پاک بھارت تعلقات

پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ممالک ہیں جن کی تاریخ ایک جداگانہ طرز پر ہے۔ جی ہاں!!بالکل اسی طرح جیسے ایک ذاتی جائیداد اصولی طور پر ورثاء میں تقسیم ہوجاتی ہے اوراس میں کمزور یا طاقتور کی تفریق نہیں ہوتی لیکن یہ خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے کہ طاقتور وارث کہیں کمزور وارث کا حصہ نہ ہڑپ کر لے!کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نظر آتی ہے۔ پاکستان جو ایک اصولی فارمولے کے تحت وجود میں آیا تھا اپنے قیام سے پہلے ہی فریق ثانی کی آ نکھوں میں کھٹکتا رہا ہے اور جس کو نقشے سے معدوم کر کے اپنی راجدھانی میں شامل کر نے کا خواب روز اول سے ہی دیکھنا شروع کردیا تھا ۔ گورداسپور کے ذریعے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانا اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ حیدرآ باد دکن بھی فوراً اس کے جال میں آ گیا ....اور اس خواب کی پہلی تعبیر انہیں بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں بہت جلد مل گئی اور پھر انہوں نے اپنی ان کوششوں کو بارآور کر نے کے لیے پاکستان کو کمزور کر نے کا سفر جاری رکھا اور ان کے ایجنڈے کے مطابق آج پاکستان بحران میں گھرا ان کے دل کی کلی کو کھلانے کا باعث بن رہا ہے!!

پاکستان کا ہر مسئلہ خواہ دفاعی ہو یا آبی،معاشی ہو یا معاشرتی،جغرافیائی ہو یا سیاسی،کہیں نہ کہیں اس کی تہہ میں بھارت ہوتا ہے!ہر بحران کی جڑ بھارت کے حوالے سے ہو تی ہے۔ بھارت پاکستان کا ایسا ہمسایہ ہے جسکی خوش حالی اس کو تکلیف دیتی ہے اور جس کی بد حالی اس کی اولین خواہش ہے۔ ’’ پا کستان جاکر ریت پھانکوگے !!‘‘ یہ وہ استہزا ہے جو قیام پاکستان پر اس کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں نے سنا اور آج کا پیدائشی مسلمان پاکستانی عملًا صحرا میں بھٹک رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟؟اس کا جواب بھارت کی وہ بددیانتی ہے جس کا سامنا ہندوستانی مسلمان پچھلے تریسٹھ سال سے دوسرے درجے کا شہری بن کر کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی شہری خوا ہ اس کا تعلق کسی صوبے، شہر،نسل و زبان سے ہو اس بددیانتی کے زخم چاٹ رہا ہے جو آ ئے دن بھارت کی طرف سے تحفے کی صورت میں ملتا رہتا ہے۔ پاکستان کی معیشت ہو یا معا شرت اس وقت ہندو بنیے کے رحم وکرم پر ہے کیو نکہ اس کے سر پر امریکہ کا ہاتھ ہے اور اسرائیل اس کا با زوبند ہے ۔گو یا پاکستان کی صورت حال اس کمزور اور نحیف بچے کی طر ح ہے جو اپنے پڑو سی سے ہر وقت کسی نہ کسی بے ایما نی اور خطرے کی زد میں ہو! لیکن اس کی نمایاں بددیانتی کے باوجود پا کستان خطے کے امن اور استحکام کے لیے بار بار بھارت کا در کھٹکھٹاتا رہا ہے جو مختلف اوقات میں مذاکرات کا لالی پاپ بھی دیتا رہا ہے مگر اب اس کی ہٹ دھرمی اور بالادستی اتنی بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کو اپنے معاملات کے سدھار کے لیے مذاکرات تک کے لیے بھارت کی منت سماجت کرنی پڑ تی ہے ۔اس کی وجہ بھارت کی وہی ذہنیت ہے کہ اس نے پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا کجا یہ کہ اس کی برا بری کسی بھی سطح پر اس کے لیے قابل قبو ل ہو۔

ایسے میں اگر کرکٹ کے میدان میں جب پا کستا ن اپنی فتح کے جھنڈے گا ڑ تا ہے تو وہاں کھلبلی سی مچ جاتی ہے۔اور اس کی پیش بندی کے لیے سازشوں کا جال بننا شروع ہوتا ہے جو پہلے سری لنکا کی ٹیم پر حملے کی صورت میں سامنے آتا ہے تو کبھی آئی پی ایل میں پاکستانی کرکٹرز کو بلیک لسٹ کر کے۔! اور اب جب پاکستان سیمی فائنل میں اس کے مد مقا بل آ کھڑا ہوا ہے تو بھی منفی سر گرمیاں اپنے عروج پر تھیں(میڈیا پر پروپیگنڈہ اور نفسیاتی حربے) !! کسی مکان کے چھوٹے یا بڑے رقبے سے اس کے اندر بسنے وا لے گھرانہ کی اکائی متا ثر نہیں ہو تی اور پڑوس کو اس کا احترام واجب ہے بالکل اسی طرح سے کوئی ملک محض اس وجہ سے کسی پڑوسی کے دباؤ میں نہیں آسکتا کہ وہ کسی لحاظ سے کمزور ہے! اور پھر یہ بات بھی طے ہے کہ پڑوس بدلنا ناممکن ہے!!!اس سلسلے میں پاکستانی حکمرانوں کی کمزوری تو بزدلی کی حد تک پہنچی ہوئی ہے اور پھر اس مظاہرے کو رواداری کا نام دیا جا تا ہے ۔ یہ بات پا کستانی شہریوں خصو صاً نوجوانوں کے لیے انتہا ئی شرم کا باعث بنتی ہے۔

اس سارے منظرنا مے میں ان دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات صرف اسی وقت قائم ہو سکتے ہیں جب بھارت اپنی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر قبول کرے اور اپنی ریشہ دوانیوں سے اسے کمزور کر نے کے بجائے با وقار رویہ اختیار کرے۔ جبھی کوئی معاہدے یا تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں اور پاکستانی اربابِ اقتدار کا بھی فرض ہے کہ وہ رواداری کے نام پر ذلیل ہونے کے بجائے سر اٹھا کر بااعتماد لہجے میں برابری کی سطح پر بھارت سے گفت و شنید کریں ۔ اصول یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی قدر کروانے کے لیے پہلے اپنی قدر آپ کرنی پڑتی ہے ! ہم جب تک بھارت سے احساس کمتری کا شکار رہیں گے اعتماد کا رشتہ قائم ہو نا محال ہے!!!
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74659 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.