حکومتی پارٹی کا احتجاج ---- کس بات کا پیغام ہے؟

موجودہ حکومت کے سوا سب کچھ ہی تو ختم ہوتا جارہا ہے ، نہ اخلاقی اقدار بچا نہ احساس ِ ذمہ داری اور نہ ہی عام انسانوں کا احساس ۔تین سال قبل اندر ہی اندر کڑنے اور رونے والی قوم اب چیخنے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ہے لوگوں کی اکثریت حکمرانوں کو کھلے الفاظ میں مغلظات بکنے پر مجبور ہوگئی ہے، سیاست دانوں سے تنگ یہ قوم اب اپنے مسائل کے حل کے لیئے گڑگڑا رہی ہے کہ خدا کے لیئے ہماری طرف بھی کوئی توجہ دے ، کوئی بھی آجائے مگر موجودہ حکمرانوں سے نجات دلا دی جائے تاکہ کچھ بہتری کی امید تو کی جاسکے۔

پیپلز پارٹی نے چیئرمین نیب دیدار حسین کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کی کا ل دیکر کھل کر اس بات کا اظہار کردیا ہے کہ حکومتی فیصلے غلط ہوں یا سہی سب کو ماننا پڑے گا نہ ماننے کی صورت میں وہ احتجاج کریگی ، اور سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو حکومت تسلیم نہیں کرے گی۔جمعہ کے روز پیپلز پارٹی کی جانب سے احتجاج کے لیئے جمعرات کی رات سے ہی جو کاروائیاں کراچی شہر میں کی گئیں وہ بھی حیرت کی بات تھی کہ ایک حکومتی جماعت خود ملک میں افراتفریح کا ماحوال پیدا کررہی ہے اس سے قبل حکومت میں شامل متحدہ قومی موومنٹ اس طرح کا احتجاج کرتے ہوئے واضح کرتی تھی کہ حکومت میں رہنے کے باوجود ہم حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر کے جرات مندی کا ثبوت دیتے ہیں ۔اب پیپلز پارٹی نے احتجاج کر کے نہ صرف متحدہ بلکہ پوری قوم کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہے۔

بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو آنے والے دنوں کا اندازہ ہوگیا ہے اسی وجہ سے اس نے اپنی” اسٹریٹ پاور“ ظاہر کرنے کے لیئے یہ احتجاج کیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ کسی اور نے لیا ہو یا نہیں لیکن فوجی اسٹبلشمنٹ نے اس احتجاج کا گہرائی سے نوٹس لیا ہوگا اس نوٹس کے نتائج آئندہ چند روز میں ظاہر ہونے کا امکان ہے اور اب فوج کے پاس بھی اقتدار سنبھالنے یا جمہوری سیٹ اپ میں مداخلت کرنے کا پورا جواز موجود ہے اگر اب فوج یہ بھی کہئے کہ جمہوریت بچانا ضروری نہیں ملک بچانا ضروری ہے تب بھی قوم فوج کو لبیک کہے گی اور اس کا خیر مقدم کرے گی ۔

موجودہ صورتحال میں عام پاکستانی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس فوجی نے جمہوریت سے کیا مفادات حاصل کیئے یہ لوگ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ان کی زندگیوں کو اس جمہوریت سے جو نقصان پہنچا وہ ماضی میں کسی بھی دور سے نہیں پہنچا تھا ۔

حقیت یہ ہے کہ جب خود حکومت ہڑتال یا احتجاج کی طرف آجائے تو پھر ملک کی سالمیت خطرے میں پڑجاتی ہے کیونکہ حکومت اپنے احتجاج کے لیئے سرکاری مشینری اور اختیارات استعمال کرسکتی ہے جس کا معمولی سا مظاہرہ جمعہ ۱۱ مارچ کے احتجاج کے حوالے سے سندہ خصوصاََ کراچی کے شہریوں نے خود دیکھا۔

مجھے یہ بھی یقین ہے کہ حکومت خود اپنے وجود سے مایوس ہوگئی ہے اس لیئے اب وہ اس راستے پر گامزن ہے جہاں سے اسے جو بھی حاصل ہوگا اسے وہ غنیمت سمجھ کر اپنے مسقبل کے دنوں کی تیاری کرے گی لیکن اس بار جمہوریت کی بساط لپٹے جانے کی پوری ذمہ دار بھی حکومت ، اس کے اتحادی اور اس سے وابستہ افراد ہی ہونگے اس بار فوج پر کوئی بھی جمہوریت پر شب خون مارنے یا اس کا خاتمہ کرنے کا الزام بھی نہیں لگا سکے گا اس کی ایک وجہ ملک اور قوم کی حالت بھی ہے اور خود حکومت کی ایک اتحادی جماعت کی طرف سے ایک سے زائد بار فوج کو موجودہ نظام میں مداخلت کرنے کی دعوت دی جاچکی ہے متحدہ قومی موومنٹ نے ملک میں انقلاب کے لیئے بھی فوج کو مدد کرنے کا مطالبہ کیا ہے اس کا مطلب واضع ہے کہ ملک کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ اب یہاں انقلاب آنا چاہئے مجھے یاد نہیں کہ کسی ملک میں عوام نے یا کسی سیاسی جماعت نے انقلاب کے لیئے فوج کی مدد حاصل کی یا نہیں؟اس کا جواب تو انقلاب کی بات کرنے والے ہی دے سکتے ہیں۔

میں آج اپنی تعریف میں نہیں بلکہ مجبوراََِ اپنے چند پرانے کالمز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کہ ان ہی صفحات پر شائع ہوئے تھے تاکہ قارئین کو مذکورہ کالمز پڑھ کر ملک کے حالات کا اندازہ ہوسکے ۔گزشتہ سال 27 اگست کو میں نے ”سیاسی ایوانوں میں ہلچل اور فوج میں خاموشی“ کے عنوان سے اپنے کالم میں حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ فوری طور پر ایسے اقدامات کئے جائیں کہ لوگوں کو احساس ہو کہ حکومت کو ان کا احساس ہے۔یکم اکتوبر کو ہماری ویب پر آن لائن ہونے والے کالم ” ملک کی صورتحال حکومت اور فوج“ میں بھی میںنے ملک کی خراب صورتحال کا ذکر کیا اور فوج کے جمہوریت کے تسلسل کے لیئے رکھے جانے والے روئیے کی نشاندہی کی ۔15اکتوبر کے کالم ” کیا جیالے عدلیہ سے لڑائی کے لیئے تیار ہیں؟ “ میں میں نے امریکی اخبار کے چیف جسٹس جناب جسٹس چوہدری افتخار کے کردار پر تبصرہ کے حوالے سے لکھا تھا کہ ملک کے سیاست دانوں کو چاہیئے کہ اپنا اور ملک کا تمسخر نہ اڑائیں اور نہ صرف عدلیہ کے کردار کو تسلیم کریں بلکہ عدلیہ کہ تمام احکامات کو بھی تسلیم کریں اور 29 دسمبر 2010 کے کالم ” حکومت اور سیاسی جماعتوں کا روئیہ جمہوریت کے لیئے نقصان دہ ہے“ میں میں نے لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت سے سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچ رہا ہے حیرت ہے اسے ہٹانے کے لیئے جمہوری طریقے اپنائے جاسکتے تھے اور ہیں بھی لیکن ناجانے کیوں ابھی تک پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے شکوے شکایتوں کے باوجود اسے ہٹانے کے لیئے جمہوری راستہ اختیار نہیں کیا سیاسی جماعتوں کے اسی رویہ کی وجہ سے ملک میں سیاست بدنام ہورہی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے اور یہ ہی بات ملک میں جمہوریت کے لیئے نقصان دہ ہے۔

آج صورتحال کل سے زیادہ خراب ہوگئی ہے ،پارلیمنٹ میں موجود عوامی نمائندے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود قوم اور جمہوریت کے استحکام کے لیئے کوئی سنجیدہ اور جمہوری طریقہ اپنانے کے لیئے تیار نظر نہیں آتے جس کی وجہ بظاہر یہ ہی دکھائی دے رہی ہے کہ موجودہ جمہوری دور کے صرف دو سال رہ گئے ہیں اور دو سالوں کے لیئے یہ لوگ سیاست کا جوا نہیں کھیلنا چاہتے کیونکہ ان کا مقصد کسی طور پر بھی جمہوریت ، ملک اور قوم کی خدمت نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات ہیں۔

مجھے خوشی ہوگی کہ اگر قوم ساری سیاسی جماعتوں کے موجودہ کردار کو یاد رکھتے ہوئے آئندہ انہیں موقع نہ دیں بلکہ نئے چہرے متعارف کرائیں اور نئی جماعتوں کو موقع دیں کیونکہ یہ ہی قوم اور ملک میں بہترین ہوگا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152820 views I'm Journalist. .. View More