شفاف رپورٹ کا دھندلا پن

کل کی خبریں گردش میں ہیں کہ غیر ملکی جریدے فوربز نے ٹرانسپیرسی انٹرنیشنل نے CPI (Corruption Perceptions Index )رپورٹ 2019 شائع کر دی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان نے کرپشن کے معاملے میں موجودہ سال 32 اسکور حاصل کیے اور 180 ممالک کی فہرست میں 120 واں نمبر رہا۔ یہ ریشو پچھلے سال کی نسبت 1 پوائینٹ کم رہی ہے 2018 میں اسکور 32 جبکہ فہرست میں 117 واں نمبر تھا۔ اب ہر وہ بندہ بھی شور مچائے جا رہا ہے جس کو ٹرانسپیرسی کا مفہوم تک معلوم نہیں ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھنے اور اس کے سورس آف انفارمیشن کی تحقیقات کے بعد مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ چاۓ کے ایک کپ کے ساتھ آپ بھی پڑھیے۔

میٹرک کے دنوں کی بات ہے , ہماری کلاس ٹیچر مس عائشہ جو کہ محلےدار بھی تھیں, مجھ پر کافی مہربان رہی تھیں۔ اب اس کی وجہ چچا یا ماموں کا ہینڈسم ہونا سے آگے تک تو میرا ذہن نہیں جاتا ہے۔ بہرکیف جو بھی تھا میری چاروں گھی میں تھیں۔ مجھے روزانہ ساری کلاس کا سبق سننے پر نامزد کر دیا اب یہ میری مرضی تھیں کہ نالائق ترین سٹوڈنٹ کو بھی بوجہ دوستی یا کسی اور غرض کے اوکے کر کے سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتی رہوں اور میں ایسا ہی کرتی ۔ مس عائشہ میرے بیان پر آنکھیں بند کر کے مہر ثبت کر کے اپنی گود میں رکھے ڈائجسٹ کی طرف متوجہ ہو جاتیں ۔ دن بہت مزے سے گزر رہے تھے کہ اچانک ماموں کے لیے لڑکی پسند کر لی گئی اور منگنی کی مٹھائی محلے میں تقسیم کرنے کے بعد مجھے لگا برے دن اب آ ہی چکے۔ پھر اس سے اگلے دن دیکھا گیا کلاس کی مانیٹر صاحبہ نے سبق سنتے تمام کلاس کو سیٹ سے کھڑا کر دیا نہ دوستی کام آئی نہ لالچ۔ ٹیچر نے حیرت انگیز نظروں سے دیکھتے پوچھا ”کیا پوری کلاس کو سبق نہیں آتا“
نہیں مس” میں نے قدرے خوفزدہ آواز میں کہا “
طوفان کے آثار میری دوراندیش نگاہ نے پہلے ہی بھانپ لیے تھے۔
آپ کو آتا ہے ” اب میری پیشی تھی”
میں نے سر نفی میں ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔ پھر وہ دن اور اگلے آنے والے بہت سے دن ہم۔سب کے لیے مشکل ترین ثابت ہوۓ تھے۔ مس عائشہ تو اسکول چھوڑ گئیں لیکن نئی آنے والی ٹیچر اور ایک ماہ بعد دسمبر ٹیسٹ کی رپورٹ نے ہم سے ذیادہ اسکول اسٹاف اور پرنسپل کی نظر میں نئی ٹیچر کے سٹڈی میتھڈ کو بدنام کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے ہماری پوری کلاس ناکام ہو گئی تھی۔۔

اب ریفریش ہو کر دوبارہ رپورٹ ک طرف چلتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اس ادارے کے متعلق جانتے چلیں۔
ٹرانپیرسی انٹرنیشنل (عالمی سطح پر شفاف ترین ) ایک نان گورنمنٹ تنظیم ہے جو کہ جرمنی کے شہر برلن میں 1993 میں بنائی گئی ۔ اس کا مقصد عالمی سطح پر معاشی بدعنوانی سے نپٹنے کے لیے انسداد بدعنوانی کے اقدامات اور بدعنوانی سے پیداہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنا ہے۔

یہ ادارہ سالانہ بنیاد پر کرپشن ( بدعنوانی) کے لحاظ سے ممالک کی فہرست مرتب کرتا ہے . یہ فہرست دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک میں ممالک کی رینکنگ ہوتی ہے جو کہ موجودہ رپورٹ میں 180 ممالک ہیں۔ اور دوسری اسکور فہرست جس کے مطابق 100 میں سے پوائینٹ دئے جاتے ہیں اور اصل رونا انہی 32 نمبروں کا ہے۔ ؟ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم ہمیشہ اسی رینک کے آس پاس گھومتے رہےہیں ۔ کیا پچھلے سال کے 33 نے ہمیں رعایتی پاس کی فہرست میں لا کھڑاکیا تھا ۔ کیا عالمی برادری میں ہماری پہچان کرپشن فری ملک کے طور پر ہوئی ؟ یا ہماری عزت و تکریم میں اضافہ ہوا ؟ ان سوالوں کا جواب یقیناََ ”نہیں “ ہے۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو ہم اس رپورٹ.. کے آنے پر انتہائی فکرمند کیوں ہیں؟

2012 کے بعد صرف 22 ممالک میں انگولا سمیت کرپشن کی ریشو میں بہتری آئی جبکہ 21 میں واضح کمی دیکھی گئ باقی کوئی پیش رفت نہیں ۔ سب سے ذیادہ بدعنوان صومالیہ 180 ویں نمبر اور 9 پواینٹ کے ساتھ جبکہ ڈنمارک اور نیوزی لینڈ رینک 1 میں 87 اسکور کے ساتھ نمایاں رہے۔ ایشیا پیسفک میں کرپٹ ترین ملک بھارت جبکہ پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔

اب چلتے ہیں اس ادارے کے سورس آف انفارمیشن کی جانب تو عوامی سروے کی روشنی میں مرتب ہوتی یہ سائنٹیفک شواہد کی بنیاد پر سکور مرتب نہیں کرتی ہے۔ موجودہ رپورٹ کی بنیاد بھی عوامی سروے تھے جو کہ اس رپورٹ کے مطابق اسی فیصد صوبہ سندھ کے لوگوں کی آرا پر مشتمل تھے۔ سب جانتے ہیں کہ سندھ میں کرپشن کا عالم کیا ہے. پاکستان میں اس تنظیم کے نمائیندے سہیل مظفر ہیں جنہیں نون لیگ کی حکومت نے اس کام پر معمور کیا تھا۔ ان کے اکھٹے کیے اعداد وشمار ہی تنظیم کو ارسال کیے جاتے ہیں۔

اب آخر میں ایک رینک نیچے آنے کی وجہ کی طرف چلیں جس کے بارے میں ن لیگ اور جاوید چوہدری جیسے صحافیوں نے واویلا مچا رکھا ہے۔ اکتوبر 2019 کے آغاز میں نیب کا دعوی تھا کہ کرپشن کی ٹوٹل ریکور رقم 71 ارب ہے اور اگلے دو تین ماہ کی ریکوری کے دوران 153 ارب بالواسطہ یا بلاواسطہ ادائیگی ہوئی ۔اب کہاں پر اعداد و شمار غلط تھے واللہ علم۔ لیکن یہی وہ رقم ہے جس کا ذکر ٹرانسپیرسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں سہیل مظفر کی جانب سے کیا گیا۔ اداروں کی کارکردگی کا بڑھنا اور ریکوری میں اضافے کی اس رپورٹ میں تعریف کے باوجود اگر ہم ایک رینک کم ہوۓ ہیں تو وجہ وہی کلاس مانیٹر ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ سبق کے بغیر نمبر دلوا رہے تھے لیکن اب کلاس ٹیچر بدل چکا ہے اور پٹواری ہوشیار باش۔ آخر میں ایک بات نئی کلاس ٹیچر نے سالانہ امتحان تک کھینچ تان کر سب کو پڑھائی کے راستے ڈال ہی لیا تھا۔

Lubna Jamshed
About the Author: Lubna Jamshed Read More Articles by Lubna Jamshed: 2 Articles with 1407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.