عوام کو مہنگائی اور مسائل سے کون نجات دلائے گا؟

یوں تو اس وقت پورا ملک ہی مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے جس طرف نظر ڈالو کوئی نہ کوئی مسئلہ سر اٹھا ئے کھڑا ہوا ہے جس سے نظر چورا کر آگے بڑھ جانا مسئلے کا حل نہیں ہے اگر تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور کراچی سمیت پورے ملک کو اون کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل حل نہیں نہ وہوں ہمارے یہاں کے مسائل حل نہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نہ توخود اپنے حصہ کا کام کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں جبکہ اکثر سرکاری ملازم چاہے وہ افسر ہو یا ما تحت اسے صرف اپنی تنخواہ اور اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے وہ نہ تو وقت پر آفس آتا ہے اور نہ ہی اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں سرکاری ادارے ایک دوسرے پر الزام لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے بھی مسائل میں اضافی ہوتا ہے مگر ان مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری کوئی بھی ادارہ نہیں لیتا جیسا کہ کوئی بھی حکومت ایسی نہیں ہوتی جو یہ نہ کہہ کہ خزانہ سابقہ حکومت نے خالی کر کے دیا ہے اور جب یہ حکومت جاتی ہے تو پھر نئی آنے والی حکومت بھی یہی کہتی ہے کہ خزانہ جانے والی حکومت نے خالی کر کے دیا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خزا نہ تو خالی ہے مگر اسے بھرے گا کون ؟مہنگائی کو ختم کرے گا کون ؟کیا عوام اسی طرح مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے؟اور مسائل کی دلدل میں پھنسے رہیں گے ؟آخر کب تک یہ کھیل اسی طرح کھیلا جاتا رہے گا مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہر مسئلے کا حل کے لئے سرکار کی جانب سے ہر طرح کے محکمے اور مواقع موجود ہیں مگر اس کے با و جود مسائل جوں کے توں ہی ہیں وہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے کبھی پانی کا مسئلہ ہے تو کبھی بجلی کاتو کبھی کچرے کا ہمیں تو لگتا ہے کہ جان بوجھ کر عوام کو مسائل میں الجھاکر رکھا جا تا ہے تا کہ عوام کسی اور طرف نہ دیکھیں مہنگائی نے الگ عوام کی کمر توڑ رکھی ہے ڈالر،گولڈاور پیٹرول کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں کراچی میں دودھ کی قیمت حکومت نے94روپے مقرر کی ہے مگر دودھ فروش 115سے 120روپے میں دودھ فروخت کر رہے ہیں اور سبزی گوشت سے زیادہ مہنگی فروخت کی جا رہی ہے صرف ٹماٹر کے ریٹ ہی کو دیکھ لیں جو 260سے 300روپے میں کلو فروخت کئے جا رہے ہیں وہ تمام صارفین کے حقوق کی دعو یدار تنظیمیں اور ایسو سی ایشنز خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں نہ کوئی مجسٹریٹ ہے نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے نہ کوئی سنے ولا ہے نہ کوئی دیکھنے والا ہر طرف مہنگائی کی آگ بھڑک رہی ہے جس میں عوام جل رہے ہیں غریب ایک طرف تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے جبکہ ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے مگر حکمران کہہ رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے سب ٹھیک ہوجائے گاکوئی حکمرانوں سے پوچھے کہ کب ٹھیک ہو جائے گاجب عوام زندہ ہی نہیں رہیں گے جب ہر جانب بھوک اور موت رقص کر رہی ہو گی جب روٹی کے لئے لوگ ایک دوسرے پر چڑ دوڑیں گے اور غریب کے پیٹ کی آگ نہ بجھی تو پھر ایسی آگ بھڑکے گی کہ سب ایوان جل کر خاکستر ہوجائیں گے اورپھر حکمرانوں کو چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی تب عوام کا ہاتھ ہوگا اور حکمرانوں کا گریباں۔

 

Sonia Ali
About the Author: Sonia Ali Read More Articles by Sonia Ali: 34 Articles with 33012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.