تقریر تو اچھی تھی۔۔مگر

عمران خان صاحب کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر بہت اچھی تھی مگر تقریر کے ساتھ ساتھ پالیسی زیادہ اہم ہوتی ہے۔کشمیر کے مسئلے پر تقریر سے زیادہ پالیسی کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ پاکستان کے مسائل جیسے غربت وغیرہ ان کے حل کے لیے بھی پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے

۲۷ ستمبر ۲۰۱۹ کو وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی جس کی گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ مختلف لوگ اس پر مختلف خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمیں تنگ نظری سے بچتے ہوئے ہر اچھی چیز کی کھلے دل کے ساتھ داد دینی چاہیے ۔خان صاحب نے اپنی تقریر میں جن چیزوں کی بات کی وہ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل تھی مثلاً موسمی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ آج کی دنیا کا واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے، اسی طرح مغربی ممالک کی تقسیم دولت کی جو پالیسی ہے جس سے امیر ممالک امیر تر اور غریب ممالک غریب تر ہوتے جا رہے ہیں یا اسی طرح اسلامو فوبیا کی بات ہو یا کشمیر کا مسئلہ سب باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں اور ان تمام باتوں کو بہت مدلل انداز سے عمران خان نے اٹھایا ،ہمارے بعض لوگ ان باتوں پر بھی خان صاحب پر تنقید کر رہے ہیں میرے نزدیک ایسا کرنا اپنی تنگ نظری کا ثبوت دینا ہے اسی طرح دوسری طرف بعض لوگ ایک تقریر کو اتنا اٹھا رہے ہیں کہ گویا خان صاحب نے تقریر نہیں کشمیر فتح کر لیا ہو۔ ہم اس پر یہی کہتے ہیں کہ ’’تعصب‘‘ یہ ہے کہ ایک اچھی تقریر کی بھی تعریف نہ کی جائیں اور’ ’عقیدت‘‘ یہ ہے کہ محض ایک تقریر کی بنیاد پر امت مسلمہ کا عظیم لیڈر قرار دے دیا جائیں۔

تقریر تو بہت اچھی تھی ۔۔مگر میں یہاں ایک دوسرا پہلو ذکر کروں گا وہ یہ کہ آج دنیا کی ’’سرمایہ دارا نہ ‘‘ سوچ ہے ۔کیونکہ آج پوری دنیا سرمایہ دارا نہ نظام پر چل رہی ہے ۔ دنیا آج کسی بھی جذباتی تقریر یا دلیل کی بنیاد پر بھی اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتی۔ دنیا مفاد کے گرد گھوم رہی ہے آپ آج کے دور میں اس کو جذباتی نہیں کر سکتے۔ اس لیے جناب وزیر اعظم پاکستان آپ کشمیر پر جذباتی تقاریر ضرور کریں لیکن تقاریر سے زیادہ اپنی پالیسی پر انحصار کریں ۔ آپ کو کشمیر سے متعلق اپنی پالیسی محض زمین کا تکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں بنانی چاہیے بلکہ آپ کو تحمل کے ساتھ اس بات پر غور و فکر کرنا ہے کہ کشمیریوں کا فائدہ کس چیز میں ہے۔ پھر اس کے مطابق بہترین پالیسی بنائیں اور پھر اس پر عمل کریں۔
خان صاحب اب تقریر بھی ہو گئی آپ کی جائز تعریف بھی کی گئی اور اب آپ واپس بھی آ گئے لیکن میرے دیس کے مسائل کا کیا ہو گا۔ میرے مسائل تو آج بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ آج بھی وہی غربت ہے، وہی بے روز گاری ہے ۔میرے دیس میں آج بھی بچے سڑکوں پر اپنی ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ پنجاب میں آج بھی پولیس کی غنڈہ گردی جاری ہے۔ چلو مان لیا کہ ایک سال میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہ جاتی لیکن جناب وزیر اعظم آپ کوئی پالیسی بھی تو نہیں بتا رہے۔ نہ کوئی ٹائم فریم بتا رہے ہیں۔ کچھ روڈ میپ تو دے دیتے کہ سب کچھ کیسے صحیح ہو گا؟ آپ کی حکمت عملی کیا ہے؟ کب صحیح ہو گا؟ اب یہ خبریں آ رہیں ہیں کہ آپ اب دوسری مرتبہ اپنی کابینہ تبدیل کرنے جا رہیں ہیں۔ کیا ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ۲۳ سال آپ نے جدوجہد کی آپ اپنے نظریے پر کوئی نظریاتی ٹیم کیوں نہ بنا سکے؟ یہ تمام سوالات کرنا میرا حق ہے اور ان سوالات کے جواب میں ،میں آپ کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر سن کر خود کو مطمئن نہیں کر سکتا ۔اسی طرح میرے دیس کے جو مسائل ہیں وہ بھی اس جیسی ایک نہیں آپ کی ہزاروں تقریر سے بھی حل نہیں ہو سکتے۔ اب آپ وطن واپس آ گئے ہیں خدایا اب میرے دیس کے مسائل پر بھی توجہ دیں۔ کشمیر میں جہاد کرنے سے پہلے جس خطے کی آپ پر ذمہ داری ہے وہاں بھوک ،غربت، جہالت کے خلاف جہاد کریں۔ میرے دیس کہ یہ تمام مسائل تقریر سے حل نہیں ہو سکتے بلکہ عملی میدان میں کچھ کرنے سے حل ہوں گے۔

 

Umair Zafar
About the Author: Umair Zafar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.