محبت ایک سزا (چوتھا اور آخری حصہ)

تم خود کو کیا سمجھتی ہو تم بہت حسین ہو،تم جیسا دنیا میں کوئی اور نہیں ہے کتنی آسانی سے تم نے ایک بے لوث آدمی کی محبت کا مذاق اڑایا۔تم اس معصوم شخص کی محبت سے جو تمہارے خاطر موت اور زندگی کی دہلیز پر کھڑا ہے۔تم بہت خود غرض ہو اگر اسے کچھ ہو گیا تو تم خود کو معاف نہیں کر پائوں گی۔ ردا نے حنا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ایک اضطہراب میں مبتلا تھیں کوئی فیصلہ کر نہیں پا رہی تھی۔ پھر نہ چاہتے ہو ئے بھی جانے کیوں وہ ردا کے ساتھ افضل بیگ کے گھر چل دی۔ اُس نے جیسے ہی افضل بیگ کے گھر قدم رکھا تو اسے لگا گھر کا ہر کونہ اس کی چاپ سے مانوس ہے۔ اس کے نام اور نقش سے آشنا ہے ۔ پھر ردا اسے افضل کے کمرے میں لے گئی۔ بستر پر بے ہوشی کی حالت میں لیٹا ہوا شخص اس کا کچھ نہیں تھا۔ دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپکے اور اس کے سیاہ اسکارف میں جذب ہو گئے۔

“حنا پلیز میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا“ افضل بیگ کا جملہ اس کے کانوں سے ٹکرایا ، یکدم اسے لگا ابھی افضل بیگ اُٹھے گا اور ہمیشہ کے لیے روک لے گا ۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے دا جی کا چہرہ آیا وہ دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی۔ افضل بیگ کی طبعیت کافی حد تک سنھبل چکی تھی ۔ اسے ردا کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ اسے دیکھنے آئی تھی۔ اور اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں نے ہر قفل کو کھول دیا تھا۔

اُس کی نظر اچانک بوکے پر پڑی جو بیڈ سائیڈ ٹیبل پر ُرکھا ہوا تھا ۔ جناب یہ بوکے میں نہیں لائی یہ وہ ہی لائی تھی جس کی آنکھوں میں ، میں نے تمہارے لیے محبت کے جذبات کو دیکھا تھا ، ردا نے افضل بیگ سے مخاطب ہو کر کہا اور ساتھ ہی سفید لفافہ لہرایا ، یہ آپ کے لیے کسی کا پیام محبت ۔ افضل بیگ بستر سے اُٹھ بیٹھا ، لفافہ چاک کیا خط نکالا اور پڑھنے لگا-

افضل بیگ صاحب !
زندگی اتنی سستی نہیں کہ ہم اسے دائو پر لگا دیں ۔ ہمارے لیے ماں باپ کی وہ محبتیں معتبر ہوتی ہیں ، جو وہ تمام عمر ہم پر بے دریغ لٹاتے ہیں ۔ اس دن میں نے آپ کی ماں کی حالت کو دیکھا اُن کی روتی ہوئی آنکھوں کی طرف دیکھا مجھے آپ پر بہت غصہ آیا تھا۔ محبتیں خود غرض نہیں ہوتیں اور نہ ہی محبتوں کی معراج ہوتی ہیں ۔ آپ خوش نصیب ہے جس سے محبت کرتے ہے اُس سے اظہار کر سکتے ہے۔ مگر چند کم نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی خاموش محبت کو تمام عمر اپنے من کے مزار میں دفنا کر رکھتے ہیں ۔ میں جا رہی ہوں مگر اپنی محبت اور مان کے تحت آپ کو پابند کر کے جا رہی ہوں ۔ کہ آپ کبھی ان رستوں کی طرف سفر نہیں کریں گے۔ پتہ نہیں آپ کو یہ بات خوشی دے گی یا دکھ ، میں پھر بھی بتا رہی ہوں افضل بیگ آپ نے مجھے پا لیا ہے ۔ اب لانا آپ کا کام ہے ۔

“حنا نور الدین“
بوکے اور کاغذ وہیں پھینک کر وہ باہر کی طرف بھاگا وہ آخری بار صرف اور صرف اس کی آنکھوں میں وہ دیے دیکھنا چاہتا تھا جو اس کی محبت سے روشن ہوئے تھے ۔ ایک بار اس پھولوں بھری روش میں قدم رکھنا چاہتا تھا اور صرف اس ایک لمحے پر وہ اپنی ساری زندگی گزار سکتا تھا ۔ اسے خبر نہیں تھی کہ وہ دیر کر چکا ہے اور تقدیر کے فیصلے کی اسپیڈ اس کی اسپیڈ سے کہیں زیادہ تھی۔

حنا کیا بات ہے تم بہت گم سم ہو تمہیں اچھا نہیں لگا میرا سب کچھ بتانا ۔“بولتے بولتے حشمت علی کو احساس ہوا کہ بولے ہی جا رہا ہے مگر حنا کا دھیان اس کی باتوں کی طرف نہیں ہے ۔ حشمت علی اسے بہت اچھا لگتا تھا مگر اب بیچ میں افضل بیگ آ گیا تھا ۔ اس نے دل کے کواڑ بہت سختی سے بند کیے تھے ۔ مگر وہ تو خوشبو کے جھونکے کی طرح اس کی زندگی میں آ گئی تھی ۔ جس کا رستہ کوئی دیوار در نہیں روک سکتے تھے۔ اس نے سیٹ کے پیچھے گردن ٹکا کر آنکھیں موند لیں تھیں کہ سفر ابھی کافی لمبا تھا۔
افضل بیگ اپنے نئے دفتر کے لیے چین جا چکا تھا اور اسی میں ایسا مصروف ہوا ، نہ تو اُس نے شادی کی اور نہ ہی کسی سے اظہار محبت ۔ خط اُس کے ہاتھ میں تھا جس پر تحریر تھا “اب تم یاد نہیں آتے“
 

Faisal Bhatti
About the Author: Faisal Bhatti Read More Articles by Faisal Bhatti: 15 Articles with 12974 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.