جامعة الرشید

کراچی(رپورٹ:عبدالجبارناصر)جامعة الرشید کے تعلیمی سفر کے10سال کی تکمیل اور کیمپس 2کے آغاز کی تقریب میں مختلف جید علما، تاجر رہنماﺅں اور معززین شہر کی بڑی تعداد نے شرکت کر کے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ دینی، علمی اور اصلاحی کام کو آگے بڑھانے کیلئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ شرکاء نے جامعة الرشید کے عظیم الشان علمی اور اصلاحی منصوبوں کو سراہتے ہوئے انتظامیہ اور سرپرستوں کو زبردست سراہا۔ مقررین نے کہا کہ علماء دینی مدارس اور ان کے معاونین اسلامی شعائر کے محافظ ہیں، مدارس کا شعبہ اصلاح معاشرہ کیلئے کام کرنیوالا سب سے بنیادی اور اہم مورچہ ہے، علماء اور مدارس کے ساتھ تعاون خیر کیلئے مستقل سرمایہ کاری ہے، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس کار خیر میں اپنا کردار ادا کرے۔ جامعة الرشید کے تعلیمی سفر کے10سال کی تکمیل اور عظیم الشان کیمپس 2کے تعمیری کام کے آغاز کی خصوصی تقریب کا اہتمام گزشتہ روز جامعة الرشید کیمپس 1 احسن آباد کے سبزہ زار پر کیا گیا۔ تقریب میں مختلف علماء،مشائخ ‘ تاجر رہنما‘ عمائدین شہر‘ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور طلبہ کے علاوہ دیگر افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تقریب سے جامعة الرشید کے شعبہ تخصصات کے سربراہ مفتی ابولبابہ شاہ منصور، ڈائریکٹر کلیة الشریعة مولانا سید عدنان کاکا خیل ، مشیر وزیر اعلیٰ سندھ زبیر موتی والا، چیئرمین یونائیٹڈ موبائل حاجی عبدالرﺅف عیسی، صدر چیمبر آف کامرس انڈسٹری سعید شفیق ، تاجر راہنماء صدیق شیخ،مولانا فیصل احمد،شفیق نجم اور راجہ عبدالعزیز نے خطاب کیا ۔اس موقع پر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد اور جامعة الرشید کے استاذ الحدیث مولانا عبدالحلیم چشتی‘ جامعة الرشید کے شیخ الحدیث مفتی محمد‘ شعبہ فلکیات کے انچارج مولانا سلطان عالم‘ ”KIMS“کے عمران قریشی اور دیگر ذمہ دار بھی موجود تھے۔ مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علماء معاشرے کی اصلاح اور اسلامی شعائر کے محافظ اور مدارس اس سلسلے کا سب سے بنیادی اور اہم مورچہ ہیں، جس قوم نے بھی ان کو نظر انداز کیا وہ اپنی پہچان اپنے عقائد اور نظریات کو برقرار نہیں رکھ سکی، جس کی واضح مثال امریکا اور افریقہ میں غلام بنائے جانیوالے وہ مسلمان ہیں جن کو وقت کے حکمرانوں نے غلام بنایا۔ امریکا میں غلام بنائے جانیوالے مسلمانوں کے پاس علماء نہیں تھے جس کی وجہ سے آج ان مسلمانوں کی نسل عملاً عیسائی بن چکی ہے جبکہ افریقہ میں غلام بنائے جانیوالے مسلمانوں کے پاس دینی مدارس اور علماء موجود تھے جس کی و جہ سے ان کی نسل آج بھی اسلام پر قائم ہے جبکہ مختلف شعبوں کے تحت افریقی مسلمان اصلاح معاشرہ اور اسلام کی اشاعت کیلئے اپنا بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس اور علماء اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرنے میں مصروف ہیں جبکہ بعض عناصر کو علماء کا یہ کردار پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ عناصر آئے روز مدارس اور علماء کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اچھے مسلمان نہیں بنتے اس وقت تک اچھے پاکستانی بھی نہیں بن سکتے، معاشرے کی مختلف برائیوں ،لادینی اور دیگر مشکلات سے بچنے کیلئے اچھا مسلمان بننا نہایت ضروری ہے، ورنہ بڑے بڑے عہدوں اور پر تعیش زندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ مولانا سید عدنان کاکا خیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عصری تعلیمی نظام صالح افراد پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ خطے سے انگریز تو چلا گیا لیکن اپنا تعلیمی نظام چھوڑ گیا۔ انہوں نے کہا کہ جامعة الرشید کی مجلس علمی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیمی نظام اور اصلاح معاشرہ کیلئے کوشاں ہے۔ جامعة الرشید کی بنیاد 10سال قبل رکھی گئی۔ آج اس کے اندر 25مختلف تعلیمی شعبوں میں کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ناظم آباد کی ایک کچی مسجد میں جس کام کا آغاز کیا تھا ان کے اخلاص اور محنت کی وجہ سے وہ جامعة الرشید کی شکل میں بھرپور انداز میں جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس اور علماء کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد کا بھی اس میں بہت اہم کردار ہے۔ انہوں نے جامعة الرشید میں قائم مختلف تعلیمی شعبوں حفظ قرآن، 8سالہ درس نظامی، ایک سالہ صحافت کورس،4سالہ کلیة الشریعة، ایک سالہ تخصص فی الافتائ، دارالافتاء برائے مالیاتی و تجارتی امور، تخصص فی المعاملات المالیہ، ایک سالہ تخصص فی الدعوة و التدریس، تخصص فی القرات، حفاظ عربک وانگلش لینگویج کورس، معہدالرشید العربی، شادباد پاکستان سوسائٹی، پاک حلال کونسل، مدرسہ ام حبیبہ للبنات و البیرونی گرلز اسکول ، ایک سالہ انگلش لینگویج کورس، بچوں کا اصلاحی کلب، لاوارث بچوں کیلئے کفالتی تربیتی ادارے ماویٰ ،البیرونی ماڈل سکینڈری اسکول وانٹرمیڈیٹ کالج، جامعة الرشید کیمپس 3لاہور، شاہ ولی اللہ ایجوکیشن اصلاحی کیمپس 4، مکاتب الرشید، کراچی انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ سائنس، شعبہ تکمیل علمائ، فلکیات و رویت ہلال سمیت دیگر شعبہ جات کے اغراض و مقاصد، کارکردگی اور تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ درس نظامی کے تحت350، صحافت کورس کے تحت 100علمائ، کلیة الشریعة کے تحت200سے زاید، تخصص فی الافتاء کے تحت 750سے زاید، تخصص فی الدعوة والتدریس میں100سے زاید، معہد الرشید200 سے زاید اور دیگر شعبوں کے تحت ہزاروں طلبہ اور عام افراد مستفید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر شعبے میں تعلیمی، تربیتی اور اصلاحی معیار کو ہر لحاظ سے برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ تمام شعبے جامعة الرشید کی مجلس علمی سوسائٹی کے تحت قائم ہیں جہاں تمام امور باہمی مشاورت سے طے کیے جاتے ہیں اور تمام شعبوں کی نگرانی مختلف جید علماء اور ماہرین کرتے ہیں۔ چیئرمین انویسٹمنٹ بورڈ حکومت سندھ اور مشیر وزیر اعلیٰ سندھ زبیر موتی والا نے کہا کہ جامعة الرشید کے تعلیمی نظام میں دینی و دنیاوی تعلیم کو ملا دیا گیا ہے، ملا اور مسٹر کی تفریق کو ختم کر دیا ہے، انہوں نے کہا کہ میں تاجر برادری کی طرف سے جامعة الرشید کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دنیا بھر کے اداروں کو چلانے کیلئے ان کے ساتھ دینی اداروں کا تعلق ضروری ہے۔ چیئرمین یونائیٹڈ موبائل حاجی عبدالرﺅف عیسی نے کہا کہ جامعة الرشید کی انتظامیہ کے مشکور ہیں کہ انہوں نے تاجر برادری کو قریب آنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے کہا کہ 10سال میں اتنا طویل سفر طے کرلینا انتہائی حیران کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کے پاس موقع ہے کہ جامعة الرشید کے سفر میں شامل ہو اور دین و دنیا کے ملاپ کا فریضہ سرانجام دے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام شعبے ہارڈویئر ہیں جبکہ دین ان سب کا سافٹ ویئر ہے FPCCIکے ایڈوائزری سیکشن سے منسلکی صدیق شیخ نے کہا کہ جامعة الرشید کے تعلیمی شعبوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے پیش کش کی کہ اگر جامعة الرشید ہمارے شعبے کے ساتھ مل کر کام کرے تو ہم بھر پور تعاون کریں گے۔ انہوں نے جامعة الرشید کے تعلیمی شعبوں کے لئے ماہرین و تجربہ کار عملہ کی خدمات پیش کرنے کا اعلان کیا۔ صدر چیمبر آف کامرس انڈسٹری سعید شیخ نے کہا کہ پاکستان کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ علم کے پھیلاﺅ کے ساتھ معاشرے میں تبدیلی کی بجائے مزید بربادی آرہی ہے۔ سیلاب اور زلزلے کے باوجود ہماری قوم نہیں سنبھلی آج افرادی قوت بہت ہے مگر اس کا نتیجہ نہیں نکل رہا۔

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) جامعة الرشید کیمپس 2کا عظیم الشان کمپلیکس5 منزلہ 4 عمارتوں پر مشتمل ہوگا جس کے پہلے مرحلے پر 50 کروڑ روپے سے زاید خرچ ہوں گے جبکہ منصوبہ 4 تعمیری مراحل میں مکمل ہوگا جس کی پہلی عمارت کو کلیة الشریعة کے تحت یونیورسٹی، گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کو 4 سالہ درس نظامی کی تعلیم کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ دوسری عمارت درس نظامی کے 8 سالہ کورس، تخصص فی الفقہ، تخصص فی فقہ المعاملات، تخصص فی القرات، معہد الرشید العربی اور دیگر شعبوں کے لیے مختص ہے۔ تیسری عمارت کراچی انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ سائنس کے مختلف شعبوں اور چوتھی عمارت البیرونی ماڈل سیکنڈری اسکولز و انٹرمیڈیٹ کالجز کے لیے مختص ہے۔ کیمپس 2 کا تہہ خانہ 50 سے زاید گاڑیوں کی پارکنگ، اسکواش کورٹ، بیڈمنٹن کورٹ، ٹیبل ٹینس اور 750 سے زاید افراد کی گنجائش والے آڈیٹوریم، فٹنس جیم اور سوئمنگ پول پر مشتمل ہوگا۔ گراﺅنڈ فلور پر انتظامی بلاک ہوگا جس میں 26 مختلف شعبوں کے انتظامی دفاتر قائم ہوں گے ۔ پہلی اور دوسری منزل مختلف شعبوں کی کلاس، کمپیوٹر لیب، لائبریری، لیکچر ہال اور سائنس لیب کے لیے مختص ہوگی۔ تیسری اور چوتھی منزل طلبہ کی، رہائش گاہوں، وضو خانوں اور طہارت خانوں کے لیے مختص ہوگی۔ پانچویں منزل کی چھت پر ہاکی گراﺅنڈ، فٹ بال گراﺅنڈ، ورزش ٹریک، لان ٹینس کورٹ، والی بال گراﺅنڈ اور سبزے کے لیے مختص ہوگی۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق اس عظیم تعلیمی منصوبے کے پہلے مراحلے کی تکمیل کے لیے 50 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

جھلکیاں
کراچی ( اسٹاف رپورٹر )٭ جامعة الرشید کے 10سالہ تعلیمی سفر کی تکمیل پر کیمپس 2کے تعمیراتی کام کے آغاز پر پروقار تقریب کا انعقاد جامعة الرشید کے سبزہ زار میں کیا گیا۔٭ شرکاء کی رہنمائی کے لیے سپر ہائی وے سے جامعة الرشید تک خصوصی رضاکار تعینات کیے گئے تھے۔٭ جامعہ کے طلبہ کے لیے پہلی،دوسری اور تیسری منزل کی گیلریوں میں سینکڑوں نشستیں لگائی گئیں تھی۔٭ جامعة الرشید کے باہر مہمانوں کی رہنمائی ،پارکنگ،سیکورٹی اور دیگر امور کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں تھیں جو رہنمائی کیلئے مصروف عمل رہیں۔٭ جامعہ کے مین گیٹ کے پاس ہی واک تھروگیٹ نصب کیا گیا تھا۔٭ تقریب گاہ کے باہر استقبالی کیمپ قائم کیا گیا تھا جہاں پر مہمانوں اور دیگر شرکاء کا استقبال کرتے ہوئے رضا کاروں نے انہیں خصوصی پاس جاری کیے۔٭ سبزہ زار میں شرکاء کیلئے خصوصی نشستیں لگائی گئیں تھی جبکہ مہمانوں کے ساتھ تعاون کے لئے 3ہیلپ سینٹر اور ایک میڈیا سینٹر قائم کیا گیا تھا۔٭اسٹیج پر 2روسٹرم موجود تھے اور جلسہ گاہ میں مائیک اور اسٹیج پر سبزہ زارمیں بڑے اور چھوٹے پروجیکٹ کے ذریعے شرکاء کو جامعہ کے مختلف اغراض ومقاصد اورتعارف سے آگاہ کیا جاتا رہا۔٭ مہمانوں کو جامعہ کے مختلف شعبوں کے تعارف کے حوالے سے خصوصی مواد کی فراہمی کو ممکن بنایا گیا۔جس میں جامعة الرشید کے مستقبل کے منصوبوں اور موجودہ شعبہ جات کے حوالے سے تفصیلات موجود تھیں۔٭ تقریب کا آغاز نماز عصر کے بعد ہوا۔٭ اجتماع گاہ میں مہمانوں کی آمد5: 45پر شروع ہوئی۔ ٭ تقریب کا آغاز قاری احسان الحق کی تلاوت سے 6:05پر ہوا۔٭ تلاوت کے بعد کلیة الشریعة کے طالب علم سلطان قمر نے حمد و نعت پیش کی۔٭ شعبہ تخصصات کے رئیس مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے استقبالی کلمات ادا کیے۔٭ مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کی خدمات پر مولانا عدنان کاکاخیل نے روشنی ڈالی۔٭ اذان مغرب کے ساتھ ہی پہلی نشست کا اختتام ہوا۔٭ دوسری نشست کے آغاز پر جامعہ کے طالب علم نورالحسن نے نعت رسول مقبول پیش کی۔٭ مولانا عدنان کاکاخیل نے جامعہ کے مختلف شعبوں کا تعارف پیش کیا جو 8بج کر 15منٹ تک جاری رہا۔مفتی فیصل احمد نے تخصیص فی المالیات وتجارتی امور، سرشفیق نجم نے البیرونی اسکول وانٹرمیڈیٹ کالج اور راجہ عبدالعزیز نے شادباد پاکستان سوسائٹی کا تعارف پیش کیا۔٭ پروجیکٹر کے ذریعے جامعة الرشید کیمپس 2کے حوالے سے ڈاکیومنٹری پیش کی گئی جسکا دورانیہ 36منٹ تھا۔٭ تقریب میں تاجر رہنما حاجی عبدالرؤف عیسیٰ،صدیق شیخ، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر سید شفیق، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اور انویسٹمنٹ بورڈ کے چیئرمین زبیر احمد موتی والا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔٭ تقریب کا اختتام ممتاز عالم دین اور جامعة الرشید کے استاذالحدیث مولانا عبدالحلیم چشتی کی خصوصی دعا کے ساتھ 9بج کر 23منٹ پر ہوا۔٭ شرکاء کیلئے سبزہ زار ہی میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔٭ تقریب کے اختتام کے بعد نماز عشا ادا کی گئی جس کے بعد عشائیے کا آغاز ہوا۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 96540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.