شکاری جال پھیلانے کو تیار ہے

سمندر کی گہرائی کو معلوم کرنے کے لئے پانی میں غوطہ لگانا پڑتا ہے باہر بیٹھ کر کبھی بھی منا سب تجربہ نہیں کیا جا سکتا ۔راقم حالیہ بلدیاتی الیکشن میں آزادامیدوار کی صورت میں حصہ لے کر جنرل کونسلر کی سیٹ پر براجمان رہ چکا ہے۔یاد رہے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر میاں برادران بلدیاتی الیکشن کروانے پر رضا مند ہوئے تھے ۔اور برائے نام کے الیکشن کروانے کے بعد ایک سال تک جیتے ہوئے نمائندوں کو ان کے اختیارات سے محروم رکھا گیا تھا اور باقی ایک سال بعد میاں برادران حکومت سے محروم ہو چکے تھے ،اور پاکستان میں تحریک پاکستان کا سکہ رائج ہو گیا تھا ۔بچارے منتخب بلدیاتی نما ئندے دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہے تھے کہ اب ان کے اختیارات مل جائے گے اور وہ عوام کی خدمت کا جو جوش لے کر میدان میں اترے تھے ان سے دل کو تحسین پہنچا سکے گے مگر انکا کیا معلوم تھا کہ انکی تو زندگی کی سرے سے ہی یہ مشکل حل کر دی جائے گی ۔موجودہ حکو متی عناصر نے سابقہ بلدیاتی اسمبلیاں تحلیل کر دی اور شاہ کا فرمان جاری کیا گیا کہ ہم ایسا نظام لائے گے کہ نیچلے طبقے کو اس سے مستفید کیا جائے گا ۔ہزاروں منتخب نمائندووں کا کیا قصور تھا جو انکا وجود ہی ختم کر دیا گیا عوام میں ایسا تاثر دیا گیا کہ اب ان میں سے کوئی بھی دوبارہ اس عوام کے بھلے کے لئے میدان میں آنے کا نام نہ لے گا ۔بار ہا بار عدالت کا دروازہ کھٹکھانے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوا تمام عناصراپنے اپنے اختیارات کے نشے میں دھت ہو ئے ہیں۔حکومت کا ملک میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروانے کا فیصلہ مذکورہ درخواست لاہور کے سابق لارڈ میئر کرنل مبشر جاوید، 9 نائب ناظمین مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کے بیٹے اور ضلع نارووال کے سابق چیئرمین احمد اقبال کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل خالد رانجھا، احسن بھوں، اعظم نذیر تارڑ، مبین الدین قاضی، اسامہ خاور گھمن اور دیگر وکلا پیش ہوئے۔درخواست گزاروں نے اس بات پر زور دیا کہ پی ایل جی اے-2019 افراتفری میں پیش کر کے اسمبلی سے منظور کروایا گیا اور اس پر بحث بھی نہیں کی گئی تھی۔ نئے قانون کے جاری ہونے سے سابقہ بلدیاتی ادارے اپنی 5 سالہ ائینی مدت پوری کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئے تھے۔درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ 2013 میں منتخب ہونے والے بلدیاتی اداروں کی تحلیل نہ صرف ووٹ اور ووٹرز بلکہ پورے صوبے کے 60 ہزار منتخب نمائندوں کی توہین ہے۔انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ 2013 کے قانون کے تحت منتخب ہونے والے تمام عہدیداران کو ان کی ائینی مدت پوری کرنے اور اس وقت تک پی ایل جی اے کے نفاذ کو معطل کردیا جائے۔جس پر بینچ نے ائندہ سماعت میں صوبائی سیکریٹری قانون اور سیکریٹری بلدیات کو ذاتی طور پر پیش ہونے اور درخواست گزاروں کے وکلا کو بھی جواب دینے کی ہدایت دی۔اس کے علاوہ عدالت نے حکومت کی جانب سے بیوروکریٹس کو بغیر کسی جمہوی کارروائی یا نگرانی کے بلدیاتی فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار دینے کے حکم نامے کے خلاف دائر حالیہ درخواست پر صوبائی حکومت کو بھی نوٹس جاری کردیے۔پنجاب اسمبلی نے نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ قانون منظور کرلیا۔ بل کے مطابق صوبہ بھر میں ویلیج کونسل اور شہروں میں محلہ کونسلوں کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر جب کہ تحصیل اور میونسپل کی سطح پر انتخاب جماعتی بنیادوں پر ہو گا۔نیا بلدیاتی نظام دو مسودات قانون کے ذریعے نافذ ہو گا۔ پنجاب اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کے متن کے مطابق سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنے پینل دیں گی۔ بل کے تحت تحصیل اور ویلیج کونسل کا نظام قائم ہو گا۔بل کے متن کے مطابق لوکل گورنمنٹ پانچ حصوں پر مشتمل ہو گی۔ جس میں تحصیل کونسل، ویلیج کونسل، نیبر ہڈ کونسل، میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن شامل ہوں گی۔پنجاب کے 9 اضلاع کو میٹرو پولیٹن کا درجہ دیا جائے گا۔ میٹرو پولیٹن اسمبلی کی تعداد زیادہ سے زیادہ تعداد 55 اور ویلیج کونسل کے ارکان کی تعداد کم سے کم 8 ہو گی۔نئے بلدیاتی انتخابات میں نوجوان، ٹیکنوکریٹ کی نشستیں اور تعلیم کی شرط ختم کر دی گئی ہے، جب کہ اسمبلی کی مدت بھی پانچ سال سے کم کر کے چار سال کر دی گئی ہے۔ اقلیتی علاقے میں اقلیتی نمائندہ ہی الیکشن لڑ سکے گا۔بل کے متن کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی عمر کم سے کم 25 سال مقرر کی گئی ہے۔نئے نظام میں گوجرانوالہ،فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، ڈی جی خان، بہاول پور، ساہیوال اور لاہور کے دو ڈسٹرکٹس میں میٹرو پولیٹن کارپوریشنیں قائم کی جائیں گی۔پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2019 کی منظوری کے دوران اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی تجاویز کو بل میں شامل نہیں کیا گیا۔ لٰہذا وہ اِس بل کو مسترد کرتی ہے۔بل پیش کرتے وقت اپوزیشن کے ارکان نے بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا۔ ایوان میں کارروائی کو ایک طرف رکھ کر اِس بل کو پاس کرایا گیا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ صوبے کے 36 اضلاع میں نچلی سطح پر 60 ہزار نمائندے ہیں، جو عوام کی حقیقی خدمت کر رہے تھے۔ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں لوکل باڈیز کے جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔ موجودہ حکومت نے لوکل باڈیز کے فنڈز نو ماہ منجمند کیے رکھے اور اَب منتخب نمائندوں کا قتل کر کے ایڈمنسٹریٹرز سے فنڈز کی بندر بانٹ کردی گئی ۔
 

Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 131253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.