استحکام پاکستان میں افواج پاکستان کا کردار

وطن عزیز پہ مرمٹنے کی بات ہو، اسلام کی سربلندی کا فریضہ ہو، دہشتگردوں کو مار بھگانا ہو، غداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہویا پھر آفات سے نپٹنا ہو یہ غازی یہ پر اسرا بندے سینہ سپر نظر آتے۔ یہ میرے فوجی جوان کمر کس و چوکس نظر آتے ہیں۔ اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی جہاں آکسیجن ختم ہو جاتی ہے۔ یہ جوان وہاں دفاع پاکستان کو آکسیجن مہیا کرتے نظر آتے ہیں۔ برف پوش پہاڑوں پہ جہاں درجہ حرارت گرتے گرتے منفی چالیس پہ آجاتا ہے مگر ان کے ایمان کی گرمی اپنے پورے درجہ حرارت کے ایک پوائنٹ بھی کم نہیں ہوتی۔ جہاں گولیاں بارود اور آگ برسا رہی ہوتی ہیں یہ جوان اپنے لہو سے اس آگ کے لیے فائر فائٹر بن جاتے ہیں۔ شعلے برساتا سورج ، دوپہر کی تپتی دھوپ اور آگ اگلتی زمین پہ یہ جوان الرٹ کھڑے اور پہرہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لہو جلادینے والی گرمی ہو یا خون منجمد کر دینے والی سردی اس دیوانے، مستانے اورجنت کا پروانے کی ہمت نہیں توڑ سکتے۔ جہاں درندوں کا راج ہوتا ہے۔ وہاں یہ وطن کو درندوں سے محفوظ بناتے ہیں۔ بارش کے پانی سے غذا کی کمی دور کرتے ہیں۔ جب سرحدوں پہ غذا نہیں پہنچتی تو یہ کسی سے شکوہ کنا ں نہیں ہوتے۔ بلکہ پتیکھا کر گھاس اور جھاڑیو ں سے پیٹ کی آگ بجا کر ملک کو اغیار کی آگ سے بچاتے ہیں۔

اس کی خوشی ہو یا غمی فوجی بیرکوں کے سنگ ہوتی ہے۔ عید ہو مذہبی تہوار ہو یا قومی اسے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ اپنا سب کچھ قوم کے مستقبل کے لیے داؤ پہ لگاتا ہے۔ چاھے سے کوئی قیمت بھی ادا کرنا پڑے۔ ان کے بچے یتیم ہوتے ہیں۔ مگر یہ قوم کے ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر وطن دشمنوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنے رہتے ہیں۔ آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کہ دیکھ لیں تاریخ پاک فوج کے کارناموں سے روشن نظر آئے گی۔ جہاد کشمیر ہو، سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوانا ہوں، حرمین شریفین کی حفاظت کرنا ہویا جسد فلسطین کے زخموں پہ مرہم رکھنا ہو پاک فوج کا اجلا کردار نظر آتا ہے۔

سیاچن بارڈر کو ہی دیکھ لیں کہ یہ جوان موت کے دہانے بیٹھے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہیں مخصوص لباس پہننا پڑتا اور اس لباس سے جسم کا ایک حصہ بھی باہر رہ جائے تو شل ہو جاتا ہے۔ قضائے حاجت کرتے ہوئے بھی دقت پیش آتی ہے۔ اتنی سخت سردی کے پانی بھی منجمد ہو جاتا ہے۔ اٹھارہ ہزار فٹ کی اونچائی پہ آکسیجن کی بھی کمی ہوجاتی ہے۔ سانس پھولنے لگتی ہے مگر ان جوانوں کے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ ان کے گھروں کی چھتیں سلامت نہیں ہیں مگر وطن عزیز پہ یہ سائبان حفاظت بنے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا مستقبل انتہائی تاریک نظر آرہا ہوتا ہے۔ مگر یہ قوم کے مستقبل سنوارنے میں جان جوکھوں میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔

صرف پاکستانی میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں پاک فوج کو عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور پاکستانی عوام بھی اپنی فوج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ پاکستان کا ہر فرد، ہر بچہ، ہر بوڑھا اور ہر جوان خود کو پاک فوج کا سپاہی سمجھتا ہے۔ اس محبت کو اس مثال سے سمجھ لیجیے کہ جب 1965 میں پاک بھارت معرکہ ہوا تو عورتوں نے اپنے زیورات تک اتار کے پاک فوج کے قدموں میں نچھاور کردیے تھے۔ اور پاک فوج نے بھی کبھی قوم کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ ہمیشہ دین فروشوں اور ایمان فروشوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے۔ ملک دشمنوں کے دانت کھٹے کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہود و نصاری ملک پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔

اسی پاک فوج کے جوانوں نے بیک وقت اندرونی وبیرونی دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ یہ بغیر کسی لالچ وطمع اور بغیر کسی حرص ہوس کے ملک پاکستان کی سالمیت کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایسے ایسے مقامات جہاں موت یقینی ہو ان جوانوں کو خدا کے علاوہ کسی کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ اور یہ جوان شہادت جیسی سعادت کو سینے سے لگا موت جیسے طاقتور چیز کو بھی شکست دے دیتے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک نظریاتی ملک ہے۔ اور یہ نظریہ اسلام ہے۔ اور پاک فوج کا ہر جوان خود کو اسلام کامجاہد سمجھتا ہے اورشہادت کے جذبے سے سرشار ہو کر لڑتا ہے۔ اور یہ جذبہ ہی ہے جسے پوری دنیا مل کر بھی شکست نہیں دے سکتی۔ کبھی خبر نہیں سنی کہ پاک فوج کے مجاہدین نے خطرناک وادیوں میں پہرہ دینے سے انکار کیا ہو یا کبھی اپنی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے لیے کوئی احتجاج جلسہ ہا جلوس نکالا ہو۔ کیونکہ ان مجاہدین کا مطلوب و مقصود شہادت ہے۔ نا کہ مال غنیمت اور کشور کشائی۔

پاک فوج کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ اب بھی کوئی چشم تصور سے دیکھنا چاھے تو دیکھ سکتاہے کہ کس طرح اڑتالیس، پینسٹھ، اکہتر اور کارگل کی جنگ میں پاک فوج نے پاک سرزمین کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔ ان کی قربانیاں رہتی دنیا تک ناقابل فراموش رہیں گی۔ شہداء کے کارنامے جرات مندانہ مقابلے کون بھول سکتا ہے۔ لانس نائیک محفوظ ہوں، میجر عزیز بھٹی ہوں، راشد منہاس ہوں، حوالدار لالک جان ہوں یا پھر کرنل شیر خان ہوں انہی جوانوں نے اپنے خون سے نقشہ پاکستان کو رنگین کیا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا پینسٹھ کے موقع پہ بیان کہ ’’میرے عزیز ہم وطنو ! دس کروڑ عوام کے امتحان کا وقت آپہنچا ہے۔ رات بھارت نے پاکستان پہ بزدلانہ حملہ کردیا۔ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔۔۔‘‘

آج بھی جب سنا جاتا ہے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اس کے جذبات کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ ایک بات زہن نشین کر لیں کہ پاکستانی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے۔ جدید اسلحہ اور دفاعی قوت سے مالا مال ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ نے اسے ایٹمی طاقت سے بھی نوازا ہے اور اس کا ہر فوجی جوان وطن کی حرمت کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتاہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان سمیت بیشتر ممالک کو دہشت گردی کا سامنا تھا اور تمام ممالک تاحال اس پہ قابو نہیں پاسکے لیکن پاکستان نے انتہائی مختصر عرصے میں نا صرف اس پہ قابو پایا بلکہ امن و امان کی عظیم مثال بھی قائم کردی۔ اسی وجہ سے ہم سر عام اسلامی شعائر پہ عمل کرسکتے ہیں۔ اذانیں دے سکتے ہیں، نماز روزہ قربانی بخوبی ادا کرسکتے ہیں تحریر وتقریر کی کھلی اجازت ہے۔ یہ سب پاک فوج کے دم سے ہے۔

دنیا میں پاکستان واحد نظریاتی ملک ہے۔ جس کی بنیاد نظریہ اسلام پہ ہے۔ اس لیے پوری دنیا کا کفر ملت واحدہ بن کر سونے کی اس چڑیا کو شکار کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں جانے دیتا۔ مگر اﷲ کے یہ شیر ان تما م بھیڑیوں سے ملک پاکستان کی سرحدوں کو ناصرف محفوظ بلکہ ناقابل تسخیر بنائے ہوئے ہیں۔ یہود ونصاری ہوں یا ہندو جیسی متعصب قوم ہو یہ جوان ان کو نکیل ڈالے ہوئے ہیں۔ بھارت جیسا ازلی دشمن ہو اسرائیل جیسا شاطر دشمن ہو یا دغاباز امریکہ بہادر ہو اس وقت اگر کوئی ان کے مذموم مقاصد کے آگے رکاوٹ ہے تو وہ صرف اور صرف پاک قوج کے مجاہدین ہیں۔ جو صرف اﷲ سے ڈرتے ہیں۔ نہیں تو مسلمان ممالک تو بے شمار اور بھی ہیں۔ ان کی افواج بھی ہیں۔ اور وہ معاشی طور پہ پاکستان سے کء گنا مستحکم بھی ہیں مگر پھر بھی دنیا بھر میں جب کبھی عالم اسلام پہ کڑا وقت آتا ہے۔ یا پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی حدود کی بات ہو تی ہے۔ تو ہراول دستے میں یہی پراسرار بندے نظر آتے ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نا صرف پاک فوج کی قابلیت بلکہ پاک فوج کی قبولیت بھی ہے جو اسے دوسرے تما م ممالک کی اسلامی افواج سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کا جذبہ جہاد اور جرات و بہادری ہے۔ جس بنا پہ پاکستان کا ہر فرد پاک فوج میں جانے کا خواہشمند ہوتا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ’’یقین، اتحاد، اور تنظیم ‘‘پاک فوج آج بھی انہی اصولوں کے مطابق رواں دواں ہے۔ یوں تو پاک فوج کے ذیل میں بے شمار ادارے کا م کررہے ہیں مگر انتظامی اعتبار سے انہیں تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ’’پاک فضائیہ، پاک بحریہ اور پاک ملٹری‘‘ یہ تینوں شعبہ جات قابلیت جرات اور بہادری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی لازوال قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

پاک فضائیہ میں ایم ایم عالم جنہوں نے 65 کے معرکے میں صرف تیس سیکنڈ میں انڈیا کے 6 طیارے تباہ کردیے۔ اسی طرح نشان حیدر ہولڈر راشد منہاس نے کم عمری میں ہی غدار وطن مطیع الرحمان کو کیفر کردار تک پہنچا کہ وطن کو بڑے نقصان سے بچایا تھا۔ یہ کوئی فسانہ نہیں بلکہ حقائق ہیں اسی طرح کے حقائق سے پاک فوج کے کردار مالا مال ہے۔

پاک بحریہ کی بات کی جائے جنہوں نے سمندری راستے سے دین و ملک کے دشمنوں کا سیلاب روکے رکھا ہے۔ نا جانے کتنے نوجوان وطن کی حفاظت کرتے کرتے سمندر برد ہو جاتے ہیں۔ نا کوئی تمغہ ملتا ہے اور ناہی کوئی تاریخ ہی انہیں اوراق میں حصہ دیتی ہے۔۔ایسے گمنام مجاہد ین کے جہاد کے بدولت ہماری سمندری سرحدیں محفوظ ہیں۔ اور جہاں تک ہماری بری فوج کا تعلق ہے تو ملک پاکستان حالت جنگ میں ہو یا حالت امن میں اس نے ہمیشہ ملکی سالمیت کی خاطر جان ہتھیلی پہ رکھ کر میدان عمل میں قربانیاں دی ہیں۔ سیلابوں سے لیکر محاذوں تک ان کا کام صرف ملکی حفاظت اور عوام کا تحفظ ہوتا ہے۔ میجر عزیز بھٹی کو ہی دیکھ لیں جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار جرات اور بہادری کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ذات کی بالکل پرواہ کیے بغیر بالکل دشمن کی تو پوں کے سامنے آکر ڈٹ کر مقابلہ اور جان آفریں کے سپرد کردی اور حکومت پاکستان نے انہیں نشان حیدر جیسے ایوارڈ سے نوازا ۔

یہاں اگر میں سب حساس ادارے کے گمنام مجاہدین کے بارے میں بات نا کروں تو بہت بڑی خیانت ہوگی۔ جی بالکل آئی ایس آیی کی بات کررہا ہوں۔ جن کو نا تو کوئی نام ملتا ہے اور نا ہی کوئی مقام اور نا ہی شناخت دی جاتی ہے۔ یہ گمنام مجاہد ملک کے اندر باہر ہر جگہ ملک دشمنوں پہ نظر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ دفاع کی آخری لکیر ہوتے ہیں۔ یہ اقبال کے شاہیں ہر معاملات پہ عقابی نظر گاڑے رکھتے ہیں۔ اور اغیار کی گِدوں پہ نظر رکھتے ہیں اور موقع ملتے ہی دشمن پہ جھپٹ لیتے ہیں۔ یہ مجاہد گلی محلوں کچرے کے ڈھیروں سیوریج کی پائپ لائنوں میں جہاں انسانی نسیں بند ہو جاتی ہیں اور یہ وہاں بیٹھ کر وطن دشمنوں پہ نظر رکھے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی پاگل کے روپ میں اور کبھی کسی بھکاری کے روپ میں بیٹھ کر ملک پاکستان کی حفاظت کررہے ہوتے۔ یہ اپنا کام اس وقت تک کرتے رہتے جب تک کوئی مشن مکمل نہیں ہو جاتا۔ یا یہ مار نہیں دیے جاتے۔ یہ اپنے بال بچے کی پرواہ کیے بغیر دنیا کے ہر کونے میں نظر آتے ہیں۔ کبھی کسی پارلیمنٹ کا رکن بن کر کبھی مسجد کا امام بن کر تو کبھی کیمرا اٹھائے صحافی بن کر یا کسی فوج میں ایک سپاہی بن کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ اگر بیرون ملک گرفتار ہوجائیں یا گولی سے اڑا دیے جائیں۔ نا تو ان کی رہائی کے لئے کوئی قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ نا ہی شہید ہونے کے بعد ان کی میت کو تجہیز و تکفین کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے۔

یہ انٹیلی جنس اداروں کے سپاہی۔ یہ گمنام مجاہد ہی ہیں جن سے یہودونصاری خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے آج تک کبھی کوئی وطن دشمن پالیسی کامیاب نہیں ہونے دی ۔ ہر واقعہ رونما ہونے سے پہلے دبوچا ہے۔ سلام پیش کرتا ہوں ایسے گمنام مجاہدین کو جو وطن اور کی محافظ نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ خفیہ جنگ کے مجاہدین جن کی قابلیت کا لوہا پوری دنیا مانتی ہے اور دنیا بھر کے خفیہ اداروں میں سے سر فہرست سمجھتی ہے۔ یہ وطن عزیز کی حفاظت کے لیے اور امن کی بالا دستی کے لیے چوبیس گھنٹے اور سات دن اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔

Ahmed Zeeshan
About the Author: Ahmed Zeeshan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.