فکر

پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے آج کل کے لوگوں کو ایک وقت تھا جب لوگ ایک دوسرے کی عزت و قدر کرتے تھے اور ایک دوسرے کیلئے قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اسلامی معاشرہ مکمل طور پر اخوت اور رواداری کا عملی نمونہ تھا جو اب صرف کتابوں میں نظر آتا ہے۔ ہجرت مدینہ کے وقت بھائی چارے کی جو مثال ملی وہ پوری دنیا کی تاریخ میں ایک مقام رکھتی ہے۔ جہاں ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو اپنی ہر چیز میں برابر حصہ دے رہا ہے۔

لیکن آج کل تو حالات دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ کوئی زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے چکر میں ہے تو کوئی راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے خواب دیکھ رہا ہے (اگر چہ ایسا غیر قانونی طریقے سے ہی کیوں نہ ممکن ہو)۔ ہماری حالت اس سے اور بھی زیادہ بدتر کیا ہوگی کہ مسجد کی لیٹرینوں میں رکھے ہوئے لوٹے کو بھی لوہے کی زنجیر ڈال کر باندھا جاتا ہے آخر کیوں؟

پورا معاشرہ بے سکونی کی لہر میں جکڑا ہوا ہے۔ کوئی آدمی بھی خوش و خرم زندگی نہیں گزار رہا۔ ہمارے مسلمان بھائی زیادہ سے زیادہ دولت کی لالچ میں اپنی موت تک کو بھولے ہوئے ہیں۔ فرمان ہے کہ دولت اور اولاد امت کی آزمائش ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی دولت کروڑوں ڈالر کس لیے کیا پتہ کب اور کس موڑ پہ موت آجائے ۔اور یہ دولت اسی دنیا میں چھوڑ کر خالی ہاتھ ایک کفن کے ساتھ جانا پڑے۔ آج جس اولاد کے بہتر مستقبل کیلئے ہم حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر دولت اکھٹی کر رہے ہیں قیامت کے دِن یہی اولاد ہمارے کام نہیں آسکے گی بلکہ جو دولت حرام طریقے سے کمائی تھی وہ اب وبال بن جائے گی۔
دور اَدب توں ننگے پنڈے بندہ آﺅندا اے ایس جہانے
اک کفن دی خاطر بندہ کنے پینڈے کردا اے

حکمرانوں، وڈیروں اور اربابِ اختیار افسروں کو سوچنا چاہیے جو حلال و حرام کی تمیز کے بغیر دولت کے انبار لگائے جا رہے ہیں کوئی پرواہ نہیں چاہے یہ دولت کسی غریب کا خون پسینہ ہی کیوں نہ ہو۔

ہاں ایک چیز ہے جو قیامت کے دن ہمارے کام آسکے گی اور وہ ہے نیکی ۔ نیکی کسی بھی قسم کی ہو سکتی ہے ۔دیگر عبادات کے علاوہ اپنے بیوی بچوں کیلئے حلال رزق کمانا ،کمزور کی مدد کرنا، جھوٹ سے بچنا ، یتیموں کو سہارا دینا، ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھنا، ماں باپ کا ادب کرنا، برائیوں سے نفرت کرنا اور اسی طرح دل میں اچھے کاموں کی نیت رکھنا وغیرہ سب نیکیاں ہی تو ہیں۔

میرے خیال میں دنیا میں کسی بھی انسان کی سب سے بڑی دولت اور جائیداد اُس کی نیک اور اچھی تربیت یافتہ اولاد ہے ۔ جو مرنے کے بعد بھی(صدقہ جاریہ کی طرح) اسکے کام آتی ہے۔ (خدارا اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجنئیر بنانے کیساتھ ساتھ اُن کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کریں )۔

آہ افسوس صد افسوس: آج مسلمان صرف رفع یدین کرے یا نہ کرے ،آمین خاموشی سے کہے یا باالجہر کہے ، ہاتھ سینے پر باندھے یا کہ ناف کے قریب ، جماعت میں سورة فاتحہ کا پڑھنا امام اور مقتدی دونوں کے لیے ضروری ہے یا صرف امام کیلئے ان جیسے کئی اور مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ فرقہ واریت اور ہٹ دھرمی نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔

بد قسمتی سے آج مسجدیں اور درگاہیں بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں کیا یہی ہماری مسلمانیت ہے؟ بے قصور لوگوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ یہ سب فرقہ واریت کا نتیجہ ہے یا کسی بھی طرح کی دہشت گردی کا قابلِ مذمت ہے۔
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 58239 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.