وزیراعظم اور یو این اسمبلی

ماریہ سلیم

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان تقریر میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی تقریر سے نہ صرف پاکستان کی عوام بلکہ دنیا بھر کے لوگ ان سے متاثر ہیں۔ اس کی مثال حال ہی میں تیار کردہ ٹائمز 100 متاثرکن شخصیات میں عمران خان صاحب کا نام شامل ہونا ہے۔

مسئلہ کشمیر کوئی آج کا واقعہ نہیں، یہ مسئلہ پچھلے 50 سال سے چلتا آرہا ہے۔ ان 50 سالوں میں کئی پارٹیاں بطور حکمران بن کر سامنے آئیں۔ ہر بار ایک ہی نعرہ سننے کو مِلا کہ ہم کشمیر کو آزاد کروائیں گے، ہم کشمیر کو خود مختار حیثیت دلوایں گے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ سب اس واعدے کو وفا نہ کر سکے۔ کشمیر ظلم کی انتہا کو برداشت کرتا رہا اور آج تقریباً 50 سے زائد دن گزر گئے ہیں جس میں کشمیریوں کو نہ کھانا میسر ہے نہ ادویات میسر ہیں، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے لیکن ان کی سنگدلی مجھے ایک شعر یاد کرواتی ہے،
مے ہو ا ہے لہو غریبوں کا
لوگ پیتے ہیں جام بھر بھر کر

فروری 2019 کو بھارت نے جارہیت کا سلسلہ شروع کیا۔ امید یہی تھی کہ الیکشن کے بعد معملات تھم جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ 27 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان نے یو این کی جنرل اسمبلی میں ایک گھنٹے کا خطاب کیا۔ اس خطاب میں لوگوں نے بھرپور انداز سے حصہ لیا، تالیاں بجائیں گئیں اور بھارت پر شیم شیم کے نعرے بھی لگے۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے خطاب میں چار اہم نکات پر روشنی ڈالی، ماحولیاتی تبدیلی، معاشی حالات، اسلاموفوبیاہ اورکشمیر۔

ماحولیاتی تبدیلی میں انہوں نے ترقیافتہ ممالک کو متوجہ کیا اور آئندہ آنے والے دنوں میں اس سے پڑھنے والے منفی اثرات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ اس مسئلہ کی احمیت کو نہیں جانتے اور وہ سنجیدگی سے اس معملہ کا حل نہیں نکال رہے۔ انہوں نے کہا فنڈز کے بغیر خیالات محض فریب ہیں۔ اس دوران انہوں نے بتایا کہ پاکستان ان دس ممالک میں سے ایک ہے جو اس ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہو رہے ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک ساتھ مل کر اس مسئلہ کا حل نکالنا ہے۔

معاشی حالات میں انہوں نے منی لانڈرنگ پر روشنی ڈالی۔ اس نکتے میں انہوں نے کہا کہ آربوں کی دولت مغربی ممالک میں بھیجے جا رہے تھے، کئی سالوں سے لوگ امیر سے امیرتر ہوگئے اور غریب، غریب تر ہوگئے۔ان سب نقصانات کو بھرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ان معاملات کی وجہ سے آج ہمارے ملک کے معاشی حالات خراب ہیں۔

اسلام وفوبیاہ پر وزیراعظم صاحب نے کافی گہرائی میں بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ اربوں کی تعداد میں مسلمان دنیا میں ر ہ رہیں ہیں، لاکھوں کی تعداد اقلیتوں کی حیثیت سے مختلف ممالک میں رہ رہیں ہیں۔ اسلاموفوبیاہ کا آغاز ۹ ستمبر کے واقع کے بعد شروع ہوا۔ مسلمانوں کو دہشتگرد مہذب کہا گیا انہوں نے اپنی تقریر میں مثال کے ذریعہ بیان کیا کہ دہشت گردی کی سنگین حالات پیدا کرنے والے گروپس کے مذہب کو دہشت گرد مذہب کا نام نہیں دیا گیا تھا۔لیکن اسلام کو دہشتگرد دین کا نام دیا گیا اور ریشنل اسلام کا نام دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب میں لوگ رسولﷺ پر تنقید کرتے رہے اور جب مسلمانوں نے اس پر ردِعمل پیش کیا تو انہیں intolerant religion کہا گیا۔ انہوں نے حضور ﷺ اور قرآن مجید کی مسلمانوں کے لئیے اہمیت کو یو این اسمبلی میں صاف الفاظ میں بیان کیا۔ دینِ اسلام کی اہمیت کو اسمبلی کے سامنے بھی بیان کیا اور غلط فہمی کو بھی دور کیا۔

کشمیر کے اہم نکتے کو اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ آج کل کا سب سے اہم مسئلہ ہے جسے وہ آج اسمبلی میں پیش کرنے آئیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وار آف ٹیرر کے لئیے ہمارے ملک کو کئی ہزار جانیں قربان کرنی پڑھیں انہوں نے واضح کیا کہ مجاہدین کو کس طرح ٹرین کروایا گیا اور بعد میں انہیں ٹریننگ دینے اور لڑنے سے روکنے کا کہا گیا۔ جسے انہوں نے سویت میں جہاد اور freedom struggle کا نام دیا، اسے بعد میں انہوں نے دہشت گردی کا نام دے دیا۔

بھارت آج ہر معاملے میں پاکستان کو قصوروار ٹھراتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ ان کے ملک کے سربراہ نریندر مودی آر ایس ایس (RSS) کے لائف ٹائم ممبر ہے۔ بھارت نے 5 اگست کو یو این کی گیارہ قراردادوں کی خلاف ورزی کی، انہوں نے شملاء ایکورڈ کی بھی خلاف ورزی کی اور اپنے ملک کے آئین کی بھی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے کہا کہ 8 میلین لوگوں کو قرفیوں کے ذریعے 5پ سے زائد دن کے لئیے بند کیا گیا ہے۔ انہوں نے مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 8 میلین جانوروں کو اگر بند کردیا جائے تو برطانیہ میں آر ایس پی سی آے (RSPCA) واویلہ مچا دیتی ہے لیکن انسانیت پر افسو س ناک خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام سوالات پر کیا کہ کیا مودی صاحب نے یہ سوچا ہے کہ جب قرفیو ہٹے گا تب کیا ہوگا؟ کیا کشمیری خاموشی سے تبدیلی کو تسلیم کریں گے؟ ایسی تبدیلی جو انکی خودمختاری کو ان سے چھین لے گی، کیا وہ اس تبدیلی کو سر جھکا کر مان لے گی؟ ہر گز نہیں!
وزیراعظم کی اس تقریر کے بعد عوام نے سوشل میڈیا میں عمران خان کو داد دی، لیکن آپوزیشن کی جانب سے تنقیدی بیانات کا سلسلہ جاری رہا اور کچھ کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی۔ اب عوام پر امید ہیں کہ شاید یہ ایک گھنٹے کی تقریر رنگ لے آئے اور کشمیریوں کو خودمختار حیثیت دلوائے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، اس تقریر میں صحافیوں کی جانب سے بھی تعریف کے بول بولے گئے۔ اس تقریر کو دم دار تقریر بھی کہا گیا۔

میرے مطابق یہ تقریر وزیراعظم صاحب کی prime minister speech سے کئی گناہ بہتر تھی۔ اس میں انہوں نے ان پہلوں پر روشنی ڈالی جن سے پوری دنیا کے مسلمان پریشان ہیں۔ اس تقریر میں انہوں نے نہ صرف پاکستان کے مسائل کو بیان کیا بلکہ پوری مسلم امہ کے مسئلہ پر اسمبلی میں روشنی ڈالی۔ اس تقریر سے کشمیروں کے حوصلے بلند بھی ہوئے۔ آخر میں کشمیروں کے لئیے ایک شعر ذہن میں آتاہے کہ
ابھی پروں میں اڑانوں کا زور زند ہ ہے
اداس چاند سے کہہ دو چکور زندہ ہے

جس طرح امید پر دنیا چل رہی ہے ہم بھی اسی امید پر ہیں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں کشمیروں کو ان کی کھوئی ہوئی خودمختار حیثیت مل جائے۔
 

Noor Ul Huda
About the Author: Noor Ul Huda Read More Articles by Noor Ul Huda: 48 Articles with 34150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.