عید میلاد ، محب اور غیر محب میں امتیاز

عید میلاد کی مخالفت میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عید قرار دینا درست ہے تو پھر اللہ عزوجل نے عید الفطر وعید الاضحی کی طرح اسکو واجب کیوں نہیں فرمایا حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والر ضوان اس اعتراض کا بڑا پیارا جواب دیتے ہیں ۔

’’اگر کہا جا ئے کہ بجا ئے عید ذی الحجہ کے اسلا م میں ربیع الاول کی عید کیو ں مقر ر نہیں ہو ئی ۔ اسکا جواب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام ایک لا کھ سے زیا دہ ہیں اور ہر ایک نبی کا کوئی واقعہ ایسا ضر ور ہو گا کہ با عث مسر ت ہو مثلاً آدم علیہ السلا م کی پید ائش ‘مو سیٰ علیہ السلا م کا فر عون کے ہا تھ سے نجا ت پا نا، ابراہیم علیہ السلام پر آ تش نمر ود سر د ہو جانا وغیرہ ان تما م سے صرف اسمٰعیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جد تھے انکا واقعہ عید بنا یا گیا اس سے مقصو د یہی معلو م ہو تا ہے کہ امتیو ں کو نظیر ہا تھ آ جا ئے۔ تاکہ اگر اپنے نبی کی ولا دت کے رو ز کو عید ٹہرا دیں تو خو د سری کا الز ام ان پر عائد نہو اور تعجب نہیں کہ امتیوں کے ایما ن کا موازنہ بھی اس سے مقصو د ہو ۔ کیو نکہ یہ صاف بیا ن کر دیا گیا ہے کہ جس کو حضر ت کے سا تھ اپنی جا ن و مال سے زیا دہ محبت نہو اسکو ایما ن ہی نہیں ۔پھر محبت کا لازمہ یہ ہے کہ اپنے محبو ب کے وجو د اور فضا ئل سے خوشی ہو اور جو خو ش نہیں ہو تا اسکو محبت سے کو ئی تعلق نہیں ۔عید میلا د مقر ر نہ کر نے میں یہ سر معلو م ہو تا ہے کہ اگر وہ روز عید مقر ر کیاجا تا تو ہر شخص ادائے فر ض کے لحا ظ سے مرا سم عید بجا لا تا جس طر ح حج طوعاً وکرہاً کیا جا تا ہے اور محب‘ غیر محب میں فرق کر نا مشکل ہو تا ہے اب اگر کوئی کہے کہ محبت میر ے دل میں ہے تو ہم کہیں گے کہ اس کے ظا ہر کر نے میں کون سی چیز ما نع ہے ۔ اگر وہ کہے کہ تعیّن وقت بد عت ہے تو ہم کہیں گے کہ بدعت وہ ہے جسکی نظیر شرع میں نہ ملے اور یہا ں نظیر مو جو د ہے یعنے عید قرباں بہر حا ل اگر بنا نا چاہیں تو اسمیں بڑی گنجا ئش ہے اور ہمیں ضروری نہیں کہ ہر با ت کا جو اب دیں صرف اصو ل شرعیہ پیش کر دینے کی ضرورت تھی تا کہ محبیّن صا دق کے لئے کو ئی امر حا ئل اور ما نع نہو۔

روز میلا د خو شی کا دن ہے بخا ری شر یف سے ثبو ت
حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت باسعادت پر اظھار مسرت کا انکار کر نے والے، عوام الناس کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ میلاد پر خوشی کا اظھار کرنا احادیث شریفہ کے خلاف ہے اور میلاد کے موقع پر کھانا کھلانا اور دیگر چیزوں کا اہتمام کرنا دوزخ میں جانے کا راستہ بنانا ہے۔ اس پر استاذ حضرت محدّث دکن علیہ الرحمہ حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ قدس سرہ رقمطراز ہیں۔ ’’چنا نچہ مو اہب میں لکھا ہے کے ثو یبہ رضی اللہ عنہا نے جو ابولہب کی لو نڈی تھی ابو لہب سے کہا کیا تمہیں خبر پہو نچی کہ تمہا رے بھائی عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے لڑکا پید ا ہوا۔ یہ سنتے ہی کما ل مسرت سے اسے آزاد کر دیا۔ بخا ری شر یف وغیر ہ میں روایت ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی قرا بت دار نے اسے خو اب میں دیکھا اور پوچھا کہ کیا حا لت ہے کہا کیا پو چھتے ہو جب سے تم لو گوں سے علٰحد ہ ہوا آگ میں جل رہا ہو ں صر ف پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہو جا تی ہے اور انگو ٹھے اور سبا بہ(شہادت کی انگلی)کے بیچ میں اشارہ کرکے کہا کہ اس رات اس مقا م سے پا نی جا ری ہو تا ہے جسکو میں چو ستا ہوں یہ صر ف اسو جہ سے ہے کہ ثو یبہ رضی اللہ عنہا نے جب مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خو شخبر ی سنا ئی میں نے اسے آزاد کر دیا اور دودھ پلا نے کو کہا تھا۔

مولود شریف پڑھنا سال بھر کیلئے امن کی ضمانت
’’حا فظ ابن جو زی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ جب کا فرکو جس کی مذمت میں ایک سورۃقر آن کی نا زل ہوئی ہے۔ میلا د شریف کی رات خوشی کر نے کا ایسا بد لہ دوزخ میں دیا جا تا ہے تو حضرت کا جو امتی اور موحد ہو اور میلا د کی رات خو شی کر کے حسب مقد ورحضر ت کی محبت میں کچھ خرچ کرے اسکو کیسی جزا ملے گی۔ قسم ہے اسکی جزا یہ ہو گی کہ خد ا تعا لیٰ اپنے فضل و کرم سے اُسے جنت میں دا خل کر یگا ۔ اسی وجہ سے اہل اسلام ما ہ میلا د شر یف میں نہا یت اہتما م کر تے ہیں، کھا نے کھلاتے ہیں اور اظہا ر مسرت کر تے ہیں اور مو لود شریف پڑھو اتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر فضل الہٰی ظا ہر ہو تا ہے، منجملہ اور خا صیتو ں کے اسکا تجر بہ ہو چکا ہے کہ اس سال امن رہتاہے اور مرادات حا صل ہو تے ہیں ۔ خدائے تعا لیٰ اس شخص پر رحم کر ے جو میلا د مبا رک کی راتوں کو عید قرار دے جس کے سبب سے جو لوگ اس کا م کو برا سمجھتے ہیں وہ خوب جلیں۔ انتہی ملخصاً‘‘۔

ہر دو شنبہ کو میلاد منانے کی ضرورت ہے
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اظہار خوشی کیلئے ایک دن خاص کرنا اور اس میں خصوصی اہتمام کرنا درست نہیں، اسکے جواب میں حضرت بانی جامعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بخا ری شریف کی روایت سے ثا بت ہے کہ اظہار مسر ت میلاد کے صلہ ہر دو شنبہ کے روز ابو لہب کے عذاب میں تخفیف ہو تی ہے اور عین دوزخ میں ٹھنڈا پا نی ملتا ہے تو معلوم ہو ا کہ خدائے تعا لیٰ کے نزدیک امثا ل روز ولا دت بھی قابل قدر اور مفید ہیں۔ الحا صل فضیلت امثا ل یو م ولا دت کی بحث بے فا ئد ہ نہیں ہے اسمیں اظہا ر مسرت کر نا دوسرے عالم میں علی حسب مرا تب دفع آفا ت و رفع درجا ت کا با عث ہے ۔ یوں تو ہر دو شنبہ کو ادا کر نے کی ۔ضر ورت ہے جیسا کہ حضرت رو زہ رکھ کر شکر یہ ادا کر تے تھے مگر ہم امتیوں کواتنا تو ضروری ہے کہ سال میں ایک مرتبہ اظہا ر مسر ت کیا کریں۔وَماَ تَوفِیقُنَااِلاَّ بِا للہِ۔

میلاد منانے کے لئے صدق دل وحسن نیت شرط
’’صد ق دل سے جو کا رخیر کیا جائے اسکا کچھ نہ کچھ بد لہ دنیا میں بھی دیا جا تا ہے۔ تو میلا د شر یف پر اظہار مسرت کرنیکے آثار دنیا میں بھی ظا ہر ہو سکتے ہیں ۔مگر یہ یا د رہے کہ بغیر صد ق کے کسی کارخیر کا فا ئد ہ نہ دنیا میں ہو تا ہے نہ آخرت میں۔اگر کوئی وہا بی مثلاً تقیہ کی راہ سے(یعنی اہل حق کی نظر میں اچھا سمجھا جانے کیلئے ) اعلیٰ پیما نہ پر محفل میلاد مر تب کرے یا کوئی اس خیا ل سے کہ لوگ اپنے کو کما ل درجہ کا خو ش اعتقاد خیا ل کر یں اظہا ر مسرت کرے کچھ فائد ہ نہ ہو گا اس کا سر یہ ہے کہ مدار ثواب و عقا ب کا دل کی کیفیا ت پر ہے۔ اچھا کا م بد نیتی سے کیا جائے تو برا ہو جا تا ہے جیسے ریا کی عبا دت ۔اور برا کام نیک نیتی سے کیا جائے تو اچھا ہو جا تا ہے ۔جیسے اصلا ح بین النا س کے خیا ل سے جھو ٹ کہنا ۔غر ض کہ مولود شریف کے آثا ر اگر ظا ہر نہ ہو ں تو اپنا قصو ر سمجھنا چاہیئے۔اگر خلو ص اور صدق کے سا تھ اظہار مسرت کیا جائے تو حق تعالیٰ کی طر ف سے دا رین میں اسکا بدلہ ضر ور عنا یت ہو گا کیو نکہ یہ امر مسلم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حق تعالیٰ کے محبو ب ہیں ۔اور محبوب کے وجود پر جس قدر خو شی کی جا ئے با عث خوشنو دی حبیب ہو گی اور جس سے خد ائے تعالیٰ خو ش ہوا سے کس چیز کی کمی ہے‘‘۔
عید الاضحی ذبیح اللہ علیہ السلام کی دوبا رہ زندگی کی یاد ہے تو
حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سبب یوم میلاد، عید ہے

بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر سال میلاد منایا جاتا ہے۔ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے جواب میں حضرت بانی جامعہ رحمۃ اللہ علیہ کس وقت کے احوال ذہن نشین ہونے کے وقت انسانی طبیعت میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’اگر بالفرض حضرت کی امت حضرت کی ولا دت شر یف کے وقت ہو تی اور انکے وہ سب فو ائد و منا فع جو حضرت کی ذات سے متعلق و وابستہ ہیں سب پیش نظر ہو تے اور حضرت کے فضا ئل ذاتی جو صف انبیاء علیہم السلام میں آپ کو ممتا ز کر نے والے ہیں سب ذہن نشین رہتے تو کہئے کہ اس وقت ما رے خو شی کے انکا کیا حا ل ہو تا ۔ اسمیں ذرا بھی شک نہیں کہ حیو انا ت و ملا ئکہ کو حضرت کی ولا دت سے جو خو شی ہو ئی تھی اس سے بدر جہ زیا دہ ہو تی کیو نکہ حضرت کو جو امت کے سا تھ خصو صیت ہے وہ انکے سا تھ نہیں اگر ہم مرتے دم تک حضرت کی امت میں رہیں اور خدا کرے کہ رہیں تو حضرت کے ساتھ خد ائے تعا لیٰ کے دربار عا م میں قیامت کے روز حا ضر ہونگے ۔یہ شرف عالم میں نہ ملائکہ کو حا صل ہو گا نہ حیوانات کو ۔غر ض کہ امتیوں کو حضر ت کے میلاد شریف کی خو شی ہو نا ایک ضروری اور متقضائے فطرت ہے، جسکا کوئی منصف مزاج امتی انکا ر نہیں کر سکتا ۔چو نکہ اس خوشی سے زیادہ کوئی خوشی نہیں ہو سکتی اس لئے اس کا مقتضٰی یہ تھا کہ ہر وقت اس خوشی کا اثر دل میں لگا رہتا مگر مقتضا ئے طبیعت ہے کہ کیسی ہی نعمت ملے چند روز میں اس کی عادت ہو جاتی ہے اسی کو دیکھ لیجئے کہ سماعت ‘بصارت وغیرہ کیسی نعمتیں ہیں مگر کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ ایسی نعمتیں ہمیں دیگیں اور دینے والے کا شکر ہم پر واجب ہے۔ ایسی نعمت کی تجدید مسرت کیلئے کسی یاد دلانیوالی چیز کی ضر ورت ہے اور وہ یاد دلانے والی چیز زمانے کی معا ودت ہے۔ کیونکہ عام اصطلا ح کے موافق ہر ہفتہ میں ہر دن اور ہر سال میں ہر مہینہ لوٹ کر آتا ہے اور حق تعالیٰ نے بھی اسکا اعتبار فرمایا: دیکھئے عید قربانی میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کے کل واقعات کو پیش نظر رکھنے بلکہ اس کی حکایت کرنے کو فرض کردیا اور حضر ت اسمٰعیل علیہ السلام کی دوبارہ زندگی ہو نے کی عید مسلما نوں میں قرار دی گئی۔ادنیٰ تامل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حج اور عید ذی الحجہ کی حقیقت بظاہر سوائے اس ایک واقعہ کی حکا یت کے اور کچھ بھی نہیں۔ جب اسمٰعیل علیہ السلام کی دوبارہ زندگی پر مسلما نوں کو ہر سا ل عید منانے کا حکم ہوا تو حضرت ابو العا لم، فخر انبیاء ورسل، مسجود خلائق صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعا دت پر امتیو ں کو کس قدر خوشی ہونی چا ہئے‘‘ ۔

روزِ میلاد شیطان کو کمال درجہ کا غم تھا
’’اسی وجہ سے تمام آسمانوں کے ملائک اس خلیفۃاللہ کے سلام کے لئے روزمیلاد حاضر ہوئے جن کا نزول اجلال تمام عالم کے حق میں رحمت تھا جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ومَا أرسلنک الارحمۃللعالمین جب آپ رحمت مجسم ہو کر اس عالم میں تشریف لائے تو کون ایسا شقی ہو گا کہ نزول رحمت سے خوش نہ ہو ۔روایت ہے کہ تمام عالم میں اس روز ہر طرف خوشی تھی مگر شیطان کو کمال درجہ کا غم تھا جس سے زار زار روتا تھا ۔جبرئیل علیہ السلام اسکی یہ حالت دیکھ کر رہ نہ سکے اور ایک ایسی ٹھوکر اسکو ماری کہ عدن میں جا پڑا ۔غرض کہ جسطرح میلاد شریف کا غم کمالِ شقاوت کی دلیل ہے اسکی مسرت کمالِ سعادت کی دلیل ہو گی۔

میلاد شریف کی مسرت پر رحمتوں کا نزول ہو تا ہے
’’جیسا کہ اِس روایت سے ظاہر ہے جو کنزالعمال وغیرہ میں مذکور ہے کہ ابو لہب کو جب ثویبہ نے جو اسکی لونڈی تھی خبر دی کہ تمہارے بھا ئی عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے گھر لڑکا پیدا ہوا اسکواس خبر فرحت اثر سے نہایت خوشی ہوئی اور اس بشارت کے صلہ میں اسکو آزاد کردیا ۔ابو لہب کے مرنے کے بعد کسی نے اسکو خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا تو اسنے اپنے معذب ہو نے کا حال بیان کر کے کہا کہ ہر دو شنبہ کی رات اس خوشی کے صلہ میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پید ا ہو نے میں ہوئی تھی مجھ سے عذاب کی تخفیف ہو جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی نکلتا ہے جسکو چوسنے سے تسکین ہو تی ہے(بخاری شریف ج2 کتاب النکاح)۔ دیکھئے جب ایسا ازلی شقی جسکی مذمت میں ایک کامل سورہ تبت یداابی لھب نازل ہے میلاد شریف کی مسرت ظاہر کرنے کی وجہ سے ایک خاص قسم کی رحمت کا مستحق ہوا اور وہ بھی کہا ں،عین دوزخ میں ۔ تو خیال کیا جائے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کو اس اظہار مسرت کے صلہ میں کیسی کیسی سر فرازیاں ہو نگی اسی مضمون کو حافظ شمس محمد بن ناصر الدین دمشقی رحمۃ اللہ علیہ نے نظم میں لکھا ہے۔
اذا کان ہذا کافراًجاء ذمہ
وتبت یدا ہ فی الجحیم مخلدا
اتی انہ یوم الاثنین دائماً
یخفف منہ للسرور با حمدا
فما الظن بالعبد الذی کان عمرہ
باحمد مسر وراً و مات موحدا

ولادت مبارک کی گھڑی دعائیں مقبول ہوتی ہیں
’’اس روایت سے یہ بھی معلوم ہو ا کہ ہرچند ولادت شریف ایک معین دوشنبہ کے روز ہوئی مگر اسکا اثر ہر دو شنبہ میں مستمر ہے اس لحا ظ سے اگر ہر دوشنبہ اظہار مسرت کے لئے خاص کیا جائے تو بے موقع نہ ہوگا۔

اس وجہ سے ایک ساعت جمعہ میں ایسی ہے کہ جو دعاء اسمیں کی جائے قبول ہو تی ہے تو خیا ل کرو کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی ساعت ولادت میں اگر دعاء قبول ہو تو کونسی تعجب کی بات ہوگی انتہیٰ‘‘۔۔

شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل
’’ علماء نے اختلاف کیا ہے کہ میلاد شریف کی رات افضل ہے یا شب قدر۔ جن حضرات نے میلاد شریف کی رات کو افضل کہا ہے انکے دلائل یہ ہیں کہ لیلۃ القدر کی فضیلت اسوجہ سے ہے کہ ملائکہ اسمیں اترتے ہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ والر وح فیھا اور شب میلاد میں سید الملائکہ والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا نزول اجلال اس عالم میں ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ فضیلت شب قدر میں نہیں آسکتی ۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ شب قدر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور شب میلاد میں خود حضرت کا ظہور ہوا جنکی وجہ سے شب قدر کو ف۔ضیلت حا صل ہوئی اور ظاہر ہے کہ جو چیز ذات سے متعلق ہو بہ نسبت اس چیز کے جو عطاء کی گئی افضل ہو گی ۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ شب قدر کی فضیلت صرف حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے تعلق ہے اوروں کو اس سے کوئی تعلق نہیں ۔اور شب میلاد تمام موجود ات کے حق میں نعمت ہے اسلئے کہ اسمیں رحمۃ للعالمین کا ظہور ہے جو کل موجودات کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے‘‘۔

میلاد خاص دن منانے کا جواز بخاری ومسلم میں
مختلف حربوں کے ذریعہ نا واقف مسلما نوں کو برکات میلاد سے محروم کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے ان میں سے ایک حربہ یہ بھی ہے کہ فی نفسہ میلاد منانا تو جائز ہے لیکن خاص بارہ ربیع الاول کے دن خوشی کا اظہار کرنا اور اس دن خصوصی اہتمام کرنا ناجائز ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کسی دن کو کسی کے لیئے معین کرنا حدیث شریف کے خلاف ہے۔ حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمۃ نے اس اعتراض کی حقیقت کو بخاری ومسلم شریف کی حدیث سے واضح فرمایا ہے آپ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۔

’’اب مولو د شریف کے جو از اور استحباب کی دلیلیں سنئے! نجم الدین غیطی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ ہر سال مولود شریف معین روز میں کرنے کی اصل بخاری اور مسلم کی روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے دیکھا کہ یہود عاشورہ کے روز روزہ رکھا کرتے ہیں اسکی وجہ ان سے دریافت کی انہوں نے کہا کہ یہ روز وہ ہے کہ اسمیں خدائے تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، اسلئے اسکے شکر یہ میں ہم عاشورہ کے روز روزہ رکھا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نحن احق بمو سٰی منکمیعنے تم سے زیادہ ہم اسکے مستحق ہیں ( امام محمد اسماعیل البخاری رحمۃاللہ علیہ،بخاری شریف ج1کتاب الصیام ص268)۔ چنا نچہ آپ نے بھی اس روز روزہ رکھا اور صحا بہ کو بھی اسکا حکم فرما یا اس سے ظاہر ہے کہ جب کوئی اعلیٰ درجہ کی نعمت کسی معین روز میں حا صل ہو ئی ہو اسکی ادائی شکر اس رو ز کے نظیر وں میں کرنا مسنون ہے اور چونکہ کوئی نعمت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعا دت سے افضل نہیں ہو سکتی اسلئے بہتر ہے کہ اس شکریہ میں اقسام کی عبادتیں مثل صدقات اور اطعام طعام وغیرہ روز میلاد شریف ادا کی جائے انتہی ۔ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پیشتر حا فظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسکے قر یب قریب جواز مو لود پر استد لال کیا ہے‘‘۔

میلاد منانا مسنون ہونے کے دلائل
’’امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دوسری اصل مولود شریف کی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د بنفس نفیس اپنا عقیقہ فرمایا با وجود یہ کہ روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عبد المطلب نے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا تھا ۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ عقیقہ دوبارہ نہیں کیا جاتا ۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت کو اس اعادہ عقیقہ سے معلوم کر نا منظور تھا کہ اعلیٰ درجہ کی نعمت پر اگر اعادہ شکر کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ اس لئے میلاد شریف کے روز اظہا ر شکر میں کھانا کھلانا مسرت کرنا مستحب ہے انتہی‘‘ ۔

رسالہ اتمام الکبریٰ علی العالم بمولد المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں حا فظ ا بن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن جز ری کا قول نقل کیا ہے کہ مولود شر یف کی اصل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور ہے۔ مولود کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کا فی ہے کہ اس میں ارغامِ شیطان اور سرورِاہل ایمان ہے انتہی ۔

آپ نے دیکھ لیا کہ ان علماء کی تصریحات سے ظاہر ہے کہ جس سے اس کا مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہو تا ہے ۔ شیخ الاسلام عسقلانی رحمۃاللہ علیہ نے صو م عاشورہ سے جو استدلال کیا ہے اسمیں غو ر کیجیئے کہ باوجود یکہ موسیٰ علیہ السلام کی کامیابی ایک معین عاشورہ میں ہوئی تھی ۔مگر تمام سال کے ایام میں صرف اسی روز کو فضیلت حا صل ہے کہ اس نعمت کا شکریہ اسی روز مکرر ہر سال ادا کیا جائے جس سے ثابت ہے کہ گو واقعہ مکرر نہیں مگر اسکی برکت کا اعا دہ ضرور ہو تا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر دوشنبہ میں ابولہب کے لئے اسکی برکت کا اعا دہ ہو تا ہے‘‘۔

صوم عاشورہ کا مقصد میلاد منانے کی طرف توجہ دلانا ہے
’’بعض علماء نے یہاں پر کلا م کیا ہے کہ صو م عاشورہ منسو خ ہوگیا ہے اسلئے اسکی فضیلت باقی نہیں رہی۔ اسکا جواب یہ ہے کہ رمضان شریف کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزہ کی فرضیت نہ رہی۔ اس سے صوم عاشورہ کی علت جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھی اسمیں کوئی فرق نہیں، آیا اسلئے کہ اسکے منسوخ کرنے کے وقت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فر مایا کے نحن لسنا احق بموسیٰ منکم جس طرح روزہ رکھنے کے وقت نحن احق بموسیٰ منکم فرمایا تھا اور نہ یہ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ گزر کر ایک زمانہ ہو گیا ۔ہر سال اسکا لحاظ رکھنا جائز نہیں کیونکہ اسمیں اعادہ معدوم نظر آتا ہے ۔پھر باوجود اس روزے کے منسوخ ہونے کے احادیث میں اسکے فضائل وارد ہیں جس سے ثابت ہے کہ روزے کا حکم فرمانے کے وقت جو فضیلت ملحوظ تھی وہ اب بھی ملحوظ ہے اور یہ بات مسَلَّم ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہوسکتے اسلئے شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے استد لال پر اسکے منسوخ ہو نے کا کوئی اثر نہیں پڑسکتا ۔اور اگر تسلیم کر لیا جائے کہ اس روزہ کی فضیلت بھی منسوخ ہو گئی تو بھی کوئی ہرج نہیں ۔اسلئے کہ موسیٰ علیہ السلام کی نجات کی بیحد خوشی اگر ہو توان لوگوں کو ہوگی جنکو ان کے امتی ہو نے کا دعویٰ تھا یعنے یہود کو، ہمیں اسکی کیا ضرورت اگر انبیائے سابق کے اس قسم کے واقعات کی خوشی ہم پر لازم ہو تو ہفتہ کے تمام ایام انہی خوشیوں میں صرف ہو جائیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس روزہ سے صرف امت کو توجہ دلانا مقصود معلوم ہو تا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی نجات پر شکریہ ادا کرتے ہیں تو تم کو ہماری ولادت کی بیحد خوشی کرنی چاہئے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر پیر کو روزہ، میلاد منانے کی تعلیم دینا مقصود تھا
’’مگر طبع غیور کو صراحتاً یہ فرمانا گو ارا نہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کر و بلکہ خود ہی اس شکریہ میں روز دو شنبہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے ۔اور اس کی وجہ اس وقت تک نہیں بتائی کہ کسی نے نہیں پوچھا اسلئے کہ بغیر استفسار کے بیا ن کرنا بھی طبع غیور کے مناسب حال نہ تھا۔یہ بات مسلم شریف کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو شنبہ کا روزہ کیو ں رکھا کر تے ہیں، فرمایا کہ وہ میری ولادت کا روز ہے اور اس روز مجھ پر قرآن نازل ہو ا ۔انتہی ۔(امام مسلم بن الحجاج رحمۃاللہ علیہ،مسلم شریف ج1 کتاب الصیام ص328)۔ اب غور کیجئے کہ جب خود بدولت ہمیشہ روز میلاد میں شکر یہ کا روزہ رکھا کر تے تھے تو ہم لوگوں کو کسقدر اس شکریہ کی ضرورت ہے اس لئے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہم لوگو ں کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے۔ اور اگر یہی لحاظ ہو تا اپنی ولادت کا شکریہ ضرور تھا تو فرما دیتے کہ ہر شخص اپنی ولادت کے روز شکر یہ کا روزہ رکھا کرے حالانکہ کسی روایت میں یہ وارد نہیں ہوا ۔اس سے ظاہر ہے کہ اسمیں عمومی نعمت کا لحاظ تھا اور اس سے صرف تعلیم امت مقصود تھی کہ اس نعمت عظمیٰ کا شکریہ ہر ہفتہ میں ادا کیا جائے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ملا علی قاری رحمۃاللہ علیہ نے طیبی رحمۃاللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے کہ جس روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اس عالم میں ہوا اور کتاب عنایت ہوئی تو روزہ کے لئے اس روز سے بہتر کون سا روز ہو سکتا ہے ۔غرضیکہ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ میلا د مبارک کا شکریہ ہر ہفتہ میں ادا کیا جائے پھر اگر سال میں بھی ایک بار اس نعمت عظمیٰ کا شکر یہ ادا نہ کیا جائے تو کس قدر بد نصیبی اور بے قدری ہے۔ غرض کہ تکرار زمانے میں گو اعادہ معدوم نہیں مگر ابتدائی فضیلت اس میں ضرور ملحوظ ہو تی ہے‘‘ ۔

ایک الزام کا جواب
میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر اظہار خوشی کر نے اور محا فل میلاد منعقد کر نے پر یہ کہا جاتا ہے کہ مولود شریف پڑھتے وقت درود وسلام کے موقع پر کھڑے ہو کر شرک کیا جاتا ہے اور ہر سال میلاد مناتے ہیں تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار پیدا ہو نے کے قائل ہیں ‘اس الزام کو حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ حدیث صحیح سے اسطرح دفع فرماتے ہیں ۔ ’’دیکھئے حضرت اسماعیل علیہ السلام جب مذبوح ہو نے سے بچائے گئے جسکے سبب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشی ہو ئی ہر سال اس خوشی کا اعادہ ہوا کر تا ہے ۔اس سے بڑھ کر کیا ہو کہ اس دن عید ہو تی ہے اور اس واقعہ کے پیش نظر ہو جانے کیلئے جس قسم کے افعال وحرکات ان حضرات اور حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے صادر ہوئے اسی قسم کے حرکات کے ہم لوگ حج میں مامور ہیں۔ چنانچہ ہاجر ہ رضی اللہ عنہا نے پانی کی تلاش میں صفا ومروہ میں سات چکر کئے تھے ہم کو بھی حکم ہے کہ اس وسیع میدان میں سات چکر کیا کریں ۔ میلین اخضرین کے مقام میں وہ دوڑی تھیں ہمیں بھی وہاں دوڑنے کا حکم ہے، اسی طرح اور بہت سے افعال ہیں جن سے وہ اصلی واقعہ پیش نظر ہو جاتا ہے۔ اب اگر مولو د شریف کے وقت سید المر سلین صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف فرمائی مسلمانوں کے پیش نظر ہو اور تعظیم کیلئے اٹھ کھڑے ہو ں تو ایسی کونسی بے موقع حرکت ہو گی جس سے لعن وطعن کیا جا تا ہے اور اقسام کے الزام لگائے جاتے ہیں کہ یہ لوگ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے با ر بار پیدا ہو نے کے قائل ہیں، ہم پوچھتے ہیں کیا حجاج دنبہ کو ذبح کر نے کے وقت اسمعیل علیہ السلام کے بار بار ذبح کر نے کا خیال کر تے ہیں ۔ حالانکہ یہ گویا حکایت اسی کی ہے ۔
میلاد شریف کے وقت قیام کر نا شرک یا مکروہ نہیں

بخاری شریف کی کتاب الانبیاء میں روایت ہے جسکا ملخص یہ ہے کہ سفر غزوہ تبوک میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر مقام حجر پر ہوا تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی وہاں کے حالات پر اطلاع ہو ئی اور فرمایا کہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی کوئیں کا پانی پیا کرتی تھی ۔ قوم نے اسکو اسی وجہ سے قتل کر ڈالا کہ وہ ایک روز سب پانی پی جا تی تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے بیحد منع کیا مگر انہوں نے نہ مانا اس پر عذاب نازل ہو ا او روہ سب ہلاک کئے گئے ۔اب تم لوگ اس کوئیں پر اترو جو اونٹنی کے لئے خاص تھا ۔اور دوسرے کوئیں کے پانی سے احتراز کرو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس کوئیں کے پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے۔ فرمایا وہ خمیر اور بچا ہو ا پانی سب پھینکدو اور اس کوئیں کا پانی لو جو اونٹنی کے لئے خاص تھا ۔پھر فرمایا کہ اس قوم کی سکونت گاہ میں جب پہونچو تو روتے ہوئے وہاں سے جلد گزر جاؤ ۔اور اگر رونا نہ آئے تو بتکلف روؤ ۔اس خوف سے کہ کہیں تم پر انکا عذاب نہو جائے۔ چنانچہ جب اس قوم کے مکانات پر پہونچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اپنا سر مبارک ڈھانک لیا اور اونٹنی کو دوڑایا یہاں تک کہ اس وادی سے نکل گئے (یہ خلاصہ ان روایتوں کا ہے جو بخاری اور فتح الباری اور نیز ابن جریر وغیرہ میں مذکور ہیں ) اسی طرح مسلم وغیرہ کی روایتوں سے ثابت ہے کہ حج میں وادی محسرّ جہاں اصحابِ فیل ہلاک ہو ئے تھے وہا ں سے جلد گزر جانا مسنون ہے ۔

اب غو ر کیجئے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس مقام میں جو خوف طاری ہوا اور سب کو رونے کا حکم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تواضع کی حالت میں چادر مبارک سے سر ڈھا نکے ہو ئے نہایت جلدی سے اس مقام سے نکل گئے کیا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ان برگزیدگان حق پر اسوقت سچ مچ عذاب اترتا وہ بھی ایسی حالت میں کہ صرف خوشنودی خدا اور رسول کی غرض سے راہ خدا میں جان دینے کو چلے جارہے ہیں اور تنہا بھی نہیں بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے جنکی شان میں وارد ہے وماکان اللہ لیعذ بھم وانت فیھمیعنے خدائے تعالیٰ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرتا جن میں آپ ہیں۔ پھر حضرت کو اس خوف سے کیا تعلق جو خود بھی جلدی سے وہاں سے گزرگئے۔ کیا کوئی ضعیف الا یمان بھی اس موقعہ میں ناشائستہ خیال کر سکتا ہے ہر گز نہیں۔ پر یہ تمام اٰثار جو اصلی واقعہ کے وجود کے وقت مرتب ہو نے کے لائق ہیں اسوقت کیوں ظہور میں آئے کیا اسوقت اس قوم پر عذاب اتر رہا تھا جسکے دیکھنے سے یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص بے باکانا اس مقام میں چلا جائے تو اندیشہ ہے کہ مبتلائے عذاب ہو جائے۔ ا سلئے کمال خضوع سے روتے ہوئے جانے کی ضرورت ہوئی تاکہ خدائے تعالیٰ اس عذاب سے بچالے اس سوال کا جواب سوائے اسکے کچھ نہیں کہ صرف اصلی واقعہ اسوقت پیش نظر ہو گیا تھا، جس پر آثار خوف مر تب ہوئے ۔پھر یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے سے بھی نہیں فرمایا اسلئے کہ اس ویران مقام میں کیونکر معلوم ہو کہ اونٹنی کا کنواں کونسا اور قوم کے کوئیں کونسے ہیں جن سے پانی لینے کی ممانعت ہوئی بلکہ یہ سب وحی سے معلوم ہو نیکی باتیں ہیں، اس سے ثابت ہے کہ یہ سب تعلیم الہی تھی۔ اب فرمائیے کہ اسوقت جو صرف اصل واقعہ کے پیش نظر ہو نے سے حکم تھا کہ خوف و خضوع ظاہر کریں اسی طرح میلاد شریف کے پیش نظر ہو نے کے وقت آثار فرحت وتعظیم ظاہر کئے جائیں تو خدا اور رسول کی مرضی کے مخالف ہو نے کی کیا وجہ کیا یہ حدیث صحیح نہیں ہے کہ صحابہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا قوموا الی سیدکم۔( امام محمد اسماعیل، بخاری شریف ج2 کتاب المغازی ص926)۔ غرض کہ یہ ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا کہ میلاد شریف کے وقت جو قیام کیا جاتا ہے وہ شرک یا مکروہ ہے‘‘۔

لبّیک اللّٰھم لبّیک سے قیام میلاد کے جائز ہو نے کا ثبوت
’’فتح الباری میں شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حج میں جو تلبیہ یعنے لبیک کہا جاتا ہے اسکی وجہ احادیث میں وارد ہیکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہو ا واذن فی الناس بالحج یعنے لوگوں میں پکار دو کہ حج کیلئے آئیں۔ چنانچہ انہوں نے پکار دیا ۔ اب جو لبیک کہا جاتا ہے اسی کا جواب ہے دیکھئے یہ لبیک حالت احرام میں کس خضوع اور خشوع سے کہا جاتا ہے ۔اگر ابراہیم علیہ السلام کے روبرو بھی یہ جواب دیا جاتا تو اس سے زیادہ تو اضع نہوتی ۔حالانکہ ابراہیم علیہ السلام نے جو بلایا تھا اسکو ہزار سال گزر گئے او روہی آواز ہمارے کانوں گونج رہی ہے پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ولادت تو اسکے بہت بعد ہے اگر اس وقت خاص کا نقشہ ہماری آنکھوں میں کھینچ جائے تو کون سی تعجب کی بات ہے اور جسطرح ہم وقت معین میں فداک ابی وامی یارسول اللہ کہہ کر کھڑے ہو جا ئیں تو کو نسی بری بات ہو گی‘

مولود شریف پڑھنا صحابہ کی سنت
کیا صحابہ نے میلاد منایا تھا‘اگر منا یا تھا تو کیا صحابہ کے زمانہ میںاس طرح محافل میلاد منعقد ہو تے تھے ؟ ماہ ربیع الاول کے آتے ہی اس طرح کے اعتراضات تحریراً و تقر یراًہر طرح سے پھیلائے جاتے ہیں جس سے بسا اوقات بھولے بھالے مسلمان میلاد منانے سے متعلق شک میں پڑجاتے ہیں ‘اور میلاد منانے کے طفیل سارے سال حاصل ہونے والی برکتوں سے محروم ہو جاتے ہیں ۔حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے اس اعتراض کا شافی وکافی جواب دیکر امت مسلمہ کو اس محرومی سے بچایا ہے حضرت لکھتے ہیں۔

’’اب رہی یہ بات کہ مولود شریف قرونِ ثلثہ میں نہیں تھا،تو یہ بھی قابل تسلیم نہیں۔ اس لئے کہ جتنی روایتیں مولود شریف میں پڑھے جاتے ہیں وہ موضوع نہیں بلکہ کتب احادیث میں سب موجود اور صحابہ سے منقول ہیں جس سے ثابت ہے کہ جتنی روایتیں مولود کی کتاب میں پڑھی جاتی ہے وہ سب صحابہ کے زمانہ میں پڑھے جاتے تھے البتہ نئی بات یہ ہے کہ میلاد شریف سے متعلق حدیثیں اگر جگہ جمع کر دی گئیں مگر یہ بھی قابل اعتراض نہیں اسلئے کہ محد ثین نے بھی آخر ہر قسم کی حدیثو ں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے جو صحابہ نے نہیں کیا تھا، پھر صحابہ وغیرہم کا دستور تھا کہ جب کو ئی واقعہ پیش نظر ہوتا تو اس سے متعلق جتنی حدیثیں ہوتی پڑھ دیتے، اسیطرح میلاد مبارک کا واقعہ پیش نظر ہو نے سے وہ سب روایتیں پڑھی جاتی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولود شریف کا پڑھنا صحابہ کی سنت ہے‘‘۔

محافل میلاد منعقد کرنے کی مصلحت
’’ اب اگرمحل اعتراض ہے تو یہی ہے کہ میلاد شریف کی محفل قرون ثلثہ میں اس ہےئت پر نہ تھی۔ سو اسکا جواب یہ ہے کہ اس محفل مبارک سے ایک بڑی مصلحت متعلق ہے وہ یہ ہے کہ یہود و نصا ریٰ اور دوسرے اقوام اپنے اپنے نبیوں کی پید ائش کے روز خوشیاں مناکر اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔ دور اندیش علماء نے یہ خیال کیا کہ بُعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی طبیعتو ں میں بے باکی پید اہو گئی ہے یہاںتک کہ نماز روزہ میں بھی لوگ قصور کر نے لگے جس سے دوسرے اقوام میں یہ خیال پید ا ہو نے لگا کہ اب مسلمانی برائے نام رہ گئی ہے او ر وہ رعب و داب جو جانباز مسلمانوں کا انکے دل میں تھا کہ یہ لوگ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان دینے کو مستعد ہیں جانے لگا ۔اگر یہی خیال انکا ترقی پذیر ہو ا اور مسلمانوں میں کوئی جوش اسلامی باقی نہ رہے توچند روز میں بالکل بے وقعتی کی نگاہو ں سے وہ دیکھے جائنگے اور معرض تلف میں ہو جائینگے۔ اسلئے یہ تد بیر نکالی کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جوش انکے دلوں میں پیدا کردیا جائے۔ چنانچہ مجا لس وعظ میں عموماً ایسے مضامین بیان کر نے لگے جو باعث ازدیاد محبت ہو ں مثلاً شفاعت کا مسئلہ اور صحابہ اور اولیاء اللہ کے فضائل اور حکایات اورمعجزات اور فضا ئل نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیان کر نے لگے جنکے سننے سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ذہن نشین اور باعث ترقی محبت ہو‘‘۔

ولادت کی خوشی مخالفین کو ہر گز نہیں ہو سکتی
’’پھر محفل میلاد کی بنیادڈالی اس سے موافقین اور مخالفین کا امتیاز ہو جائے کیونکہ مخالفین کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی ہرگز نہیں ہو سکتی بلکہ اسکا سخت صد مہ انکے دلوں پر ہو تاہے۔ جس طرح خاص میلاد کے روز شیطان پر ہو اتھا۔ غرض کہ اسکا اثر یہ ہواکہ ہر امیر وفقیر بقدر حیثیت اس محفل مبارک میں روپیہ صرف کرکے اسکا عملی ثبوت دیتا ہے کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے دعا گو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے خوش ہو نیوالو ں میں ہیں۔ جس سے مخالفین پر یہ ثابت ہو گیا کہ مسلمان اس بگڑی حالت میں بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شیفتہ اور دل دادہ ہیں۔ نبض شناسان زمانہ خوب جانتے ہیں کہ جوش محبت اسلامی کوئی معمولی بات نہیں بلکہ یہی جوش مخالفوں سے انکو ممتاز او ر علیحدہ کر نے والا ہے۔ اگر یہ جوش محبت بھی جاتا رہے تو اکثر مسلمانوں کی حالت گواہی دے گی کہ انکو نہ احکام دینیہ سے تعلق ہے نہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت۔ اور ظاہر ہے کہ اس بے تعلقی کا کیسا برا اثر پڑے گا۔ غرض قطع نظر فضیلت اور استحباب کے مولود شریف میں ایک ایسی مصلحت ملحوظ رکھی گئی جو دین ودنیا میں محمود مطلوب ہے‘‘ ۔
نزولِ رحمت کے روز کو عید قرار نہ دے تو اس سے بڑھ کر ناقد ر شناس کون؟
’’اظہار سرور کا حال سنئے کہ باوجو د یکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ لا یحب الفرحین یعنی فرحت والوں کو حق تعالیٰ دوست نہیں رکھتا، مگر فضل اور رحمت الٰہی پر فرحت کرنے کا حکم ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے قل بفضل اللّٰہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا یعنی لوگوں سے کہدو کہ صرف اللہ کے فضل اور رحمت کی خوشی کیا کریں‘‘ ۔

مطلب ان آیتوں کا یہ ہوا کہ اگر کوئی خوشی کرے تو صرف اللہ تعالیٰ۔ کے فضل اور رحمت کی خوشی کرے ۔ اب غور کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم سے اس عالم کو عزت بخشا کیا بڑافضل اور رحمت الہی ہے ۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو کہ آپ ہمہ تن فضل اور رحمت ہیں، چنانچہ النہجۃ السویۃ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام فضل اللہ بھی ہے۔ جس پر ابن وجیہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ حق تعالیٰ فرما تا ہے ولو لافضل اللہ علیکم ورحمتہ لا تبعتم الشیطان الا قلیلاً یعنے اگر اللہ کا فضل او راسکی رحمت تم پر نہو تی تو تم شیطان کی پیر وی کر تے ۔اس سے ظاہر ہے کہ فضل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں انتہی ۔اور اسی میں ذکر کیا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء یہ بھی ہیں۔رحمۃ۔ رحمۃ الامۃ۔نبی الرحمۃ۔ رحمۃللعالمین۔ رحمۃ مہداۃ ا ور آیئہ شریفہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمینکو ذکر کر کے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت نہ صرف مسلمانوں کے حق میں رحمت تھے بلکہ کفار کے حق میں بھی رحمت تھے اور یہ حدیث طبرانی اور حاکم سے نقل کی ہے قا ل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا رحمۃ مھداۃ یعنے میں اللہ کی رحمت ہوں جو تمہارے لئے ہدیہ بھیجی گئی ہے(سنن الدارمی ج1 کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم) ۔اب کہئے کہ ایسے ہمہ تن فضل اور رحمت کے نزول کے روز کو ہم عید نہ قرار دیں تو ہم سے زیادہ ناقد رشناس کون ہو کہ خدائے تعالیٰ کے ہدیہ کی بھی ہمنے کچہ قدر نہ کی حالانکہ فضل اور رحمت الٰہی پر خوشی کرنا ہمارا فرض ہے جو آیۃ مو صوفہ فبذلک فلیفرحوا سے ظاہر ہے ۔

تعین وقت
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی ولادت مبارک تو چودہ سو سال پہلے ہوئی لھذا لحذا ایک گذرے ہوئے واقعہ کی یاد کیلئے کسی دن کو معین کرنا اور اس دن کو عید کا دن سمجھ کر خوشی منانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اس اعتراض کا حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں بڑی ہی عمد گی سے جواب دیا ہے۔ فرماتے ہیں ’’اسکا حال ابھی معلوم ہو اکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم عاشورہ خود بھی رکھا اور اسکے فضائل بیان فرمائے اور اس روایت سے بھی ظاہر ہے جو بخاری شریف کی کتاب الایمان میں ہے کہ کسی یہودی نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپکی کتاب یعنی قرآن شریف میں ایک آیت ہے کہ اگر وہ ہماری کتاب میں ہو تی تو ہم لوگ اسکے نزول کے دن کو عید مناتے آپ نے فرمایا کونسی آیت ہے کہا الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا سلام دینا جسکا تر جمہ یہ ہے کہ آج کے روز میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کیا اورتمہارے دین اسلام سے راضی ہوا ۔عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ آیت کس مقام پر اور کس روز نازل ہوئی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم عرفا ت پر کھڑے تھے یعنے حج کے روز اور جمعہ کا دن تھا‘‘ ۔انتہی

شرح بخاری شریف میں شیخ الاسلام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہاں یہ شبہ ہو تاہے کہ یہودی کا سوال تھا تو یہ تھا کہ اس آیت کی جلالت شان مقتضی ہے اسکے نزول کا روز عید بنایا جاتا اور جواب میں مقام اور وقت نزول بیان کیا گیا جسکو سوال سے کوئی تعلق نہیں حالانکہ جواب میں سوال کی مطابقت چاہئے ۔اسکا جواب یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اشارۃً جواب دیا کہ وہ دونوں روز ہمارے یہاں روز عید ہیں اور ترمذی اور طبرانی وغیرہ کی روایتوں میں یہ بتصریح موجود ہے کہ بحمد اللہ ہمارے یہاں وہ دونوں روز عید ہیں۔

حاصل یہ کہ یہودی کا مقصود تھا کہ اس نعمت عظمٰی کا دن اس قابل تھا کہ عید قرار دیا جاتا جس میں ہمیشہ خوشی ہو اکرتی ہے اس لئے کہ عید عود سے ماخوذ ہے جسکے معنے مکرر ہو نے کے ہیں۔ چونکہ روز عید مکرر ہو اکرتاہے اس لئے اسکا نام عید رکھا گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسکو تسلیم کر لیا چنانچہ اسکے جواب میں کہا کہ ہمارے یہاں اس نعمت کی دوہری عید منجانب اللہ مقرر ہے ورنہ صاف کہدیتے کہ یہ تم لوگوں کی حماقت ہے کہ ایک گز شتہ واقعہ پر ہر سال خوشیاں منایا کرتے ہو -

عید میلاد عیدُ الاَعیاد ہے
’’اب غور کیجئے کہ جب یہ مسلّم ہے کہ کسی نعمت عظمٰ۔ی کے حصول کا دن اس قابل ہے کہ ہمیشہ ا سمیں خوشی اور عید کی جائے تو بتائے کہ مسلمانوں کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور نزول اجلال سے بڑھکر کو نسی نعمت ہو سکتی ہے۔ پھر اگر اس روز خوشی نہ کی جائے تو کونسا دن آئیگا جس میں ایمانی طریقہ سے خوشی کی جائے گی ۔اگر اس آیۃ شریفہ کے نزول کے روز دوہری عید ہے ۔تونزول اجلال سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے روز یعنے میلاد مبارک کے روز اس سے دہ چند زیادہ خوشی اور عید ہو نی چاہئے‘‘۔

متبرک مقامات میں بخُور عُود جلانا مسنون ہے
’’خلاصۃالوفا میں ابن ماجہ کی روایت مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ مسجدوں کو جمعہ کے روز بخور دیا کرو۔ اور لکھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بخورد ان آیا اس کو آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے حوالہ کیا کہ اسمیں بخور جلاکر ہر جمعہ اور رمضان میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلمکو بخور دیا کریں اور ایک شخص اسی کام پر مامور تھا کہ جمعہ کے دن بخور جلاکر ہر شخص کے پاس لیجائیں اور سب کومعطر کریں ۔غرض کہ اماکن اور اوقات متبرک میں بخور کی خوشبو سے اہل جلسہ کو معطر کر نا مسنون ہے‘‘

اصل واقعہ کے تخیل پر بھی آثار مرتب ہوتے ہیں
حضور علیہ الصلو ۃ والسلام کے ادب واحترام اورآپ صلی اللہ علیہ وسلمکی ولادت کی خوشی میں مولود شریف اور کھڑے ہوکر سلام پیش کرنے کو بدعت شرک وغیرہ نام دئیے جا تے ہیں۔ معترضین کے اس زعم باطل کے متعلق حضرت شیخ الاسلام حا فظ محمد انوار اللہ فاروقی چشتی قدس سرہ لکھتے ہیں-
’’اس کا حال اوپر لکھا جا چکا ہے لیکن تکملۃً یہاں بھی لکھا جائے تو بے موقع نہوگا ۔احاد یث مذکورئہ بالا سے ثابت ہے کہ تخیل پر اصل واقعہ کے آثار مرتب ہو نا قطع نظر ا سکے کہ امر طبعی ہے ۔شریعت میں بھی اسکے نظائر موجو د ہیں، جیسا کہ ابھی معلوم ہو اکہ عمر رضی اللہ عنہ نے جب آیت شریفہ وابیضت عیناہ پڑھی تو روتے روتے بیخود ہوگئے۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام تبوک میں اظہار خوف وخشیت کیا۔ اور ابراہیم اور اسمعیل علیہما السلام کی خوشی کا دن ہمیشہ کے لئے روز عید مقرر ہوا ۔اور موسیٰ علیہ السلام کی نجات کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمنے شکریہ کا روزہ رکھا اور ترغیب امت کے لئے اس کے فضائل بیان فرمائے ۔اور اپنی ولادت باسعادت کے روز یعنی ر۔وز دو شنبہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے ۔اور ابولہب کو دوزخ میں پانی پینے کو ملاکر تاہے۔ خاص خاص واقعات کے آثار ان کی خاص قسم کی تخیل پر مرتب ہواکرتے ہیں ۔اس صورت میں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے تخیل پرمسلمانوں کے دل میں فرحت پیدا ہوتو نہ شرعاًوہ مذموم ہے نہ یہ کہنا درست ہو گا کہ جو اصلی واقعہ پر آثار مرتب ہو تے ہیں تخیل پر مرتب کرنا درست نہیں ۔اس بناء پر جتنی حدیثیں اس باب میں وارد ہیں کہ فرحت کے وقت کھڑے ہو جانا درست بلکہ مسنون ہے سب ہمارے مفید مدعاہوگئیں کیونکہ جب مسلمان میلاد شریف کے حالات سنتے ہیں تو ان کو بیحد خوشی ہو تی ہے ا سوجہ سے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف فرما ہو نا انکے لئے نجات اور فرحت ابدی ومسرت ابدی کاباعث ہوا ، کیا کوئی مسلمان ایمان کی راہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ نجات ومسرت ابدی سے زیادہ کوئی نعمت ہر گز نہیں، پھر جب کم درجہ کی فرحتوں میں قیام جائز اور مسنون ہوتو اس اعلی درجہ کی فرحت میں قیام کی کس قدر ضرورت ہو گی ۔اب ان روایتوں کو سنئے جن سے فرحت کے وقت قیام کے مسنون ہونا ثابت ہے ‘‘۔

فتح الباری میں شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے روز عکرمہ یمن کی طرف بھاگ گئے تھے انکی بی بی نے انہیں مسلمان کرکے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں حاضر کیا تو انکو دیکھتے ہی کما ل خوشی سے کھڑے ہو گئے اسی قسم کی اور روایتیں بھی ذکر کیں جنہیں ح۔ضرت جعفر علیہ السلام او رزید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے قدوم کے وقت اور حضرت فا طمہ رضی اللہ عنہاکو دیکھ کر قیام کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکا مذکور ہے ۔

بخاری شریف میں یہ روایت ہے ابصر النبی صلی اللہ علیہ وسلم نسائً و صبیا ناً مقبلین من عرس فقام ممتناً فقال ا للھم انتم من احب الناس الیّ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمنے چند عورتوں اور لڑکوں کو دیکھا کہ کسی کے نکاح سے چلے آرہے ہیں فوراً کھڑے ہو گئے اور فرمایا خدا جانتا ہے تم لوگ سب سے زیادہ میرے محبوب ہو۔(امام محمد اسماعیل ،بخاری شریف ج2 کتاب النکاح ص778) ۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے قام ممتنا کی شرح میں لکھاہے کہ قام اللھم مسرعاً مشتد ا فی ذلک فرحا بھم یعنے کمال فرحت کی وجہ سے نہایت جلدی سے کھڑے ہو گئے اس روایت سے ظاہر ہے کہ یہ قیام معانقہ وغیرہ کے لئے نہیں تھا اسلئے کہ عورتوں اور لڑکوں سے معانقہ درست نہیں بلکہ مقصود اس سے صرف اظہار فرحت تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قدوم احباب کے وقت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمقیام فرمایا کر تے تھے اسکی وجہ بھی اظہار فرحت ہی ہوا کرتی تھی۔ تو اب مسلمانوں کو چاہئے کہ جس وقت میلاد شریف سنیں اور اس میں سردار کونین صلی اللہ علیہ وسلمکا اس عالم میں تشریف فرمانا پیش نظر ہو جائے جو اعلی درجہ کی فرحت کا باعث ہے تو اسوقت ان احادیث کو اپنا پیشوا اور مقتدا بناکر خوشی سے کھڑے ہو جایا کریں اوربدعت اور شبہ فی العبادات وغیرہ شبہات کو ان روایات سے دفع کر دیا کریں یہی امور گویا محفل میلاد کے ذاتیات ہیں اورآپ نے دیکھ لیا کہ وہ فرادیٰ مسنون یا مستحب تو ضرور ہیں‘‘۔

عید میلادبارہ ربیع الاول میں واقع ہے
بعض لوگ عید میلاد ’نو ربیع الاول کے دن ہونے کی بات کر تے ہیں اور اس پراس مقصد سے زور دیتے ہیں کہ بارہویں کی عظمت ذہنوں میں مشکوک ہو جائے اور بارہ ربیع الاول سے جو جذبات وابستہ ہے سرد پڑجائیںجب کہ جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلمکی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول ہی کے دن ہوئی، حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی بارہویں شریف دو شنبہ کے دن کو یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلمقرار دیا ہے چنانچہ آپ کی تحر یرات سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں۔

’’شیخ نجم الدین غیطی رحمۃ اللہ علیہ نے رسالہ مولود شریف میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور ابتداے نبوت اور ہجرت اور مدینہ شریف میں داخل ہونا اور وفات شریف یہ سب امور دو شنبہ کے دن واقع ہو ئے حضرت کے معاملات میں یہ ایسا روز ہے جیسے آدم علیہ السلام کے حق میں جمعہ تھا کہ انکی پید ائش، زمین پر اترنا ۔ تو بہ قبول ہو نا اور وفات سب جمعہ کے دن ہوے۔ اس وجہ سے ایک ساعت جمعہ میں ایسی ہے کہ جو دعاء اسمیں کی جائے قبول ہو تی ہے تو خیا ل کرو کہ سید المر سلین صلی اللہ علیہ وسلمکی ساعت ولادت میں اگر دعاء قبول ہو تو کو نسی تعجب کی بات ہو گی‘‘۔

غرض کہ اس حادثہ جانکاہ سے کل صحابہ کی یہ حالت تھی کہ ان پر زندگی وبال جان ہو گئی تھی اب غور کیجئے کہ جب دوازدہم شریف (بارہویں شریف) کا روز ان شیفتگان جمال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سو ختگان آتش فراق پر آتا ہو گا تو انکی کیا حالت ہو تی ہو گی ۔کیا ایسی حالت میں کسی قسم کی خوشی دل میں راہ پا سکتی ہے ہر گز نہیں۔ ایک مدت تک مسلمانوں کی تقریباًاسی قسم کی حالت رہی متاخرین نے دیکھا کہ اب مسلمانوں کے دلوں پر عموماً وہ جوش محبت تو رہا ہی نہیں جو مقتضی غم وفات ہو ا ور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا ت کے معنے تو صرف اسیقدر ہیں کہ اس عالم سے دوسرے عالم کو تشریف لے گئے ورنہ حضرت کی زندگی میں کیا شک اسلئے اس غم کو جو عارضی تھا کا لعدم کر کے اصلی مسرت او رخوشی کو جسکا اثر قیامت تک باقی ہے پیش نظر رکھااو راس روز کو خالص روز عید قرار دیا جس میں کل اہل اسلام بالاتفاق اپنی محبت او رگرم جو شیاں ظاہر کر کے اپنی محبت کا ثبوت دیں چنانچہ اس قرار داد علماء کو تقر یبا کل اہل اسلام نے مان بھی لیا اور صورت اجماعی منعقد ہو گئی۔

عید میلاد بدعت ہو نے کا الزام اور اسکا جواب
’’دیکھئے صرف ونحو کا علم یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا نہ صحابہ کے زمانہ میں، گو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے چند قاعدے بیان فرما کر اسکی بنیاد ڈالی مگر تدوین اسکے ایک مدت میں ہو ئی اور نہ قال کی اصل قول ہو نے پر کو ئی شرعی دلیل قائم ہو سکتی ہے۔ مگر چونکہ قرآن و حدیث کا سمجھنا سمجھانا ان علوم سے متعلق ہے اسلئے گو وہ بدعت ہیں مگر انکی تعلیم واجب قرار دیگئی، اگر ہمارے دین سے ان علوم کو تعلق نہوتا تو ان کی حرمت پر ضرور فتویٰ۔ دیا جاتا اس سے ظاہر ہے کہ اغراض صحیحہ کے لحاظ سے کبھی وجو ب آجا تا ہے جسکو وجوب لغیرہ کہتے ہیں ۔پھر اگر مولود شریف میں با وجود بدعت ہو نے کے استحباب آجائے تو کیا عجب، غرض کہ علماء جانتے ہیں کہ اغراض مصالح اور جہات کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں‘‘

For More Articles Visit : https://www.shaikulislam.com
Abdul Aziz
About the Author: Abdul Aziz Read More Articles by Abdul Aziz: 2 Articles with 2282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.