کراچی والو! تم واقعی قابل قتل ہو ۔

اِدھر لاشیں ۔۔۔ اُدھر لاشیں ۔۔۔ خون کی برسات۔۔۔ وحشت کا راج ۔۔۔ ظلم کی باتیں ۔۔۔ اور گرم ساحتیں ۔۔۔ الزامات کی بوچھاڑ ۔۔۔ اور قاتلوں کی دھاڑ ۔۔۔۔ کم ظرف رہنما ۔۔۔۔اور عوام بے کس بے آسراء ۔۔

مولی گاجر کی طرح کٹتے لوگ ۔۔۔اور نام نہاد سوگ ۔۔۔ بوری میں بند لاشیں ۔۔۔۔ اور چیخ و پکار کی سماعتیں ۔۔ گھاٹ میں بیٹھا نوجوان ۔۔۔ لیڈر کا ارمان ۔۔۔ گولی اور بندوق ۔۔ پیسوں سے بھرے صندوق۔۔۔ قاتل سامراج ۔۔۔ اور غنڈوں کا راج ۔۔۔ بھوکے حکمران ۔۔ اور عوام بے حال ۔۔

یہ ہے تمہارا کراچی ۔۔۔۔ یہ ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی داستان خونچکاں ۔۔

لیکن کراچی والوں ! تم واقعی قابل قتل ہو ۔۔۔ تم خود اپنے حال کے ذمہ دار ہو ۔۔ تم نے لسانیت کے نام پر جو بیج بویا تھا ۔۔۔ وہ آج تناور درخت بن چکا ہے ۔۔ آج اس پر پھل لگا ہے تو سب اپنا حصہ مانگنے پہنچ گئے ۔

قصور تمہارا ہی ہے ۔۔ تم نے مہاجرت کا نعرہ لگایا اور ان حقوق کی بات کی جو شا؛د پنجابی ، پٹھان کا بلوچی کو بھی حاصل نہیں ۔۔۔ تم نے وہ راستہ اپنایا جو ملک دوستی کا نہیں وطن دشمنی کا تھا۔۔ تم نے اس کو رہبر بنایا جس نے لسانیت کے نام پر مہاجروں کا قتل عام کیا ۔۔۔ تم نے اس کو حوصلہ دیا جس نے تمہیں لاشوں کے تحفے دیئے ۔۔

کراچی والوں ! قصور تمہارا ہی ہے ۔۔ تم نے حقوق کے نام پر لوگوں کا قتل عام کیا ۔۔ تم نے نام نہاد لیڈر کی پرجوش تقریر دیکھی ۔۔ لیکن اس کے لہجے میں چھپی سازش سے بے خبر رہے ۔۔ تم نے اپنی ذات تک اپنے حقوق کو محدود رکھا ۔۔

کراچی والوں تم واقعی قابل قتل ہو ۔۔۔ تم نے محنت کی بجائے بندوق کو ذریعہ معاش بنایا ۔۔۔ تم نے ملکی قوانین کی دھچیاں بکھیریں ۔۔۔ تم نے بجلی کے بل جمع کروانے کے چوری کی ۔۔۔ تم نے مزدوری کی بجائے دادا گیری کی ۔۔۔ فیکٹری میں کام کرنے کی بجائے گھر بیٹھ کر تنخواہ لینے کو شعار بنایا ۔ تم نے پڑھ لکھ کر کچھ بننے کی بجائے ۔۔ کچھ بنے ہوؤں کی لاشیں گرائی ۔۔ تم نے پاکستانی بننے کی بجائے لسانیت کا نعرہ لگایا ۔۔ تم نے پنجابیوں کا قتل کیا ، تم نے بلوچیوں کو سازشی کہا ۔۔ تم نے پٹھانوں کو قبضہ گروپ سمجھا ۔

قصور تمہارا ہی ہے ۔۔۔ تم نے اپنے شہر کی بات کی ، تم نے اپنے آپ کی بات کی ۔ تم نے قومیت کی بات کی ، تم نے لڑنے اور مرنے کی بات کی ، تم نے قبضے اور قمار بازی کی بات کی ، تم نے جوئے اور بھتہ خوری کو رواج دیا ۔ تم نے عدم برداشت کے ساتھ دوسروں کو خون میں نہلایا ۔۔

اے کاش ۔۔۔ تم سب کو اپنا بھائی سمجھتے ، تم پاکستان کی بات کرتے ۔۔ تم دین کی بات کرتے ۔۔ تم جاہل اور انڈین ایجنٹ کی بجائے محب وطن پاکستانیوں کی ساتھ دیتے ۔ کاش تم نے ایک بار بھی سوچا ہوتا کہ اس نفرت کے بیج سے جو تناور درخت بنے گا وہ ملک کے لئے کتنا نقصان دہ ہوگا ۔ کاش تم بڑی سوچ رکھتے ۔۔ کاش تم نے اپنی ذات سے بڑھ کر سوچا ہوتا ۔۔۔

تو آج کراچی امن کا گہوارہ ہوتا۔۔ آج کراچی میں کشت و خون کی جگہ بہار کا ڈھیرہ ہوتا ۔۔ تم نے آگے بڑھ کر ان قاتلوں کا گریبان پکڑا ہوتا تو تمہیں سکھ کا سانس لینا نصیب ہوتا ۔ لیکن تمہاری سوچوں پر تالے ڈال دئے ، تمہارے اندر زہر بھر دیا گیا ۔ تمہیں سوچنے اور سمجھنے سے قاصر کر دیا گیا ۔۔ تم نے انہی قاتلوں اور بھتہ خوروں کو قومیت کے نام پر صندوق بھر کو ووٹ دیئے ۔۔۔۔
اسی لئے کہتا ہوں ۔۔۔
اے کراچی والوں!!!!

تم واقعی قابل قتل ہو ۔۔۔
Awais Aslam Mirza
About the Author: Awais Aslam Mirza Read More Articles by Awais Aslam Mirza: 23 Articles with 59121 views ایک عام انسان جو معاشرے کو عام سے انداز سے دیکھتا ہے ۔ .. View More