٩٠ تا انگلینڈ-٢

میرے اس کالم کا مقصد کراچی کی معصوم عوام کو حقیقت بتانا ہے نہ کہ کسی کی دل آزاری کرنا ہے، در اصل کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی سیاسی پارٹی وجود میں آتی ہے اس کا ایجنڈا حکمرانوں کو سیدھے راہ پر لانے یا سیدھی راہ پر نہ آنے کی صورت میں حکومت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ دراصل ایم کیو ایم وہ جماعت ہے جو نہ تو محب اسلام ہے اور نہ محب وطن اس بات کا یقین مجھے اس وقت ہوا جب یکم مارچ ١٩٨٦ کو الطاف حسین صاحب نے فرمایا کہ مہاجر صرف مہاجر فکر کو اپنائیں دوسری قومیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے انتہا پسندی کی باتیں کر رہی ہیں جبکہ ہم ابھی تک مسلک کے گورکھ دھندوں میں پڑے ہوئے ہیں ( یکم مارچ ١٩٨٦ روزنامہ جنگ)

الطاف حسین صاحب کو آج کل ملٹی قومیت کا دورہ پڑا ہوا ہے اور وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے ملک دشمنی میں بھارت سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہوئی ہے کہ جب وہ بھارت کے دورہ پر تھے تو انہوں نے پاکستان کے قیام کو ہی غلط قرار دے دیا تھا۔ ان کی پرانی تقریروں سے ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے محب وطن اور محب اسلام ہیں۔

انہوں نے ٩ اگست ١٩٨٦ کو اپنے بیان میں فرمایا کہ کراچی نے شریعت نافذ کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا۔

ان کے تاسیسی بیانات اس بات کی دلیل ہے کہ الطاف حسین صاحب نے ایم کیو ایم پاکستان کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ بہتر پاکستان کو تنزلی کی طرف لے کر جانے کے لیئے بنائی ہے ورنہ کراچی جیسا شہر جس میں دنیا کی بہتریں پورٹ ہو اتنا بدحال ہو یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

١٤ مارچ ١٩٨٧ کو الطاف حسین صاحب اپنے جلسے میں فرماتے ہیں کہ اگر مہاجروں کو حقوق نہ دیئے گئے تو پاکستان ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے عوام سے استفسار کیا کہ مہاجر پاکستان کے لئے قربانی کیوں دیں؟ تو موقع پر موجود لوگوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تو الطاف حسین نے جواب دیا کہ اگر مہاجر اپنی ماؤں بہنوں کو سڑکوں پر بھینک مانگتے دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیں اور قربانیاں بھی دیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا نعرہ لگانے والوں! اگر آج تم نے نہ سوچا تو کل تمہاری بیٹیاں اور بہنیں بھی خیرات مانگنے پر مجبور ہوجائیں گی اس لیئے اگر پاکستان پر برا وقت پڑا تو قربانیاں نہ دینا۔ انہوں نے کہا کہ دین اور ملک نعرہ نہیں ہوتا، اسلام اور پاکستان کس چیز کا نام ہے؟ جسے پاکستان سے محبت ہے وہ سامنے آجائے اور اگر تمہیں فتویٰ لینا ہے تو کسی مولوی کے پاس نہیں میرے پاس آؤ۔

یہ تھا ایم کیو ایم کا تاسیسی بیان الطاف حسین صاحب نے کراچی میں تشدد کو فروغ دیا پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑا دی۔