راجہ داہر زندہ ہے!

انگریز سرکار نے کراچی کی جیو پولیٹیکل اہمیت کو دیکھتے ہوئے شہر پر خصوصی طور پہ توجہ دی اور میٹروپولیٹن سٹی بنایا، جلد ہی کراچی اناج برآمد کرنے والا برصغیر کا سب سے بڑا شہر اور پیرس آف ایشیا کہلانے لگا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی پاکستان کا دارالحکومت قرار پایا ، جس نے پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ، اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کراچی پاکستان کا معاشی قلعہ کہلاتاہے۔ مگر بد قسمتی سے کبھی کا پیرس آف ایشیا چند جاگیر داروں اور وڈیروں کے تسلط میں آ گیا۔جس کے باعث آج یہ حال ہے کہ لوگوں کو پینے کا پانی تک دستیاب نہیں جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔سندھ کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ وہ نسل پرست دہشتگرد بھی ہیں جنہوں نے معصوم طبقوں کو اپنے ناجائز اور مذموم عزائم کیلئے استعمال کیا ۔کراچی کو نکاسی آب کے مسئلے کا سامنا ہے جو آئے روز سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں برسات کے ریلوں کی گزرگاہ بھی مختلف نالوں کے ذریعے کراچی سے ہی ہوتی ہے۔یہاں بہت سے ندی نالے موجود ہیں جن میں لیاری ندی، ملیر ندی ، سہراب گوٹھ نالہ سمیت بیسیوں چھوٹے بڑے ندی نالے شامل ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال برسات کے موسم میں کراچی پانی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ، جس پر میڈیا شور مچاتا ہے اور حکومتی نمائندے اس کے جواب میں صفائیاں اور کاکردگیاں گنواتے نظر آتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ تجاوزات کا ہے ، کہ ان ندی نالوں کی زمین کو لینڈ مافیا نے پولیس کی ملی بھگت سے سرکاری سرپرستی میں فروخت کیا۔جس کے باعث اب کراچی نکاسی آب جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہے۔اس کی اہم وجہ سفارشی اہم عہدے سنبھالنے والوں کے خوشامدآنہ رویے اور ناقص پالیسیاں بھی ہیں ۔سندھ سرکار کی نان میرٹ بھرتیوں کے باعث نااہل لوگ اہم عہدوں پر بھرتی ہوئے ، اور انہوں نے سوائے اس کے کہ پارٹی فنڈز اکٹھے کریں ، پارٹی کی قیادت کے ساتھ وفاداری کریں اور لوٹ مار کے ذریعے اپنے اور اپنے آقاؤں کی انجمن افزائش نسل کیلئے کام سر انجام دینے کے کچھ نہیں کیا۔اس کے علاوہ کراچی ایک عرصے سے جرائم و بد امنی کی آگ میں جل رہا ہے بالخصوص آخری بارہ سالوں سے اس میں شدید اضافہ ہوا ہے۔اس کی اہم وجہ جرائم پیشہ افراد کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے سرپرستی تو دوسری طر ف سندھ پولیس میں بڑے پیمانے پر جرائم پیشہ افراد کی بھرتیاں کی گئیں ،مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افسران و اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ ایسے افسران کی ہی بدولت آج دشمنوں کو پاکستان کی سالمیت پر بات کر نے اور اچھالنے کا موقع ملا ہے، ایسی کئی مثالیں اور واقعات موجود ہیں جس کے پس پشت سیاہ سی سرگرم نظر آتے ہیں اور یہ ثابت بھی ہوچکا ہے کہ کہ عزیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم جیسے سیاہ سی پلو کیسی سرگرمیوں میں ملوث پا کر اس وقت قانون کے شکنجے میں ہیں ۔جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک وجہ وہ افغان تارکین بھی ہیں جو کراچی کے مضافاتی علاقوں میں ناجائز قابض و آباد ہیں اور اسلحہ و منشیات کی ترسیل ، کار لفٹنگ و اغواہ برائے تاوان جیسی مجرمانہ سند انہی کے دم سے آباد ہے۔ہماری سیاسی جماعتوں نے ذاتی مفاد کی خاطر کبھی ان گروہوں کے خلاف کاروائی نہیں ہونے دی اور نہ ہی ناجائز آبادیوں کو ختم کیا جو کہ نہ صرف جرائم کا گڑھ ہیں بلکہ مجرموں کی محفوظ پناہ گاہیں بھی ہیں ۔ سندھ و کراچی کی موجودہ مخدوش حالت کی سب سے بڑی وجہ وہ سیاسی اور نااہل افراد کی جعلی بھرتیاں ہیں جن کو مختلف سیاسی پارٹیوں ، بالخصوص پیپلز پارٹی نے اہم عہدوں پر بھرتی کیا۔ حتیٰ کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کو بھی سیاسی بھرتیوں کیلئے استعمال کیا گیا جہاں سے صرف ان لوگوں کو بھرتی کیا جاتا جن کی لسٹ اوپر سے آتی۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ نے بھی سندھ پبلک سروس کمیشن کو نا اہلیت کی سند سے نوازا تھا۔ انہی لوگوں کی پالیسیوں کی بدولت کراچی ہر سال پانی میں ڈوبتا ہے، نت نئی بیماریاں پیدا کرتا ہے اور معیشت اثر انداز ہوتی ہے، نتیجۃََ پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، ترقی کی جانب سفر دوبارہ وہیں آ کر رک جاتا ہے جہاں سے شروع ہوا۔ اکیسویں صدی میں بھی کراچی میں پینے کے پانی کے بحران کا سامنا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے عام آدمی کی زندگی متاثر ہورہی ہے بلکہمعاشی ترقی کا پہیہ بھی دھیما چل رہا ہے، تعجب کی بات ہے کہ پانی چوری کی عام آدمی اور صحافیوں کو تو خبر ہے لیکن ادارے مجرمانہ طور پر بے خبر ہیں ۔پینے کا پانی سرکاری لائنوں کے ذریعے مہینوں نہیں ملتا ہاں البتہ ٹینکرمافیا اتنی مضبوط ہے کہ ایک کال کرنے پر وافر مقدار میں پانی مہیا ہو جاتا ہے۔یہ کیسا پانی ہے جو گھروں کی لائنوں میں تو نہیں آتا لیکن ٹینکر مافیا کو وافر مقدار میں دستیاب ہے۔واٹر بورڈ سے شکایت کی جائے تو گھریلو صارفین کو کہا جاتا ہے کہ روڈ بلاک کر دو، یعنی شہر میں بد امنی پھیلانے کیلئے یہی نا اہل بیوروکریسی اکساتی ہے، اور یہ ایجنڈا کس کا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کراچی میں حالیہ بارشوں کی سبب سیلاب کے دوران کرنٹ لگنے کی وجہ سے انیس سے زیادہ اموات ہوئیں ہیں جس پر انتظامیہ اور محکمانہ رد عمل غیر انسانی ہے۔اگر میں کہوں کہ سندھ میں حکومت راجہ داہر کی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہی ظلم و جبر، وہی بادشاہت، وہی نسل پرستی، وہی تعصب اور حکومتی اقدار بھی وہی۔اور سندھی نسل پرست بھی ایسے لوگوں سے ابھی تک خوش نظر آتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے سندھ کیلئے جو سندھ کو ترقی کی طرف گامزن کر نے کی بجائے تنزلی کی طرف لے جا رہا ہے۔ لیکن شعوری حالت یہ ہے کہ آج بھی سردار اور وڈیروں کی بات حرف آخر ہے ۔ غلام قوم کی یہی پہچان ہوتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد وہی نسلیں آج بھی با شعور ہیں جو اس وقت تحریک آزادی میں سرگرم تھیں یا جنہوں نے آزادی کیلئے قربانیاں دی تھیں ۔ باقی سب آج بھی غلام ہیں اور شاید سرکس کے ہاتھی اور شیر کی طرح یہ کبھی اپنی طاقت نہیں سمجھ پائیں گے۔ راجہ داہر کی موت کی ضمانت صرف نااہل ، جاہل بیورکریسی اور سیاہ ست کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 168287 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More