تسلی بخش۔طفل تسلی

 چھڈ دلا اے طفل تسلی بھلکے کنے آؤنا
اگوں تیری مرضی بیبا ساڈا کم سمجھاؤنا(انورمسعود)
یوں تواس کائنات میں کوئی چیزبھی اس قدرپائیدارنہیں جسے تسلی بخش قراردیاجاسکے۔اﷲ تعالیٰ کی پاک ذات کے علاوہ ہرچیزفانی ہے۔انسانی فطرت میں پائی جانے والی جلدبازی۔ہوس اورلالچ ہردورمیں انسان کیلئے خسارے کاباعث بنتے آئے ہیں۔حقیقت کے آئینے میں دیکھیں تومعلوم ہوتاہے کہ انسان سب کچھ جانتے ہوئے بھی حرام کوخودپرحلال کرنے کیلئے خودکوہی طفل تسلیاں دیتاہے یعنی خودفریبی کاشکاررہتاہے۔امیری۔غریبی تومالک کی دین ہے پرحق تلفی کسی صورت قابل معافی جرم نہیں۔اپنی قسمت اور محنت کے بل بوتے پرمال ودولت حاصل کرناجائزجبکہ دوسروں کی محنت کی کمائی پرکسی بھی طرح ڈاکہ ڈالناناجائزکہلاتاہے۔دنیاکے تمام سوال ٹالے جاسکتے ہیں البتہ بروزقیامت اپنے رب کے سامنے ایساکرناممکن نہیں ہوگالہٰذااس حاضری کے وقت ہمیشہ ہمیشہ کی شرمندگی اورسزاسے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے

فلاں شخص یاخاندان اس قدرمال دارہے کہ اسے خودیاد نہیں رہتا اس کی دولت کتنی ہے اورکس کس بینک میں پڑی ہے۔کہاں کہاں جائیدادیں ہیں اورکون کون سے کاروبارہیں ۔یہ جملے ہم اکثرسنتے ہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ اس قدرمصروف شخص یاخاندان کوریاست کی حاکمیت کی ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے؟جس شخص کے پاس اپنی وراثتی یاکاروباری دولت اورجائیدادکاحساب رکھنا توکیایادرکھنے کی بھی فرصت نہیں؟ایساشخص مشکل ترین ریاستی ذمہ داریاں کیسے پوری کرسکتاہے؟دوسراقابل غورپہلویہ ہے کہ اس قدرمالدارشخصیات یاخاندان ملکی دولت کیوں لوٹتے ہیں جن کے پاس اپنی بے پناہ ذاتی دولت وجائیداد کاحساب رکھنے کیلئے بھی فرصت نہ ہو ؟تیسرااوراہم پہلویہ ہے کہ چورسچ کیوں بولے گا؟مال ودولت کمانے کیلئے انسان اکثرحیوان بن جاتاہے۔حلال وحرام کی حدودکی تمیزنہیں کرتا۔جائزوناجائزطریقے استعمال کرکے اپنی آئندہ نسلوں کیلئے مال اکھٹاکرتے وقت کمزوروں کو کچلنے والاحیوان جس دولت کی خاطراپنے پرائے کی پہچان بھول جاتاہے اسی مال ودولت کاحساب کیسے بھول سکتاہے؟انوکھی توہے پرہمارے لئے یہ نئی بات نہیں کہ جس پربھی احتساب کی پکڑآتی ہے وہ اپنے مال ودولت کاحساب کتاب بھول جاتاہے اورہمارے تحقیقاتی ادارے عدالتوں کے سامنے بے بسی کی تصویربنے یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں نے ہمارے کسی سوال کاتسلی بخش جواب نہیں دیا۔فلاں فلاں ملزم تفتیش میں تعاون نہیں کررہے۔ان تحقیقاتی اداروں کے ذمہ داروں کوکون بتائے گاکہ جب چوری ثابت ہوجائے توچورسے چوری کاسامان پرآمدکیاجاتاہے چورکی رام کہانی نہیں سنی جاتی۔پاکستانی قوم کیساتھ کس قدرزیادتی ہے کہ سالوں پرمحیط تحقیقات۔تفتیش،عدالتیں۔کمیشن۔کمیٹیاں اورجے آئی ٹیاں تمام کے تمام ادارے قوم کے اربوں روپے کھانے کے بعدچورکوچورثابت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔آخرمیں قوم کے حصے میں کیاآتاہے یہی کہ فلاں فلاں نے اکثرسوالات کے جواب میں لاعلمی کااظہارکیاہے۔کرپشن ہوئی پرثابت نہیں ہوئی۔تازہ اطلاعات کے مطابق ایک مرتبہ پھر چودھری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے نیب کی ٹیم نے 45 منٹ تک تفتیش کی۔میاں نوازشریف نے نیب کے اکثر سوالات کے جواب دینے کی بجائے لاعلمی کا اظہار کیا۔ نیب کی تفتیشی ٹیم نے سوال کیا کہ ٹی ٹی کی رقم کس کی ہے؟میاں نواز شریف نے جواب دیا کہ اس سوال کا جواب اُن کے(مرحوم) بھائی عباس شریف دے سکتے تھے۔نیب نے مبینہ منی لانڈرنگ کی رقم کے ذرائع کے متعلق سوال کیا تومیاں نوازشریف نے کہاکہ وہ سیاست میں مصروف رہے لہٰذا اس حوالے سے کوئی علم نہیں ہے۔تفتیشی ٹیم نے میاں نواز شریف سے استفسار کیا کہ بقول آپ کے لندن فلیٹس بچوں کے نام ہیں۔چودھری شوگر ملز کے شیئرز توآپ کے نام ہیں جو آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔میاں نواز شریف نے کہا یہ کوئی اندرونی سیٹلمنٹ ہوگی جس کا اکاؤنٹنٹس کو علم ہوگایایوسف عباس بہتر بتا سکتے ہیں۔نیب ٹیم نے سوال کیا کہ یوسف عباس تو کہتے ہیں انہیں اس کا علم نہیں ہے۔ نیب کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کی مبینہ رقم کا میاں شریف سے کوئی تعلق نہیں لگتا۔ رقم میاں شریف کا اثاثہ ہوتی تو سب بچوں میں یکساں تقسیم ہوتی؟نواز شریف نے ایک بار پھر جواب دیا کہ سیاسی زندگی میں مصروفیت کی وجہ سے وہ سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔تفتیشی ٹیم نے شیئرز کے اثاثوں کی دستاویزات کی اصل کاپی کی موجودگی کے حوالے سے سوال کیا تو نواز شریف نے برجستہ جواب دیا کہ کیا کوئی نیا ریفرنس بنانا ہے؟ تفتیشی ٹیم ہی بتا دے، انہوں نے یہ پیسہ کہاں سے لوٹا؟میاں نوازشریف نے کہاکہ کاروباری معاملات حسین نواز دیکھتے ہیں لہٰذااُن سے پوچھیں۔نیب کی ٹیم نے میاں نواز شریف سے تفتیش کے دور ان13سوالات پوچھے اورمیاں نوازشریف نے کسی سوال کا بھی تسلی بخش جواب دینے کی بجائے سب کچھ مرحوم بھائی اورلندن کے شہری بیٹے حسین ۔حسن نوازاور بھتیجے یوسف عباس کے کھاتے میں ڈال دیا۔اس سے قبل بھی اسی قسم کے واقعات رونماہوتے رہے ہیں جن میں میاں شہباز شریف۔مریم نواز۔حمزہ شہباز۔پی ٹی آئی کے رہنماعبدالعلیم خان اوردیگرکئی ملزمان نیب کی تحقیقاتی ٹیم کے سوالات کے تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔ہم عوام اپنے ملک کی ذمہ دارانتظامیہ سے پوچھناچاہتے ہیں کہ ریاست پاکستان کے 22کروڑعوام پرحکومت کرنا۔عوام سے ٹیکس کے ساتھ رشوت اوربھتہ بھی وصول کرنا۔
سیاست کرنا۔کاروبارکرنا۔خوب مال اکٹھاکرناسب کاحق ہے پراحتسابی اداروں کے سوالات کے جوابات دیناکسی کافرض نہیں؟ماضی اورحال میں مقدمہ بازیاں۔

جیلیں۔جلاوطنیاں۔تاحیات نااہلیاں پانے والے کرپٹ لوگ مستقبل میں ملک کے صدر۔وزیراعظم۔وزیراعلیٰ اوروزیر۔مشیرکیسے بن جاتے ہیں؟میاں نوازشریف اوراُن کاخاندان اورآصف زرداری ماضی میں ہونے والی کرپشن کے ذمہ دارہیں توموجودہ دورمیں کرپشن کیوں ہورہی ہے اور ذمہ دار کون ہے؟ میاں نوازشریف اورآصف زرداری کے ساتھ کرپشن کوبھی جیل میں کون اورکب ڈالے گا؟کرپشن ماضی کے حکمرانوں نے کی ہے تووصولی بھی انہی سے کی جائے غریب عوام کاجینامرناکیوں مشکل کردیاگیا؟تسلی بخش جواب توسرمایہ دار حکمران طبقہ نہیں دیتاعوام کی توتسلی بخش تفتیش میں جان تک چلی جاتی ہے ۔لاحاصل طویل احتساب عوام کومایوسی کے سواکچھ نہیں دے رہا۔ہردورکے حکمران عوام کو جھوٹی تسلیاں اوردلاسے دیتے آئے ہیں پر عوام کی حالت زارآج تک نہیں بدل سکی
جھوٹی ہی تسلی ہو کچھ دل تو بہل جائے
دھندلی ہی سہی اک شمع تو جل جائے (فنا نظامی کانپوری)

اہل اقتداریادرکھیں اس کائنات کی مخلوق یعنی عوام توتسلی بخش طفل تسلیوں سے بہل سکتے ہیں۔بے وقوف بن سکتے ہیں۔مجبوراًغلاموں جیسی زندگی بسرکرسکتے ہیں پربروزقیامت اﷲ تعالیٰ کی عدالت لگے گی جہاں سچ اورجھوٹ الگ ہوجائے گا۔کمزوروں کی حق تلفی کرنے والوں کوپوراحساب دیناپڑے گااوروہاں کوئی بھی اپنے سوالات کے جوابات کیلئے دوسروں کومنتخب نہیں کرپائے گا۔سب کواپنے عمال کیلئے جواب دہ ہوناپڑے گا۔اس کائنات میں موت ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں انصاف کے بعد شروع ہونے والی زندگی پرموت کاپہرہ نہیں یعنی جسے جوانعام یاسزاملے گی۔جوعزت ملے گی یاجس شرمندگی کاسامناہوگاوہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس کے ساتھ رہے گی
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 513847 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.