنے فیصلے کریں کیونکہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں عدالت کے جج نے کسی قدر اہم معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے یا دباﺅ میں فیصلہ جلدی میں دیا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جو بھی جرم کرے اگر ثابت ہو جائے تو قرار واقعی سزا ملے ؟محض کسی کے دباﺅ یا اونچے عہدے کی پروا نہ کی جائے اگر قانون پر عمل ہی نہیں کرنا ہے تو اسکے بنانے اور عمل درآمد کروانے کی تگ ودود کیسی ؟بہرحال ریمنڈ ڈیوس کی واپسی نے ہمارے کرتا دھرتاﺅ ں کو بے نقاب کر دیا ہے اب قوم پر ہے کہ وہ مستقبل کےلئے اپنے لئے کیا راہ اختیار کر تی ہے؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482061 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More