عمران خان کا حالیہ دورہ اور ہماری خارجہ پالیسی

کسی بھی ملک کے خارجہ تعلقات اس کے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیے جاتے ہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اس وقت درپیش سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا مسئلہ ہے پاکستان کے وزیراعظم کا دورہ امریکہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اس میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا سکیورٹی کونسل کا اجلاس بھی اسی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے بلایا گیا تھا سیکیورٹی کونسل کے 15 ممبران ہیں جس میں پانچ اس کے مستقل ممبر ہے اور دس غیر مستقل ممبران ہیں. پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو ہر فورم پر اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن ان کوششوں کا ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا.

دوسری طرف انڈین وزیراعظم نریندر مودی اپنی پالیسیز کا بھرپور پرچار کرتے ہوئے نظر آئے. انہوں نے امریکہ میں جلسے کے دوران اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب بھی کہا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعادہ بی کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مودی ایک اکھنڈ بھارت کا وژن لے کر آئے تھے. اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں. ہم نے یہ بھی دیکھا کہ امریکہ نے ایک بار پھر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی کی.

ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے. کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے ہیں. کیونکہ اسے افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا کرنا ہے اس لیے امریکہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ناراض نہیں کرنا چاہتا .

دوسری طرف ہمیں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس خطے میں انڈیا امریکہ کا سب سے اہم حلیف ہے اگر معیشت کی نقطہ نظر سے دیکھا جائے انڈیا ایک بڑی مارکیٹ ہے صرف رواں ہفتے میں مودی کے امریکہ دورے کے دوران انڈیا کی سٹاک مارکیٹ میں 90 ملین کی سرمایہ کاری ہوئی ہے اور اس کے برعکس پاکستان کی پوری سٹاک مارکیٹ کا حجم چالیس بلین کا ہے سو امریکہ یورپ اور مشرق وسطی کے ممالک بھی انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں کیونکہ یہ دور معیشت کی جنگ کا دور ہے. اگر آپ مالی طور پر مضبوط ہیں آپ کے ملک میں خوشحالی ہے آپ کے نوجوانوں کو روزگار مہیا ہے آپ کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو ہر ملک آپ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا خواہاں ہوگا آپ کی ہر فورم پر سنی جائے گی اور اگر حالات اس کے برعکس ہیں اس کی قیمت ہمیں چکانی ہوگی.

دوسری اہم بات جس کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ امریکہ کو اس خطے میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بھی انڈیا کی ضرورت ہے. امریکہ ہر صورت چائنہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا چاہتا ہے جیسے کے سی پیک اور اور بی آر آئی کی صورت میں چائنا کا بڑھتا ہوا کردار امریکہ کو کسی طرح قابل قبول نہیں.

ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ کسی بھی صورت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت انڈیا کو ناراض نہیں کرے گا وہ پاکستان کو کشمیر کے معاملے میں دلاسہ تو دے سکتا ہے پاک انڈیا کو جنگ جیسے خطرے سے روک سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کشمیر کے معاملے میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے ان حالات میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے. سب سے پہلے تو اپنے اندرونی حالات بہتر کرنے پر توجہ دیں اپنی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کریں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کریں اور جوش کی بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے.

مسئلہ کشمیر پے سفارت کاری کے لیے اچھی ٹیم کی ضرورت ہے. حکومت کو چاہئے چالیس سے پچاس لوگوں کا ایک وفد تیار کرے جس میں بہترین سفارت کار, تھنک ٹینکس کے لوگ, میڈیا کے لوگ, اور سول سوسائٹی کے لوگ شامل ہوں. ان لوگوں کو ہر اہم ممالک میں بھیجا جائے جہاں یہ مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز سے اجاگر کر سکیں. کیونکہ یہ زمانہ پروپیگنڈہ جنگ کا زمانہ ہے اس کے لئے ملک کے تمام اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ملکی مفادات کیلئے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے. تاکہ ہم اپنی نسلوں کے آگے شرمندہ نہ ہوا.
تحریر برائے فہمیدہ خالد
 

Fehmeedah
About the Author: Fehmeedah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.