ولیٔ کامل مولانا محمد ذاکرؒ

تحریر :پروفیسر رشیداحمد انگوی
بیسویں صدی کے ایک جامع الصفات ٗ بے مثل علمی ٗ روحانی ٗ سیاسی وتعلیمی قائد ورہبر مولانا محمد ذاکرؒ بانی دارالعلوم جامعہ محمد شریف (ضلع چینیوٹ)تھے۔ قائد اعظمؒ کے معتمد ساتھی اوردستور ساز اسمبلی کے رکن جو بعد ازاں کئی بار پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوتے رہے اوراپنے آخری پارلیمانی دورانئے میں ویل چئیر پر بیٹھ کر اسمبلی کے اجلاس ٰں شریک ہوتے ۔ مولانا محمد ذاکرؒ مشہور روحانی مرکز سیال شریف سے وابستہ اورخواجہ قمرالدین ؒ کے مقر بین خاص میں سے تھے ۔ وہ علامہ اقبال سے گہری محبت کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنے لیے لازم قراردیا تھا کہ علامہ اقبال پنجاب میں جو عظیم اسلامی تحقیقی مرکزقائم کرنا چاہتے تھے وہ میں قائم کروں گا اوراسی عزم کی تکمیل کے لئے انہوں نے چنیوٹ وجھنگ کے درمیان بھوانہ کے قریب دریائے چناب کے کچے علاقوں سے جڑے ایک وسیع خطۂ ارضی پردارالعلوم جامعہ محمدی شریف قائم کیا اوراپنی زندگی میں ملک کے طول وعرض سے جہد علماء کو یہاں لے آئے جو قرآن وسنت کی تعلیمات سے امت کے نوجوانوں کو مالا مال کریں ۔و ہ دو مرتبہ علامہ انور شاہ کشمیری وعلامہ شبیر احمد عثمانی کے لائق ترین شاگرد شیخ الحدیث مولانا قاضی محمد خلیلؒ کوبطور شیخ الجامعہ اپنے پاس لے آئے ۔ اسی طرح عظیم محقق مولانا محمد متین ہاشمی ؒ کو مشرقی پاکستان سے بلا کر جامعہ میں لے آئے جہاں راقم جیسے طلبہ ان سے فیض یاب ہوئے ۔ ان کی فرمائش پر ’’سوشیالوجی آف قرآن‘‘کے عالمی شہرت یافتہ سکالر ڈاکٹر بشار علی کراچی سے تشریف لائے اورکئی لیکچرز سے اہل جامع کو نوازا۔ مولانامحمد ذاکر بہت بڑے منتظم ومدبر تھے جو اپنے تعلیمی مرکز کو ہر مسلک کے درخشندہ ستاروں کے علم سے فیض یاب کرانے سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں فرقہ وارانہ سوچ سے آزاد رکھا۔ وہ اپنے مرشد حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ کی مستقل نگرانی میں جامعہ کا نظام جاری رکھے ہوئے تھے جہاں خواجہ صاحب وقتاً فوقتاً تشریف لاکر تعلیمی سرگرمیوں کا قریب سے معائنہ فرماکر ہدایات جاری کرتے ۔ مولانا محمد ذاکر بہت بڑے صوفی ومرشد ہوتے ہوئے اپنے لوگوں کی درخواست پر پارلیمنٹ میں جاتے رہے ۔ اُنہیں کبھی ووٹ مانگنے کی نوبت نہ آتی کیونکہ لوگ ان کے حق میں ووٹ ڈالنا اپنی سعادت سمجھتے تھے ۔ مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا محمد نافعؒ ان کے دست راست اورملک کے صف اوّل کے محققین ومصنفین میں شمار ہوتے ۔ اب بھی مولانا کے صاحبزادے مولانا رحمت اﷲ اکثر اسمبلی میں منتخب ہوکر اپنے عظیم والدؒ کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔ مولانا نے دارالعلوم کے پروگرام سے آگاہی کے لئے ماہنامہ ـ’’الجامعہ‘‘جاری کیا جو پون صدی گزرنے کے باوجود باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے ۔ ذی الحج کا مہینہ شروع ہوتے ہی مولانا محمد ذاکرل کی برسی آتی ہے تو ان کا تذکرہ نوکِ قلم پر آجاتا ہے ۔ مشہور صحافی نذیر ناجی نے ایک بار لکھا تھا کہ اگر مجھے کسی فرشتے کاحلیہ بیان کرنے کا کہا جائے تو میں مولانا محمدذاکرؒ کا حلیہ بیان کردوں گا۔ اﷲ کریم نے مولانا کو ایسا پُرنور وجود عطا فرمایا تھا کہ ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہوئے تقدس اورپاکیزگی کا تاثر ابھرتادکھائی دیتا ۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ کریم ان کی قبر کو نور سے بھر دے ۔(آمین )

کوئی شک نہیں کہ قومی سیاست میں حصہ بننے والی دینی ، سیاسی شخصیات کے لیے مولانا محمد ذاکر کی زندگی ایک رول ماڈل کا مقام رکھتی ہے کہ علماء وقائدین کو یہی بات زیب دیتی ہے کہ وہ خلوص وایثار اوروسعت ظرفی میں مولانا محمد ذاکر کی زندگی سے راہنمائی حاصل کریں ۔ہماری یونیورسٹیوں کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم ٗ اسلامیات اورسیاست کے شعبوں میں مولانا محمد ذاکر کی شخصیت اورکارناموں پر تحقیقی مقالے لکھے جائیں خصوصاً آج کے دور میں جب قحط الرجال کا سامنا ہے تو مولانا محمد ذاکر کا تذکرہ ایک روشن مینار کا کام دے سکتا ہے ۔

 

Noor Ul Huda
About the Author: Noor Ul Huda Read More Articles by Noor Ul Huda: 48 Articles with 34139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.