تعلیم کی حالت

تعلیم کی زبوں حالی پاکستان میں

ماضی بعید میں کراچی کا جامعہ ملّیہ پرانی روایتوں کا حامل ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہوا کرتا تھا جس میں تعلیم حاصل کرنے کی دلی خواہش ہر طالبعلم رکھتا تھا-اور کیوں نہ رکھتا جامعھ ملّیہ کے طالب علم ہی ہر سال کراچی میں اول،دوم یا سوئم درجوں میں سے کسی نہ کسی درجے پر فائز ہوا کرتے تھے-اساتذہ کرام بہت تندھی اور جانفشانی سے طلبہ کی تعلیم و تربیت کیا کرتے تھے-جامعہ ملّیہ کا نام کراچی کے اچھّے تعلیمی اداروں میں سر فہرست ہوا کرتا تھا-یہاں کا طالبعلم نہ صرف علم و دانش میں یکتا ہوتا تھا بلکہ قومی جذبے اور حبّ الوطنی سے بھی سرشار ہوا کرتا تھا-مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس تعلیمی ادارہ میں بھی اور دوسرے دیگر اداروں کی طرح شکست و ریخت کا عمل شروع ہو گیا-70 کی دہائی کے اواخر اور اسکے بعد اس ادارے کی حالت ابتر ہوتی چلی گئی-تعلیمی معیار گرتا چلا گیا-طلباء میں علم و ہنر کے حصول اور حبّ الوطنی کا جذبہ سرد پڑتا چلا گیا-اچھے اساتذہ رفتہ رفتہ داغ مفارقت دے گئے-اور نئے آنے والوں میں وہ لگن اور چاہ نہیں رہی-اس طرح اس فقیدالمثال درسگاہ کا وہ معیار قصہ پارینہ بن گیا جسکے علم دوست لوگ گن گایا کرتے تھے-طلبہ میں متحارب گروہ بن گئے اور مار پیٹ روز کا معمول بن گئی-آئے دن پولیس کا عمل دخل رہنے لگا-عمارت اور سازوسامان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے اور آثار قدیمہ کا منظر پیش کرنے لگے-اب اسکا کوئی پرسان حال نہیں-
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

یہ تصویر صرف ایک تعلیمی ادارہ کی نہیں ہے بلکہ میرے وطن عزیز کے اسی طرح کے بے شمار گہوارہ علمی اسی صورت حال کا شکار ہوئے-سستی اور معیاری تعلیم کا نظام انحطاط کا شکار ہو کے اپنی موت آپ مر گیا-بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ مزید برآں آسان اور بغیر محنت و قابلیت کے تعلیمی اسناد کے حصول کا وہ چلن چلا جس نے علم و دانش کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی-ایسے ایسے منفی ہتھکنڈے وجود میں آئے جن کا تصوّر کسی دانش گاہ میں پہلے کبھی گناہ سمجھا جاتا تھا-اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والا طبقہ ان بونے عالموں اور فاضلوں پر مشتمل تھا جو کسی جامعہ سے سند یافتہ تو تھے لیکن علم سے بے بہرہ،تحقیق و جستجو سے عاری اور دانش و حکمت سے خالی تھے-شومئی قسمت سے میرے ملک کی باگ ڈور آج کل اسی علم سے تہی دست طبقے کے ہاتھ میں ہے!

تعلم کی اس زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے نجی شعبے نے وقت سے فائدہ اٹھایا اور ایسی نجی تعلیم گاہوں کی بنیاد رکھی جس میں داخلہ ایک خطیر رقم کے عوض ہی ہوسکتا ہے-علمی لیاقت اور ذاتی قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی –جسکے پاس دولت ہے وہ کسی بھی پیشہ ورانہ تعلیم گاہ میں داخل ہو سکتا ہے-اس نظام نے ان طلبہ کا گلا گھونٹ دیا جو علم و آگہی میں بہت برتر مگر مال و دولت میں کم تر ہیں-میرے ملک میں اکثریت ایسے ہی طلبہ پر مشتمل ہے-تعلیم کو صنعت بنا دیا گیا- نااہلی کے خلاء کو مال و دولت سے بھرا گیا!

اس تعلیمی کسمپرسی میں مبتلا ملک عزیز کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صحیح معنوں میں پڑھا لکھا طبقہ جو کہ ملک کی آبادی کے تناسب سے بہت قلیل تعداد میں تھا، اسکا ایک معتدبہ حصّہ ملک چھوڑ گیا اور باقی خون کے گھونٹ پی کے رہ گیا-( اس وقت لا تعداد افراد مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں ،کچھ اپنے شعبوں میں نمایاں کام انجام دے رہے ہیں ،لیکن ان گنت افراد گوشہ گمنامی میں ہیں)-

علمی انحطاط اور تحقیقاتی پسماندگی کی ایک زندہ مثال میرے اپنے شعبہ یعنی اطلاقی طبعیات سے پیش کی جا سکتی ہے- تعلیمی معیار کی گراوٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب اس طالبعلم کو ایم ایس سی میں داخلہ مل جاتا ہے جو کم از کم کسی سائنسی مظہر کی تعریف بیان کر سکتا ہو-کلیّہ اخذ کرنا یا مساوات حاصل کرنا چاہے نہ جانتا ہو! اور کسی سائنسی تجربہ کے مشاہدات سے حاصل شدہ اعداد و شمار کو کسی کلیّہ میں سمو کے چاہے محسوب نہ کر سکتا ہو-لیکن بی ایس سی کی سند رکھتا ہو-اس دور میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے- ذرّاتی طبعیات اور فلکیات میں ہفتہ وار بنیاد پر نت نئے نظریات اور مشاہدات منکشف ہو رہے ہیں، برقیات اور نیم موصل ٹیکنالوجی میں روزانہ کی بنیاد پہ تجدید اور تغیّر و تبدّل ہورہا ہے و ہاں ہماری جامعہ اس سند یافتہ طالبعلم کو داخلہ دینے پہ مجبور ہے جس کی قابلیت دسویں درجے کی سائنس سے زیادہ نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہی بلند ترین معیار ہے ان طلبہ کا جو داخلے کی درخواست جمع کراتے ہیں، باقی ان سے بھی گئے گزرے ہیں! کم و بیش سب ہی شعبہ ہائے علوم کا یہی حال ہے-

تعلیمی شعبے کے اس زوال نے قوم و ملک کو ایک ایسے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کی کوئی امّید نظر نہیں آتی ،میرے منہ میں خاک- پچھلی دو نسلیں ذہنی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکی ہیں اور مستقبل قریب میں اس حظ عظیم سے نکلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے-آئندہ آنے والی نسلوں میں کوئی امّید کی کرن پھوٹتی نہیں دکھائی دیتی-

شکوہ بجا لیکن مایوسی گناہ ہے- کوئی نہ کوئی طریقہ یا ذریعہ اس کربناک صورت حال سے نکلنے کا ضرور ہوگا- خدا نے ہر غیرمطلوب کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نجات ضرور پیدا کی ہے-ہرکرب کے لیے طرب اور ہر دشواری کے لیے آسانی پیدا کی ہے- صرف اسکو پہچاننے اور اختیار کرنے کی دیر ہے- بقول شاعر،
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصّہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اسی شمع کی تلاش اور جستجو کرنی چاہیے- اس دیار مغرب میں رہتے ہوئے بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے- لیکن کیا اور کیسے یہ طے کرنا ہوگا!

حل مسئلہ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان وجوہات پر نظر ڈالی جائے جو اس صورت حال کا موجب بنی ہیں ، پھر ترجیحات متعيّن کر کے باری باری ان وجوہات کو رفع کرنے کے لیے تجاویز وضع کی جائیں اور طریقۂ کار کا تعیّن کیا جائے- اور پھر طے کیا جائے کہ عملی طور پر ہم اس میں کتنا اور کیسے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں-

تعلیمی نظام کے ڈھانچے کی اساس بنیادی طور پر تین اجزاء سے مرکّب ہے، جس میں سر فہرست اساتذۂ کرام ہیں پھر تعلیمی ادارے کا نظم اور بنیادی ضروریات کی فراہمی شامل ہیں- اور سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ ان تین اجزاء کو آپس میں بطریق احسن جوڑنے اور ایک بھرپور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایمانداری، خلوص اور حسن نیّت کا ہونا لازمی ہے- پھر ہر ایک جز کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے مختصر اور طویل میعادی اہداف کا تعيّن ہونا چاہیے تاکہ اس نظام میں روز افزوں ترقّی ہو- پھر ان اہداف کو بنیاد بنا کے ان کے ماحصل کا مطالعہ کیا جائے اور قابل عمل تجاویز کے ذریعے ضروری تبد یلیاں بروئے کار لائی جائیں۔ اس طرح ایک متحرّک نظام تشکیل پائے گا-

اساتذہ کی تربیت تعلیمی عمل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے- اساتذہ بہترین تربیت یافتہ ، پرخلوص ، قومی جذبہ اور حب الوطنی سے سرشارہوں اور طلبہ کی تعلیم وتربیت کرنے میں بے غرضی سے اپنی صلاحیتیں کھپانے کا جذبہ رکھتے ہوں- ایک بہت ضروری بات یہ ہے کہ اساتذہ معاشی طور پر بے فکر ہوں یعنی ان کی آمدنی کم از کم ایک درمیانے درجہ کی زندگی گزارنے کے لیے کافی ہونی چاہیے-

تعلیمی ادارے کا نظم سخت ہونا ضروری ہے- معمولی وجوہات اور بہانوں کی بنیاد پہ ادارے کے نظم اور اصولوں پہ سمجھوتہ نہ کیا جائے- تعلیم کے بلند معیار اور اہداف کے حصول پر کڑی نظر رکھی جائے- طلبہ کے لیے قابل حصول اور بلند تعلیمی معیار مقرّر کیا جائے- طلبہ کو ذہنی طور پر پرکھ کے انکے رجحان کے مطابق مضامین تجویز کیے جائیں-

ادارے کے ليے کم ازکم ایک معمولی نوعیّت کی عمارت مگر مکمّل تعلیمی سازو سامان کے ساتھ ہونا ضروری ہے-

آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ پورے پاکستان میں سب کے لیۓ یکساں، سماجی طبقات سے ماوراء اور ایک ہمہ گیر نوعیت کا نظام تعلیم ہو-
مگر
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ---------------
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 43326 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More