کرتار پور راہداری کا افتتاح، اورینٹل کالج کا سیمینار!

کرتار پور راہداری منصوبے کا افتتاح ہو چکا ہے۔ سکھوں کو ان کے داتا تک رسائی کا موقع میسر آ چکا ہے۔ عمران خان نے ابھی تک حکومت نہیں سنبھالی تھی کہ کرتار پور بارڈر کھولنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ نوجوت سنگھ سدھو ان کے اچھے دوست ہیں ساتھ ہی انہوں نے عمران خان سے یہ کام کروا کر سکھ قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ بھارتی پنجاب میں سرکار نہیں بنا پائے ۔ بھارت میں انہیں عمران خان کی دوستی خاصی مہنگی پڑ رہی ہے ، اور اب کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شریک ہو کر سنی دیول اور منموہن سنگھ نے بھی ہندوتوا کے متوالوں کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت بھارت میں حکومت ہندوتوا کے متوالوں کی ہے اسی لئے وہ ہر طرح کے ہتھکنڈوں سے دوسرے مذاہب کو دبانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اتر پردیش میں شیو سینا نے بی جے پی کی جگہ کانگریس کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور دوسری طرف پاکستان نے کرتار پور راہداری منصوبے کا افتتاح کیا ہے ، اس کے جواب میں بھارتی عدالت میں بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اور پراپیگنڈے کیلئے زمین کا کچھ حصہ مسلمانوں کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ایک تیر سے دو شکار کرنے کی یہ کوشش بی جے پی کیلئے اب نہیں تو مستقبل میں مہنگی پڑے گی۔ کرتار پور کے حوالے سے ’’بابا فرید اور بابا گرنانک‘‘ کے عنوان پر ایک سیمینار 9نومبر کو بھی منعقد ہوا ہے جو اور ینٹل کالج لاہور کے پنجابی شعبہ کے زیر اہتمام کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کا حقیقی مقصد کرتار پور اور بابا گرونانک کی شخصیت کے حوالے سے آگاہی اور سکھ معاشرے کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ تاہم اس میں بابا گرونانک اور بابا فرید کی پنجابی ادب کی خدمات بارے بھی بات چیت کی گئی۔سیمینار کی صدارت استاذ الاساتذہ ، مصنف، ادیب ، محقق، شاعرڈاکٹر اختر جعفری نے کی جبکہ دیگر مہمانوں میں سویڈن سے آئے نامور کالم نگار، بچوں کیلئے کہانیوں کے مصنف ، جینیاتی علوم میں ریسرچر اور سمندر پار پاکستانیوں کے مشیر ڈاکٹر عارف محمود کسانہ ، یو کے سے آئیں نامور قلم کارو ٹیچر اور کرتار پور راہداری کے حوالے سے متحرک گورمیت کور ، گرو گرنت پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر عباد ندیم نے شرکت کی۔ اس سیمینار کی میزبان اورینٹل کالج کے پنجابی شعبہ کی چئیرپرسن ڈاکٹر نبیلہ رحمان تھیں جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر سعادت علی ثاقب نے انجام دئیے۔ ڈاکٹر سعادت علی ثاقب پنجابی شعبہ میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے فرائض ادا کر رہے ہیں اس کے علاوہ وہ بہترین محقق و مبصر بھی ہیں۔ انہوں نے’’فیصل آباد دی پنجابی نعت دی کھوج پرکھ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے ۔ تھوڑے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کامیاب نظامت پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ سیمینار سے میزبان ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے خطاب کرتے ہوئے سیمینار کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر عباد نعیم نے بابا گرونانک کی آپ بیتی پر ایک سیر حاصل اور پر مغز مقالہ پیش کیا۔ تمام تر عقیدتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ادب کیلئے اس سطح کی کھوج پرکھ پر میں انہیں مبارکباد کا مستحق سمجھتا ہوں۔ یو کے سے آئیں گورمیت کور نے باباگرونانک کی تعلیمات ، وہ سکھوں کیلئے کیا مقام رکھتے ہیں ، گوردوارہ گرونانک اور گرونانک یونیورسٹی کے بارے پاکستانی حکومت کا کیا رویہ ہونا چاہئے پر مکمل گفتگو کی۔ سویڈن سے عارف محمود کسانہ صاحب نے مختصر مگر جامع گفتگو میں دلائل کو بلند کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت پیغام دیا کہ ہمیں اپنے بزرگوں کی تعلیمات کی ترویج اور ان کو اپنے لئے مشعلِ راہ سمجھنا چاہئیے۔ جس کے پیچھے ایک پیغام یہ بھی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور آئین کی رو سے ہر شخص کو اپنی مذہبی آزادی ہے۔ باباگرونانک کے گوردوارا اور کرتار پور راہداری پر پروپیگنڈا کرنے کی بجائے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی جانب سے امن کا پیغام کس قدر بلند درجے جاتا ہے۔ صدارتی خطبہ ڈاکٹر اختر جعفری صاحب نے دیا جس میں انہوں نے آپ بیتی کا کچھ حصہ سناتے ہوئے جو پہلو سامنے رکھا وہ بھی اہم ہے۔ پاکستان کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور پنجاب کے بارڈر پر مسلمانوں کا خون بہاتی سکھوں کی کرپانیں ، ہماری مائیں جنہیں وہ اٹھا کر لے گئے اور کبھی واپس نہ آئیں ، کئی وہ مائیں جنہوں نے ندیوں اور کنوؤں میں کود کر اپنی عصمتیں بچائیں ، ہماری نسلوں کے جینیات میں ابھی تک ان کی یادیں باقی ہیں۔ اس میں دو پہلو تو بہت اہم ہیں جنہیں زیر بحث لایا جانا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلا تو یہ کہ کرتار پور راہداری کو کھولنا اور سکھوں کو گوردوارا گرونانک تک آزادی سے آنے دینا ایسا ہی ہے جیسے مسلمانوں کو کعبے تک مفت میں رسائی دی گئی ہو۔عمران خان کو اس وقت پوری دنیا میں امن کا پجاری بنا کر سکھ کمیونٹی کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے ، اور چونکہ اس وقت عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اسی لئے اس میں پاکستان کی تعظیم میں دنیا بھر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور بھارت کا بھیانک چہرہ بھی کھل کر سامنے آرہا ہے۔ ہمیں اس سے خالصتان کی تحریک کو نہیں جوڑنا چاہئے کیونکہ وہ سکھ کمیونٹی کا ذاتی مسئلہ ہے جو بھارتی سرکار کے ساتھ ہے۔ ہاں مگر ہندوتوا سے الگ نظریات کی وجہ سے سکھوں کا حق ہے کہ وہ خالصتان حاصل کریں۔ پاکستانی حکومت گرونانک یونیورسٹی پر ساری انوسٹمنٹ مختلف ملکوں میں رہائش پذیر سکھوں کی کروا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اب بہت سارا کمرشل ایریا بھی بنے گا جہاں پر بارڈر پار اور سرحد کے اندر کے سکھ لوگ کاروبار کرنے کو ترجیح دیں گے۔ یہاں خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں آنے والے وقتوں میں سکھ پاکستان کے ننکانہ صاحب اور اس سے ملحقہ پنجاب پر دعویٰ بھی نہ جتانے لگیں ۔ کیونکہ ہم آزما چکے ہیں کہ کئی دفعہ ایک جمہوری یا آمری حکومت کچھ پالیسیاں بناتی ہے جو اس وقت کیلئے تو مثبت نظر آتی ہیں لیکن آئندہ حکومتوں کے آنے کے بعد وہی پالیسیاں پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ بن جاتی ہیں۔ جیسے پرویز مشرف کا امریکہ کو اڈے دینے کا فیصلہ، ضیا ء الحق کا طالبان بنانے کا فیصلہ اور سابقہ دور حکومت میں فاٹا و وزیر ستان آپریشن کا فیصلہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امید ہے کہ حکومت نے مستقبل میں ایسے خدشات سے نمٹنے کیلئے ضرور اقدامات کئے ہونگے ، اگر نہیں تو ابھی کر لینے چاہئیں۔ لاہور میں رنجیت سنگھ مجسمہ مسلمانوں کی پہچان نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کو ناقابل تلافی علمی، جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔ سکھوں کو خوش کرنے کیلئے اس حد تک جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے بھی ہٹایا جانا چاہئے۔ پاکستان کو لبرل پاکستان نہیں اسلامی پاکستان بنانا چاہئے۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 168155 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More