بہت شور سنتے تھے ۔۔۔۔۔

مولانا فضل الرحمان کامعاملہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ’’لگی جو آگ مجھ میں ہے تجھ کوبھی لگادوں گا‘‘۔اقتدار سے محرومی ،کشمیرکمیٹی سے جدائی اور بنگلہ نمبر22 سے دوری نے اِن کو پاگل،دیوانہ ،پریمی بنادیاہے اور اِس کے ساتھ ساتھ ہوش سے بیگانہ بھی،سہانے وقتوں کے حسین لمحات کو سوچتے اور اِس میں موجود راحتوں اور لذتوں کے سامان کو محسوس کرتے ،اِن پرجب اقتدار واختیار سے محرومی کا جان لیوادورہ پڑتا ہے تو اِن سے رہا نہیں جاتاتو ایسے میں وہ شور مچاتے ’’آئین کے تناظر میں‘‘کا گیت گاتے دوسروں کے پاس پہنچے اُنہیں اپنا دکھڑا محسوس کروائے بناء’’تم ہم سے ملوہم تم سے ملیں دنیا کو یہ منظور نہیں‘‘کا اراگ الاپتے نظر آتے ہیں،ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ ہم ساتھ ساتھ ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دورہ کے اثرات جب کم ہوتے ہیں تو انہیں اپنے ساتھ کھڑا کوئی نظر نہیں آتا،کچھ افراد جوکہ اِن کے ساتھ ساتھ رہنے کی حامی بھرتے نظر آتے ہیں شاید حکومت و عدلیہ کی طرف سے وقتی طور پر ’’بیماری ریلیف‘‘ حاصل کرنے کے بعد قوی امکان ہے کہ شاید اب کچھ دیر کے لیے آرام پر چلے جائیں،اِس کے علاوہ اِن کے اپنے ایک اور خاص صاحب کی طرف سے بھی ممکن ہے کہ آنے والے چند روز میں ’’رخصت برائے بیماری‘‘کی درخواست بھی اعلیٰ حکام کو موصول ہوجائے اور وہ بھی اطمینان اور سکون پاجائیں،باقی رہ گئے فضل الرحمان تو وہ بھی آنے والے دنوں میں اپنی ’’باعزت واپسی‘‘ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے نظر آئیں گے،اِس کے علاوہ اور کوئی امکانات پاکستان کی موجودہ صورتحال میں نظر نہیں آتے۔وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کو احتجاج کے لیے کنٹینر کی فراہمی کے دعوے جہاں صرف دعوے ہی رہے ،وہیں فضل الرحمان کی بھی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی باتوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے، فضل الرحمان کا ’’آزادی پاور شو ‘‘وقت سے پہلے ہی فلاپ ہوچکاہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ اِس کی چمک دھمک کے نتیجے میں کچھ افراد ضرور ’’آزادی کی نعمت ‘‘سے سرفراز ہوچکے اور کچھ آئندہ ہونے والے۔آخر میں ایک اور بات،جمعیت علماء اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم ابصارالاسلام پر پابندی ، اِ ن کے مرکزی رہنماء حمداﷲ کی پاکستانی شہریت کی منسوخی اورانہیں غیر ملکی قرار دینے ،مولانا کفائت اﷲ کی مارچ کے لیے لوگوں کو اُکسانے پر گرفتاری اور حکومتی کرتا دھرتا کی جانب سے اِس طرح کے بیانات کہ مولانافضل الرحمان بیرونی ایجنڈے پر کارفرماکے بعدفضل الرحمان وقت سے پہلے ہی اُودھے منہ ہوئے ،شرمندگی وندامت سمیٹے’’بکھری پڑی عاشقی تیرے قدموں میں‘‘حکومتی دباؤ کا شکار ہواچلا،جس کا بین ثبوت’’ آزادی مارچ‘‘ کو حکومتی خواہشات کے مطابق حکومتی مقررکردہ جگہوں پر کرنے کے فیصلے پر اِن کی مت ماری حالت میں چاروناچار ’’ہاں‘‘ ہے۔دیکھتے ہیں کہ اب مولانا کا پشاور موڑ پرکھڈے لائن لگا’’آزادی مارچ یا دھرنا‘‘کیا رنگ لاتا،رنگ دکھاتابھی ہے کہ پھیکا پڑجاتا،گیم ON ہے،جائیے گانہ کہیں۔
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.