اسٹیج،گل پوشی،شال پوشی اور سستی شہرت

این آر سی اور سی اے اے کے قوانین کو لیکر ہندوستان کا ہر شہری سڑکوں پر اُتر آیا ہے اور اس بات کااعلان کیا جارہا ہے کہ حکومت کےاین آر سی اور سی اے اے کے قوانین کو ہم ہرگز نہیں مانیں گے،حکومت کی طرف سے جو قوانین عمل میں لائے جارہے ہیں انہیں کھلے طو رپر ٹھکرانے کی بات کی جارہی ہے۔گلی کے نکڑ سے لیکر مسجد کے منبر تک،مسجد کے منبر سے لیکر ایوان اقتدار تک بی جے پی کے ان شیطانی قوانین کا انکارکیا جارہا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ جو قوم دوسو تین سو روپئے میں اپنے ووٹ بی جے پی کو دینے کیلئے تیارہوجائے تو کیا وہ قوم سہولیات کی لالچ میں ان قوانین کو ماننے سے انکار نہیں کریگی؟۔ہمیں یقین ہے کہ جو آج لوگ سڑکوں پر اترآئے ہیں،ان میں سے25 فیصد ہی لوگ کل قوانین کو ماننے سے انکار کرینگے باقی سب حکومت کی جھولی میں جا گرینگے۔ہم یہ نہیںکہتے ہیںکہ عوام کواس ملک کے دستور کو ماننے سے انکار کرنا چاہیے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جس قانون سے تعصب کی بو آرہی ہو اور جو قانون جمہوریت کو کھوکھلا کردے اس قانون کو ماننے سے انکار کرنا چاہیے،ہم نے پچھلے دنوں ہی احتجاجوں کے دوران دیکھا ہےکہ کس طرح سے قوم کے لیڈران کہلانے والے لوگ احتجاجات کرنے کیلئے پولیس سے پرمیشن مانگنے کیلئے مجبور ہوچکے تھے اور پرمیشن کیلئے اس طرح سے منتظر تھے کہ وہ پروٹیسٹ نہیں کانٹیسٹ کرنے جارہے ہیں۔احتجاج،احتجاج ہوتا ہے اور ا س کیلئے کسی کی اجازت یا منظوری نہیں پڑتی،بلکہ اطلاع دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔مگر ہم لوگ اجازت کو ہی بنیاد بنا کر اپنے آپ کو حکومت و پولیس کی تحویل میں کرنے لگے ہیں۔دوسری طرف قیادت کی بات کی جائے تو خود اپنے اتحاد و بھائی چارگی کا پیغام دیتے ہیں اور جب مل کر کام کرنے کی بات آتی ہے تو وہ اوور ٹیک کرکے نکل جاتے ہیں۔کچھ تنظیمیں ایسی ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی تنظیم میں شرکت کے بغیر کچھ کام ہوہی نہیں سکتااور ان تنظیموں س ہٹ کر کام کرنے والے نہ حب الوطن ہیںاور نہ ہی قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ،بلکہ یہ لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ ان کی تنظیموں سے ہٹ کر کام کرنے والے لوگ کسی بھی طرح کا جذبہ نہیں رکھتے اور نہ ہی یہ لوگ قوم کے تئیں مخلص ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ملی و قومی معاملات کاحل کسی سیاسی بیانر یا پارٹی کے بیانر تلے ممکن نہیں ہے،بلکہ اس کیلئے سیاست اور تنظیم کے بیانر سے اونچا ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔بیانر پوسٹر،اسٹیج،گل پوشی،شال پوشی کی لالچ اس قدر ملت اسلامیہ پر چھائی ہوئی ہے کہ آج اُن کا اپنا وجود خطرے میں ہونے کے باوجود اب بھی وہ ایسی کھوکھلے عہدوں کی آس رکھتے ہیںجس کا کوئی وجودنہیں ہے۔کسی کہ کئے کرائے پر اپنا نام درج کرنا آج عام بات ہوچکی ہے،محنت کوئی اور کرے شہرت کسی اور کو چاہیے۔ہوناتو یہ چاہیے کہ جو لوگ اخلاص کے ساتھ کام کرنا چاہ رہے ہیںاُن کی تائیدمیں لوگ آگے آئیں۔جو لوگ ملت اسلامیہ کی سودے بازی کرتے ہیںاُن لوگوں کو قائد بنانا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔جن لوگوں کو اچھے برے کی تمیز نہیں ہے اور جو پیسوںکی خاطر کبھی ادھر تو کبھی اُدھر کورخ کرتے ہیںتو وہ لوگ کیسے قائد قوم بن سکتے ہیں۔جس کے ساتھ دشمنی نبھانی ہے ان کے ساتھ دشمنی نبھانے کی طاقت نہیں ہوتی بلکہ فیس بک اور واٹس ایپ پر ہی اپنوںکی ہی تنقید وہ برائی کرتے ہوئے لوگ وقت صرف کررہے ہیں تو کیا ایسے لوگوں سے تبدیلی کی اُمید کی جاسکتی ہے؟۔کہنے تو کچھ لوگ اخلاص اور اللہ کو راضی کرنے کیلئے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کہیں استقبالیہ تقریرمیں یا شکریہ کے کلمات میں ان کا نام چھوٹ جائے ،اخبار کی خبروں یا ٹی وی کی بائٹ میں ان کا چہرہ چھوٹ جائے تو ان کیلئے بدلالینے زندگی کا مقصد بن جاتا ہے اور جو انہیں نظرانداز کرتے ہیں وہ ان کیلئے آر ایس ایس سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔کام کرنا ہے تو اخلاص کی ضرورت ہے اور جو لوگ دوسروں کے کام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں وہ خود کامیاب نہیں ہوسکتے بلکہ اپنے کام کو انجام دینے کیلئے جو کام کرنا چاہتے ہیں وہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ملت اسلامیہ اپنے درمیان ایسے لوگوںکی شناخت کریںاور اُن لوگوں کودور رکھیںجو ان کا مقصد اسٹیج،گل پوشی،شال پوشی اور سستی شہرت ہے۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.