کراچی کی عوام قابل تعریف ہے۔ ۔۔

عوام بھی عجیب ہے۔ پچھلے دنوں اک اخبار کی خبر تھی کہ جب زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو عوام استغفار پڑھتی ہوئی گھروں سے باہر آ گئی، لیکن کچھ دیر بعد جب یہ معلوم ہوا کہ معاملہ تھم گیا ہے تو گانا گاتی ہوئی گھروں میں داخل ہوئی۔ ٹھیک اسی طرح مارچ کے مہینے میں اچانک ایک دن عوم سڑکوں پر آگئی احتجاج شروع ہو گیا تمام پیٹرول پمپس کے سامنے عوام کا جمع غفیر جمع ہو گیا دل کو تسلی ہوئی دل نے کہا کہ عوام مردہ دل نہیں ہے جاگ رہی ہے لیکن۔ ۔ ۔ پھر کیا تھا ؟؟؟ دیکھتا ہوں کہ عوام سڑکوں پر احتجاج اس لئے نہیں کر رہی کہ پیٹرول مہنگا ہو گیا ہے بلکہ۔ ۔۔ احتجاج اس لئے ہو رہا ہے کہ پیٹرول پمپس کھولے جائیں۔ ۔۔ یعنی۔ ۔ عوام کو اس پات سے سروکار نہیں کہ پٹرول مہنگا ہو جائے گا بلکہ پیٹرول نہ ملنے پر احتجاج ہو رہا تھا۔ لیکن پھر بھی میں نے دل کو جھوٹی تسلی دی۔۔ کہ عوام زندہ ہے ابھی دل مردہ نہیں ہوئے ناظم صاحب کی ہنگامی اطلاع آئی۔۔ آج شام ٥ بجے مظاہرہ ہے، حکومت نے پیٹرول پر جو اضافہ کیا ہے اس کے خلاف شہر بھر میں مظاہرے ہونگے۔ دل بہت خوش ہوا اپنے تمام دوستوں کو میسیج کر ڈالے فیس بک پر بھی پیغام دیا سوچا کہ آج ہزاروں لوگ نکلیں گے پھر کیا ہوا کچھ نہ پوچھیں آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں۔۔۔۔ میں اور میرے ناظم صاحب عصر کی نماز کے بعد چوک پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ تین بزرگان دین ہاتھوں میں پلے کارڈ لیئے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ ۔ دل بہت کڑا عوام کو بد دعائیں دیں۔ ۔ ۔۔ ایک پلے کارڈ اٹھایا اور سب سے آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عوام کے مسائل پر دھرنوں اور مظاہروں کی ذمہ داری صرف جماعت اسلامی کی ہی رہ گئی ہے۔ باقی ساری پارٹیاں جعلی ووٹ بھگتا کر حکومتوں کے مزے لوٹتے رہینگے۔ انگلینڈ میں اپنے بنگلے بناتے رہینگے اور معصوم عوام اسی طرح صبح گھر سے نکلے گی اور شام کو گھر میں داخل ہو گی۔

جیسے ہی عوام سگنل کھلتا لوگ اس طرح نکلتے جیسے موٹرسائیکل کی ریس ہو رہی ہو۔ ان سب کو اپنے اپنے گھروں پہنچنے کی جلدی تھی۔ اور پھر اگلے دن کاروبار زندگی اسی طرح بحال ہو گیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لوگ اسی طرح موٹر سائیکل اور کاروں میں پیٹرول بھروا کر اپنی اپنی زندگی میں مگن ہو گئے۔ واقعی کراچی کی عوام قابل تعریف ہے۔ ۔ ۔۔ ۔