سعودی تیل تنصیبات نشانے پر کیوں ۔؟

 سعودی عرب میں دنیا کی سب سے بڑی تیل فراہم کرنے والی کمپنی آرمکو کی خریص اور بقیق میں میں قائم دو تنصیبات پر ہفتے کوحوثی باغیوں کی طرف سے ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ان میں ایک تنصیب مملکت کے مشرقی صوبے میں الدمام شہر کے نزدیک واقع علاقے بقیق میں ہے اور دوسری تنصیب ہجر خریص آئل فیلڈ میں واقع ہے۔بقیق دارالحکومت ریاض سے 330 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہاں یومیہ 70لاکھ بیرل تیل پروسیس کیا جاتا ہے۔خیال رہے کہ بقیق میں تیل کی تنصیبات کو پہلی بار نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ 13 سال قبل 2006 میں القاعدہ نے بھی یہاں خودکش حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔دوسری تیل کی تنصیب خریص جسے نشانہ بنایا گیا ہے یہ سعودی دارالحکومت ریاض سے 160 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔خریص میں تیل کے 20 ارب بیرل تیل کے ذخائر ہیں۔ ان ذخائر سے یومیہ 10 لاکھ بیرل تیل نکالا جاتا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب کے اہم مقامات کوڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنایاجارہاہے سوال یہ ہے کہ حوثی باغیوں کی طرف سے تیل منصوبات کے مقاصدکیاہیں اوراس کے پیچھے ایجنڈہ کیاہے ؟

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جب سے عنا ن اقتدارسنبھالی ہے انہوں نے وژن 2030 دیاہے جس کے تحت سعودی عرب کوترقی کی نئی راہ پرڈالناہے ۔محمدبن سلمان کے اقدامات اوروژن 2030کی وجہ سے انہیں چندقوتیں برداشت نہیں کرپارہے ہیں ا س لیے سعودی عرب کومختلف طریقوں سے گھیراجارہاہے مملکت سعودیہ کوکمزورکرنے کے لیے مختلف حربے آزمائے جارہے ہیں ،محمدبن سلمان روایتی حکمران نہیں ہیں وہ ایک غیرروایتی ولی عہدہیں انہوں نے سعودی معاشرے کی روایتی جکڑبندیوں کو ڈھیلا کرنا شروع کیا جن میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت،نوکریوں میں ان کی شرکت اور دیگر ایسے معاملات شامل تھے جو سعودی معاشرے میں پہلے شامل نہیں تھے۔

ان تبدیلیوں کے حسن و قبح سے قطع نظر یہ دراصل محمد بن سلمان کی معاشی پرواز کی تیاری تھی جس کے لئے انہوں نے مغرب میں اپنی مملکت کا سافٹ امیج اجاگر کرنا تھا۔ وہ مغرب کو تیل بیچنا ضرور چاہتے تھے لیکن اپنے ملک کی معیشت کو اس کی انحصاری سے نکالنا چاہتے تھے ۔ لبرل معیشت میں سعودی عرب کا حصہ بس ایندھن کی حد تک کیوں ہو یہ ان کا خیال نہیں حقیقت تھی۔ان کاملک جو تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے ان کے عنان اقتدار سنبھالنے سے قبل دو سال اسی تیل کے بحران کے باعث معاشی مشکلات کا شکار رہا۔

سعودی عرب کے سالانہ ریونیو کا ستر فیصد اسی تیل پہ منحصر ہے ۔ 2015-17 کے درمیان تیل کی قیمتوں میں انحطاط کے باعث آنے والے معاشی بحران جس سے مملکت سعودیہ ابھی تک نبردآزما ہے، محمد بن سلمان کو مجبور کیا کہ وہ معاشی انحصار کے نئے امکانات کی تلاش کریں۔ سعودی عرب میں تیل کی دریافت کے بعد یہ غالبا تاریخ میں پہلا دور تھا جس میں مملکت کو سادگی اور کفایت شعاری کے راستے اختیار کرنے پڑے۔یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب نے اوپیک کو تیل کی قیمتیں بڑھانے پہ راضی کیا اور کافی حد تک بحران پہ قابو پالیا۔

تیل کے اسی ڈالرفی بیرل کی اوسط قیمت پہ سعودی عرب سمیت تیل کے پیداواری ممالک کا اوسط فی کیپیٹا انکم اٹھارہ سو ڈالر تک ہے جو متبادل ٹیکنالوجی کے باعث 2030 تک تیس فیصد کم ہونے کا خطرہ ہے۔اسی خطرے کے پیش نظر اوپیک نے پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس تناظر میں محمد بن سلمان نے نہایت تیزی سے اقدامات کرنے شروع کئے اور وژن 2030 کا اعلان کیا اوراقدامات اٹھائے ہیں ، محمد بن سلمان نے اسی وژن کے تحت سعودی عرب کو اسلحہ سازی میں خود کفیل بنانے کا ارادہ بھی کرلیاہے جس کے تحت 2030 تک جب تیل سے حاصل ہونے والا ریونیو تیس فیصد تک کم ہو جائے گا، سعودی عرب اسلحہ درآمد کرنے کی بجائے پچاس فیصد اسلحہ اپنے ملک میں بنانے کے قابل ہوجائے گا۔اس طرح مغرب کو تیل بیچ کر جو ریونیو حاصل ہوتا تھا اب اسلحہ کی خرید کی صورت میں واپس مغرب نہیں جائے گا اور یہی وہ نکتہ ہے جو امریکہ اودیگرقوتوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ جس کے لئے اس نے ایران کو مشرق وسطی میں کھلی چھوٹ دی اور اس کا ہوا کھڑا کرکے سعودی عرب کو اسلحہ بیچا۔

اسی تناظرمیں دیکھا جائے توسعودی عرب کوعلاقائی جنگوں میں الجھادیاگیا ہے یمن کی جنگ بھی اسی کاشاخسانہ ہے ،سعودی عرب کی قیادت میں مارچ 2015 سے یمن میں باغیوں کے خلاف جنگ جاری ہے دوسری جانب یمن میں باغی حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔۔اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں کے مطابق یمن جنگ میں حالیہ دنوں میں حوثیوں نے جو ڈرون استعمال کیے ہیں یہ 1500 کلومیٹر تک پرواز کر سکتے ہیں۔ظاہرہے کہ باغیوں کے پاس اتنے جدیدڈرون کاپہنچنابھی ایک سوالیہ نشان ہے ؟دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب اکتوبر سے یومیہ 9.890ملین بیرل پٹرول نکالے گا۔سعودی وزیر توانائی نے کہا کہ تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک کو پیداواری کوٹے کی پابندی کرنا ہو گی۔ سعودی عرب یومیہ 70لاکھ بیرل تیل برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

شہزادہ عبد العزیز بن سلمان نے کہاہے کہ حالیہ حملوں کے نتیجے میں لگنے والی آگ پرقابوپالیاگیا ہے تیل کی پیداوارعارضی طورپر متاثر ہوئی۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق ان دھماکوں کے نتیجے میں خام تیل کی فراہمی کی 50 فی صد مقدار معطل ہوگئی جس کا تخمینہ لگ بھگ 5.7 ملین بیرل تھا۔ کمپنی نے اپنے گاہکوں کو تیل کی کمی نہیں ہونے دی اور انہیں ذخیرہ شدہ تیل سے کمی پوری کی گئی۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ حملے کے نتیجے میں انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا،کمرشل سرگرمیاں متاثر ہوئیں پاکستان سعودی عرب کے امن و سلامتی میں ساتھ کھڑا ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو فون کر کے سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مدد کی پیشکش کردی، ولی عہد محمدبن سلمان اس پیشکش کوٹھکراتے ہوئے کہاکہ سعودی عرب دہشتگردوں سے خود نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسری جانب وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے تیل تنصیبات پر حملوں کا الزام ایران پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے یمن سے ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔حالانکہ حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمے داری خود قبول کی ہے ۔

ان حملوں کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کا دعوی ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی صورت میں وہ تیل کی عالمی مانگ کو پورا کر سکتا ہے۔ امریکہ مختلف ممالک پر دبا ڈال رہا ہے۔سعودی عرب میں 1936 سے 1970 کے درمیان تیل کے بے شمار ذخائر دریافت ہوئے۔ اس کے بعد قدرے نئی دریافتیں نہیں ہوئیں۔1970 کی دہائی میں اس بات پر اتفاق رائے موجود تھا کہ سعودی عرب میں 530 ارب بیرل او او آئی پی موجود تھے۔

بزنس انسائڈر ویب سائٹ نے تازہ ترین درجہ بندی کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ 2018کے دوران دنیا کے طاقتور ترین 25ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نمبرنواں ہے۔ بزنس انسائڈر نے عسکری و اقتصادی پالیسی کی اہمیت اور قومی اثر و نفوذ کے اثرات کو مدنظر رکھ کر درجہ بندی کی ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ، دوسرے پر روس ، تیسرے پر چین، چوتھے پر جرمنی، پانچویں پر برطانیہ، چھٹے پر فرانس، ساتویں پر جاپان، آٹھویں پر اسرائیل اور نویں نمبر پر سعودی عرب جبکہ امارات کا نمبر دسواں ہے جبکہ ہندوستان 15ویں نمبر پر ہے۔

 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 82422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.