سائیکو منیشن

ابن ِصفی کی تخلیقات کو ادب کا درجہ نہ دینے والے ناقدین کے منہ پر طمانچہ۔

نامور اداکار وحید مراد مرحوم پر انکی ایک یادگار فلم ’’دوراھا‘‘ میں ایک گانا فلمایا گیا جو کہ سدا بہار ثابت ہوا:
بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں
جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں

اکثر یہ گیت سنتے وقت ایک بڑا ہی قوی احساس ماضی کے حوالے سے دل و دماغ پر چھانے لگتا ہے اور ماضی سے جڑی ہر شئے پر یہ گیت صادق آتا دکھائی دیتا ہے۔ خصوصاً آج کے اس ڈیجیٹل و انٹرنیٹ دور میں جہاں لوگوں کو اپنے کمپیوٹروں کے اسکرین اور باقی رہے سہے وقت میں انگنت ٹی وی چینلوں ہی سے سر اٹھانے کی فرصت میسر نہیں ہے، ایسے میں محسوس تو یہ ہی ہوتا ہے کہ بھلا کون اب آج سے تیس اکتیس برس پہلے تک لکھے جانے والے جاسوسی ناولوں کے مصنف جناب ابن ِصفی مرحوم اور ان کی لکھی گئیں ’’جاسوسی دنیا‘‘ اور ’’عمران سیریز‘‘ کو یاد رکھے ہوئے ہوگا اور باوجود اس حقیقت کے ابن ِصفی کو پڑھنے والے انہیں اب بھی اپنے حافظوں میں محفوظ رکھے ہوئے ہیں، پھر بھی کم از کم گزشتہ ایک آدھ دھائی تک تو بظاہر ایسا ہی محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اب ابن ِصفی محض اپنی لکھیں کتابوں اور ان کتابوں کو اس دور میں پڑھنے والوں تک ہی محدود رہ گئے ہیں۔

لیکن درحقیقت ابن ِصفی اور انکی جملہ تحاریر، ان کے اپنے ہی کہے ہوئے ان اشعار کی سچائی پر ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اور مزید کماحقہ طور پر پورا اترتے نظر آتے ہیں ۔
مدتوں گونجوں کا ذہن میں سوالوں کی طرح
تجھ کو یاد آؤں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح

ڈوب جائے گا کسی روز جو خورشید انا
مجھ کو دہراؤ گے محفل میں مثالوں کی طرح

زیرِ ِتزکرہ کتاب میں شامل ابن ِصفی کے فرزند ِارجمند ڈاکٹر احمد صفی، اپنے ہی تحریر کردہ ایک مضموں ’’ابن ِصفی کے بارے میں‘‘ میں اسی حوالے سے رقمطراز ہیں کہ: ان کی وفات کے بعد سے اب تک کوئی اور نام سری ادب میں اتنا مقبول نظر نہیں آتا اور اس میں تو کوئی کلام نہیں ہے کہ کسی نے بھی اشاعت یا فروخت میں ان کا ریکارڈ نہیں توڑا ہے۔ ان کی کتابیں اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں اردو، ہندی اور انگریزی میں شائع ہو رہی ہیں۔ انگریزی تراجم ان کو دنیا کے ان حصوں میں بھی روشناس کرا رہے ہیں جہاں پہلے ان سے واقف نہ تھے۔ اب تو ان کی انٹرنیٹ پر موجودگی بھی قابل ِذکر ہوتی جارہی ہے۔ گوگل پر ان کا نام لاکھوں صفحات تلاش کر کے دے دیتا ہے۔ فیس بک پر موجود ان کے صفحے پر ان کے ہزاروں قارئین کی اوسط عمر بیس سال کے قریب ہے یعنی ایسے نوجوان جو ان کی وفات کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی حیات اور ادبی کارناموں پر تحقیق کرنے والوں میں بھی سرفہرست نوجوان ہی شامل ہیں۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 18/19)

ہم نے ابتداء میں وحید مراد مرحوم اور ان پر فلمائے گئے گیت کا حوالہ پیش کیا تھا اور یہ حوالہ ہم نے کافی سوچ و بیچار کے بعد یہاں شامل کیا ہے، کیونکہ اگر بغور اس شعر کو پڑھ کر جناب ابن صفی مرحوم کے اِن اشعار کو پڑھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک منظوم سوال کا منظوم جواب ہے۔

علاوہ ازیں ’’سائیکو مینشن‘‘ میں تین سے زائد مقامات پر وحید مراد مرحوم کا تذکرہ آیا ہے اور مولف نے باقاعدہ ثبوت کے ساتھ وحید مراد کا تعارف ابن ِصفی کے ایک مداح کی حیثیت سے بھی کروایا ہے۔ وحید مراد کے تذکرہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ان کے اور ابن ِصفی مرحوم کے درمیان ایک قدر ِمشترک کا بھی تذکرہ کرتے چلیں۔ جیسا کہ احمد صفی کی تحریر کے اقتباس میں قارئین پڑھ ہی چکے ہیں کہ آج ابن صفی کے مداحین میں غیرمعمولی طور پر اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور انمیں سے زیادہ تر کا تعلق نوجوان نسل سے ہے اور ایسا ہی کچھ سلسلہ وحید مراد مرحوم کے ساتھ بھی ہے۔ 23 نومبر 1983 میں اپنے انتقال کے بعد ہی سے مسلسل ان کے مداحین میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور آج ان کے مداحین میں بھی سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں ہی کی ہے!!!!!!!

جیسا کہ خود جناب ابن ِصفی کے عرصہ ِحیات ہی میں ’’دانشوران و ناقدین ِادب‘‘ انکے تخلیق کردہ ادب کو کسی ’’ادبی خدمت‘‘ میں شمار کرنے سے ازخود گریز کرتے ہوئے انہیں ’’ادب ِعالیہ‘‘ تخلیق کر کے کچھ ’’ادبی خدمت‘‘ کرنے کے ’’گرانقدر‘‘ مشورجات عنایت کرتے رہتے تھے، جسکا تذکرہ خود ابن ِصفی نے اپنے ایک سوانحی مضمون ’’میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟‘‘ میں اپنے اور ان نام نہاد ’’دانشوران و ناقدین ِادب‘‘ کی جانب سے لگائے گئے ’’ادب کی خدمت نہ کرنے‘‘ کے الزام کے حوالے سے کیا تھا۔

حالانکہ ابن ِصفی نے محض اپنے جاسوسی ناولوں ہی کی مدد سے نہ صرف اردو زبان اور اردو ادب کی بلکہ برصغیر پاک و ہند کے اردو قارئین کے ادبی و جمالیاتی ذوق کی اصلاح و مہمیز کر کے اور ان میں احترام ِ قانون و آدمیت کے احساس کو جگا کر جو عظیم الشان خدمات سرانجام دیں ہیں اور بفصل ِخدا بعد از مرگ بھی دے رہے ہیں، اسکے عشر ِعشیر کا اندازہ بھی، انہیں ایک اعلیٰ پائے کے ادبی مصنف اور انکی تحاریر کو ادنیٰ شہ پاروں میں شمار نہ کرنے والے یہ نام نہاد ادبی ناقدین نہیں کرسکتے۔

انہی نام نہاد ادبی ناقدین کے بارے میں ابن ِصفی اپنے عمران سیریز 58 کے ناول ’’پاگلوں کی انجمن‘‘ میں رقمطراز ہیں: صاحبزادے ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ذہین بھی تھے، لٰہذا جارحیت پسندی نے انہیں ناقد بنا دیا۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 244)

ادبی ناقدین کی اسی جارحیت پسندی کو مد ِنظر رکھتے ہوئے ہم نے اہنے فکاہیہ مضمون ’’میں ہوں جلاد مجھے تم جان لو پیارے‘‘ میں ان جیسے ادبی ناقدین کا تعارف بطور ’’ادبی جلاد‘‘ کروایا تھا۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیئے اور اس کی روشنی میں ان کے کردار اور انکی ابن ِصفی جیسے بلند پایہ و ’’جمھوری ادیب‘‘ کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافی کا بھی اندازہ لگائیں:۔

ادبی جلاد:۔
آپ نے "دائرہِ اسلام" کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا، جی آپ درست سمجھے بالکل وہی والا کہ جہاں آپ نے کچھ "ایسی ویسی" حرکت کی وہاں آپ ہوئے "دائرہِ اسلام" سے خارج! اسی طرح جلادوں کا زیر نظر یہ طبقہ جو کہ بہ زعم خود ادب کا ٹھیکیدار، تھانیدار اور چوکیدار (اب یہ آپ کی منشاء ہے کہ جو بھی چاہیں خطاب ان کیلیئے منتخب کرلیں کیونکہ جلاب، ارے توبہ استغفار یہ ہم کیا کہہ گئے، دراصل ہم کہنا چاہ رہے تھے کہ گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریے، گلاب گلاب ہی رہتا ہے، مگر یاد رہے کہ اس گلاب میں رنگ و بو کم اور کانٹے زیادہ ہیں)، بن کر اپنے ہی میں کبھی کسی کو شامل کرتا ہے تو کبھی کسی کو مکمل فارغ خطی لکھ کر خارج کردیتا ہے۔ ویسے یہ بات تو طے ہے کہ سب قارئین قیامت کی نظر رکھتے ہیں ( نا نا، بخدا آپ ہمیں غلط سمجھ رہے ہیں، ہم آپ سب کو "تاڑنے والے" کہنے اور سمجھنے کا گناہ ِعظیم بھلا کیسے کرسکتے ہیں اور اگر آپ میں سے چند ایک ایسے ہوں بھی تو یہ آپ کا اپنا ذاتی فعل و کردار ہے، اب ہم کون ہوتے ہیں بھلا کچھ کہنے اور اعتراض کرنے والے) فوراَ سمجھ گئے کہ ہمارا اشارہ ادب کے ناقدین ہی کی جانب ہے جو کہ بڑی حد تک ادب کے حق میں بلا شرکتِ غیرے جلاد ثابت ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ "ساون میں اندھے کو ہری ہری سوجھتی ہے" لیکن ہمارے ادب کے ان پیدائشی اندھوں کو محض "کھری کھری" سوجھتی ہے، اب یہ اور بات ہے کہ عقل کے ان اندھوں اور گانٹھ کے پوروں کو اپنی جو تنقید "کھری کھری" دیکھائی دیتی ہے وہ لکھنے اور خود ان کے پڑھنے والوں کو "جلی کٹی" سنائی دیتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب موصوف سالہاسال میدان ِادب میں کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام نہ دے سکے تو اغیار کی نگارشات پر ہلہ بول کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں اور خود تو سرزمین ِادب میں محض تنقید نگاری کے نرم و سہل سبزہ زار پر اٹکھلیوں اور خراماں خراماں چہل قدمیوں کے باوجود بھی خود کو تو "اپنے منّہ میاں مٹھو" نہایت ہی قد آور ادبی شخصیت قرار دیں (اب یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ وہ ادبی شخصیت ہیں کہ محض ایک دبی ہوِئی شخصیت) لیکن اسکے برعکس اپنے قلب و روح کو شب و روز تخلیقی کرب کے پل ِصراط سے گزارنے والے نجانے کتنے ادبی "منصوروں" کو انکے مستانہ نعرہ ِ"انالحق" کے ناقابل ِ معافی جرم پر خود وہ اور انکے ہم پیالہ و ہم نوالہ تنقیدوں کے سنگ برسا برسا کر اپنے ہی خود ساختہ "ادبی دائرے" سے ہمیشہ ہمیشہ کیلیے جلاوطن کردیتے ہیں اور پھر تمام عمر اپنی ایڑی چوٹی (ایڑی اپنی اور چوٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب یہ نہ پوچھیے گا کہ چوٹی کس کی، کیونکہ عقلمندوں کیلئیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے) کا زور لگا کر انہیں اس"ادبی دائرے" سے خارج ہی رکھے جانے میں کوشاں رہتے ہیں اور ان کی گردنوں نہ جانے کتنے ادبی "منصوروں" کا خون ِناحق ہے۔
فکاہیہ مضمون ’’میں ہوں جلاد مجھے تم جان لو پیارے‘‘ سے اقتباس، تحریر: امین صدرالدین بھایانی)۔‘‘)

ان ادبی ناقدین جو کہ اب بھی ابن ِصفی کے عظیم ادبی قد و کاٹھ سے انکاری ہیں کے لیئے سائیکو منشن جیسی بلند پایہ تحقیقاتی کتاب کے اجراء کے بعد ایک زریں موقعہ ہے کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں اسکا عمیق مطالعہ کر کے یہ جاننے کی حتیٰ المکان کوشش کریں کہ ابن ِصفی کس بلند پایہ ادب کے تخلیق کار تھے، باالفاظ ِخرم علی شفیق: ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دانشور برصغیر کی آزادی اور ابن ِصفی کی مقبولیت کے درمیان اس واضح تعلق کو محسوس کرنے سے قاصر رہے جسے پوری قوم کے اجتماعی شعور نے اتنی شدت کے ساتھ محسوس کرلیا تھا؟‘‘۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 7)

مولف جناب خرم علی شفیق نے اپنی کتاب سائیکو منشن کے دیباچے میں بطور مصنف ابن ِصفی کی امتیازی خصوصیات پر بحث کرتے ہوئے مندرجہ ذیل پانچ نکات کا تذکرہ کیا ہے کہ جس کی بناء پر وہ انہیں ایک ’’جمھوری مصنف‘‘ اور انکے تخلیق کردہ ارب کو ’’جمھوری ادب‘‘ قرار دیتے ہیں۔

نمبر 1: ابن ِصفی ہی وہ سب سے بلند آواز تھی جو قانون اور اخلاقی اقدار کے دفاع میں بلند ہوئی، وہ محض چٹخارے دار کہانیاں نہیں لکھ رہے تھے۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 8)

نمبر 2: علمی حوالوں کی جس قدر بہتات ان کے یہاں پائی جاتی ہے، اور ان حوالوں کے درمیان جتنا تنوع ہے، وہ نہ صرف کسی دوسرے جاسوسی ناول نگار کو نصیب نہیں ہوا بلکہ اردو میں 1936 کے بعد ابھرنے والے کسی بھی ادیب کے حصے میں نہیں آیا۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 8/9)

نمبر 3: اس زمانے کے معاشرے کے جتنے متنوع کردار اور آّئیڈیلز ابن ِصفی کے یہاں موجود ہیں وہ اردو کے کسی اور ناول نگار یا افسانہ نویس کے یہاں نہیں ملتے۔ عموماً ’ادب ِعالیہ‘ والے ادیبوں نے اپنا دائرہ صرف نچلے طبقے کے افراد یا ذہنی طور پر بیمار قسم کے کرداروں تک ہی محدود رکھا ہے۔ صرف ابن ِصفی ہی کے یہاں ہمیں احمد کمال فریدی اور علی عمران جیسے کرداروں میں قوم کے عظیم رہنماؤں کے شخصی اوصاف کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور دوسری طرف معاشرے کے عام کرداروں کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں نمونے بھی یہاں موجود ہیں۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 9)

نمبر 4: اگر اقبال کی شاعری کو الہامی شاعری کہا جاتا ہے تو ابن ِصفی کی نثر کو الہامی نثر کہا جاسکتا ہے۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 10)

مولف نے اس بات کو مذکورہ کتاب میں پیش کردہ منتخب اقتباسات کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

نمبر 5: انہوں نے مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل کی صرف نشاندہی نہیں کی بلکہ ان کے حل بھی پیش کیے۔ یہ امتیاز علامہ اقبال کے بعد کسی دوسرے ادیب کو حاصل نہیں ہوا تھا۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 10)

(مولف نے اس بات کے ثبوت کے طور پر عمران سیریز کے ناول ’’تین سنکی‘‘ جسمیں موجودہ دور میں قبائلی علاقہ جات سے مماثل واقعات اور جاسوسی دنیا کے ناول ’’انوکھے رقاص‘‘ جو کے گلوبل وارمنگ سے متعلق ہیں کی مثالیں پیش کی ہے)۔

جبکہ اب اس بات کا ایک اور بھرپور مظاہرہ ناول ’’آدھا تیر آدھا بیڑ ‘‘سے بھی ہو چکا ہے جو کے ریمنڈ ڈیوس والے واقعے سے مماثلت رکھتا ہے۔

مذکورہ بالا انہی خصوصیات کے پیش ِنظر مولف جناب خرم علی شفیق کا یہ استدلال یقیناً بالکل مناسب، بجا اور درست معلوم ہوتا ہے کہ: کسی دوسرے جاسوسی ناول نگار کے ساتھ ان کا موازنہ ممکن ہی نہیں۔ غالباً یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ادب میں ان کے مقام کا تعین نہیں کیا جاسکا کیونکہ 1936 بعد سے ہماری ادبی تنقید کا صرف ایک ہی رخ رہا ہے اور وہ ہے مغرب کے کسی نہ کسی تنقیدی پیمانے کے مطابق اپنے ادب کا تجزیہ کرنا۔ چونکہ ابن ِصفی کی مثال نہ مغرب کے جدید ادب میں ہے نہ ہمارے روایتی ادب میں بلکہ وہ برصغیر کی ملت ِاسلامیہ کے نئے عزائم کی نمائندگی کرتے ہیں، لٰہذا انہیں ادبی تنقید کے کسی مروجہ پیمانے کی روشنی میں جانچنے کی بجائے اسے ملت کے مشترکہ آئیڈیلز کی روشنی میں جانچنا ہوگا۔ اِس کام کے لئیے وہ اخلاقی جرات درکار جسکی امید ہمارے نقادوں اور دانشوروں سے ذرا کم ہی ہے۔ وہ جاسوسی ناول نگار سے بہت زیادہ کچھ اور بھی تھے۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 11)

زیر ِتزکرہ کتاب میں شامل ابن ِصفی کے فرزند ِارجمند ڈاکٹر احمد صفی اپنے ہی تحریر کردہ ایک مضموں ’’ابن ِصفی کے بارے میں‘‘ وہ اپنے والد ِ گرامی کے ایک سوانحی مضمون ’’میں نے لکھنا کیسے شروع کیا‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ: ۔’’ابن ِصفی پر ادب عالیہ کے ہمعصروں نے اکثر مقبولیت کا الزام لگا کر عموماً ان کو وہ ادبی مقام دینے سے انکار کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ مغرب سے درآمد شدہ افکار کے تحت ہمارے نقاد حضرات بھی عام طور پر اس بات پر متفق پائے جاتے ہیں کی دلچسپ اور مقبول عام شہکار عموماً ادب میں کوئی مقام نہیں رکھتے۔ ابن صفی اس طرح کی تنقید کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں:-
۔’’افسانوی ادب خواہ کسی پائے کا ہو محض ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی معیار کی تفریح فراہم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے جس طرح فٹبال کا کھلاڑی شطرنج سے نہیں بہل سکتا۔ اسی طرح سے ہماری سوسائٹی کے ایک بہت بڑے حصے کے لیے اعلیٰ ترین افسانوی ادب قطعی بے معنی ہے تو پھر میں گنے چنے ڈرائنگ روموں کے لیے کیوں لکھوں؟ میں اس انداز میں کیوں نہ لکھوں جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے شاید اسی بہانے عوام تک کچھ اونچی باتیں بھی پہنچ جائیں‘‘۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 16/17)

کل 250 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مولف نے اسے دو حصوں ’’جمھور نامہ‘‘ اور ’’مزاح نامہ‘‘ میں تقسیم کر کے ابن ِصفی کے چالیس ناولوں میں شامل ایسے اقتباسات پیش کیئے ہیں جو کہ شامل تو ابن ِصفی کے جاسوسی ناولوں ہی میں تھے لیکن انکا جاسوسی و سراغرسانی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ اپنے پڑھنے والوں کو ایک مکمل افسانے کا سا مزہ فراہم کرتے ہیں بقول مدون کے: ۔’’ایسے افسانے جو حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ امید کا پیغام بھی دیتے ہیں اور معاشرے کی برائیوں کا بہت گہری نظر کے ساتھ تجزیہ کرنے کے باوجود دل میں مایوسی کی نہیں عزم اور آرزو کو پروان چڑھاتے ہیں۔ کوئی بھی نقاد اِس مجموعے کو جاسوسی ادب ثابت نہیں کرسکتا بلکہ اِسے سماجی تبصروں اور فکاہیہ ادب کے زمرے ہی میں رکھنا پڑے گا‘‘۔
(بحوالہ: سائیکو منیشن، مولف و مرتب: خرم علی شفیق، صفحہ نمبر: 12)

مذکورہ کتاب کے پس ِورق پر ابن ِصفی، مولف و مرتب خرم علی شفیق اور سائیکو منشن کا انتہائی اختصار کے ساتھ تعارف پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق:’’ سائیکو منشن میں خرم علی شفیق ابن ِصفی کی ناولوں اسے ایسے اقتباسات پیش کرتے ہیں جو ان کے ایک ’’جہموری ادیب‘‘ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ’’جہموری ادب‘‘ کی اصطلاح ا’ردو ادب میں ان کی متعارف کردہ ہے۔ وہ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر اور علامہ اقبال کے ساتھ ساتھ ابن ِصفی کو بھی جہموری ادیبوں میں شمار کرتے ہیں‘‘۔

گزستہ دنوں ابن ِصفی مرحوم کے فرزند ِارجمند ڈاکٹر احمد صفی صاحب سے ہماری اسی ’’جمہوری ادب‘‘ ہی کے حوالے سے بذریعہ برقی ڈاک کچھ گفت و شنید ہوئی اور انہوں نے اس اصطلاح کی بڑی ہی جامع تشریح انتہائی عمدگی کے ساتھ پیش کی جو کہ تمام قارئیں کی دلچسپی معلومات کے لئیے پیش ِخدمت ہے:

دو طرح سے جمہوری ادب کو دیکھئے:۔

جمہوری ادب وہ ادب ہے جس کو معاشرے کے تمام طبقات میں یکساں طور سے پڑھا اور پسند کیا جائے۔۔۔ اس میں عوام بھی شامل ہو گئے اور خواص بھی۔۔۔۔

جمہوری ادب عوام و خواص میں اس واسطے مقبول ہوتا ہے کہ اس میں وہ رویئے لہریں لے رہے ہوتے ہیں جن کا منبع یا سورس جمہور یعنی کسی قوم کے افراد ہیں۔۔۔ ان قارئین کی آراء سے وہ اندازہ لگاتا ہے کہ قوم کا ذہن کیا سوچتا ہے۔۔۔ پھر وہ ان کو موزوں خیالات ان کے پسندیدہ انداز میں ان تک پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔

اب ابن صفی کو لیجئے (بھائی ایک مرتبہ پھر میں یہ تبصرہ ایک قاری کی حیثیت میں کر رہا ہوں اسے پدرم سلطان بود کا نعرہ نہ سمجھا جائے)۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کی تخلیقات بغیر کسی تفریق کے معاشرے کے ہر طبقہ میں یکساں مقبول تھیں۔۔۔۔ جنہیں ہم عوام کہتے ہیں یعنی سڑکوں پر مزدوری کرنے والے، کسان، محنت کش، طلباء و طالبات، پیشہ ور حضرات، اساتذہ، سائنسدان، وغیرہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ ادب کے بڑے نام اور ان کے علاوہ بہت سے۔ پھر حکومتی عمال جن میں سیاستدانوں سے لیکر فوجی جرنیلوں اور حکمرانوں کے نام آ جاتے ہیں۔ تو یہ پہلی شرط تو ابن صفی پوری کرتے نظر آتے ہیں۔

دوسری بڑی شرط ایسے ادیب کا اپنی قوم سے تعلق ہے جس سے وہ اپنی تخلقات کا ڈھانچہ کھڑا کرتا ہے۔۔۔ ان کی زندگی میں ہم نے دیکھا کہ وہ کسی قاری کا خط بغیر جواب دیئے نہیں جانے دیتے تھے۔۔۔ اور کس قیامت کے نامے ان کے پاس آتے تھے۔۔۔ لوگ اپنی بات ان تک پہنچانے میں بالکل تلکف نہیں کرتے تھے۔۔۔ ابھی ایک لیکچر میں میں نے دو نمائندہ خطوط حاضرین سے شئیر کیئے تھے جن میں سے ایک اردو کے بڑے شاعر اور ادیب حضرت بہزاد لکھنوی صاحب کا تھا (آپ کو غزل ، اے جذبہ دل گر میں چاہوں، تو یاد ہی ہو گی!)۔ انہوں نے کتابوں کی اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ دوسرا خط ٹرک ڈرائیور اشتیاق کا تھا جس نے اپنی ہی زبان میں بے تکلفی سے خط لکھوایا تھا۔ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا مگر ابن صفی کی کتابیں جمع کرتا تھا اور پڑھوا کر سنتا تھا۔۔۔ اس نے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔۔۔ ابن صفی صاحب نے نادیدہ ہمدرد کے پیشرس میں اس کا جواب بھی دیا۔۔۔ یہ اور ایسے ہزاروں خطوط اور ملاقاتی ان کو قوم سے جوڑے رکھتے تھے اور ان سے وہ اپنا ادب اخذ کرتے تھے۔۔۔

اس ادب کی ایک خاص بات ہے۔۔۔ وہ یہ کہ اس کو اگر اپنی امت پر قیاس کریں تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ میری امت کبھی کسی غلط بات پر مجتمع نہیں ہوگی۔۔۔ لہٰذا اگر اجتماعی طور پر قوم کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ اس کلیئے سے غلط نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح امت کے اجتماعی شعور سے جو کچھ بھی اخذ کیا جائے گا وہ بھی اس کے لئے مفید اور بہتر ہی ہو گا۔

اگر وہ خالی عوامی ادیب ہوتے تو نقاد ان کو چٹکی سے نکال کر ایک طرف پھینک چکا ہوتا۔۔۔ ان کا ادب تو سب کے لئے اور سب سے تھا۔۔۔ لہٰذا ن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اب کوئی بھی ادیب اٹھا لیجئے اور اسے اسی پیمانے پر پرکھئے۔ کیا اس کا ادب پڑھنے والے ہر طبقہ میں تھے۔۔؟؟؟ کیا وہ ہر طبقے سے کسی طور جڑا ہوا تھا یا صرف ڈرائنگ روم میں یا اپنی اسٹڈی میں بیٹھ کر ادب تخلیق کر رہا ھے جسے معدودے چند لوگ سمجھیں اور اس پر واہ واہ کریں۔۔۔ وہ بڑا ادیب تو ہو گا مگر جمہوری ادیب نہیں۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ آپ اس طرح ناپنے بیٹھے تو بہت سے ادیب اس معیار پر پورے نہ اتریں گے۔ اور یہی حقیقت ہے۔

جمہوری ادب اور جمہوری ادیب کی اور بہت سی پرتیں ہیں جو اب کھل رہی ہیں اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ میں بھی ایسے ہی ادیب تھے جنہوں نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔۔۔۔

بطور ایک قاری اور ابن ِصفی کے مداح کے اس کتاب (سائیکو منشن) کی جو باتیں ہمیں سب سے ذیادہ اچھی لگی وہ اس میں پیش کردہ تمام تر اقتباسات کا مکمل تعارف اور ساتھ ہی ساتھ اسکے تماتر متعلقہ حوالہ جات اور پس ِمنظر کی ممکنہ وضاحتوں کی موجودگی ہے۔

علاوہ ازیں مولف نے خط ِ نسخ کے استعمال سے ابن ِصفی کے اصل اقتباسات جو کے خط ِنستعلق میں دیئے گئے ہیں میں تفاوت پیدا کرنے کی کوشش کر کے اپنے قاری کو کسی بھی ممکنہ مخمصے کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رکھا ہے۔

مولف نے جہاں نہ صرف پیش کردہ تمام تر اقتباسات کا مکمل تعارف اور ساتھ ہی ساتھ اسکے تماتر حوالہ جات اور پش ِمنظر کی ممکنہ وضاحتیں پیش کیں ہیں، وہیں ان اقتباسات کے حوالے سے متعدد سوالات اور خیالات کو ابھار کر قارئین کو ان پر غور و خوص کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ باالفاظ ِدیگر انہیں ان اقتباسات اور ان کو بیان کرنے کے پیچھے کارفرما محرکات پر غور کرنے کے لیے (فوڈ فار ٹھاٹ) کا بھرپور اہتمام بھی کیا گیا ہے جو اس بات کا مکمل غماز ہے کہ دراصل ابن ِصفی کا مشن عوام اور خواص میں یکساں طور پر آگہی کی فراہمی اور انکی ذہنی نشونما و شعوری اتقا کے عمل میں مد و معاون ثابت ہونا تھا اور جس میں وہ پوری طرح سے کامیاب و کامران رہے تھے۔

بحرطور مولف جناب خرم علی شفیق کے ذہن میں اس کتاب کی تکمیل کے ضمن میں جو عظیم مقصد تھا کہ پڑھنے والوں کو اس دانشور جمھوری ادیب سے متعارف کروایا جائے جس پر ناقدین ِادب نے محض ایک جاسوسی ادیب کا ٹھپہ ثبت کر کے انہیں ازخود متعین شدہ ادبی دائرے سے خارج کرنے کی جو ناکام کوشش کی ہے اسکا اصل پردہ چاک ہو سکے اور مولف اپنی اس کوشش میں نہ صرف سو فیصدی کامیاب رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے قارئین کو یہ بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ادب محض ہرائے ادب سے آگے کچھ اور بھی ہے اور اسکا کام اپنے پڑھنے والے تمام مکتبہ ھائے فکر کی ذہنی نشونما و بالیدگی اور تعمیر کردار و اصلاح ِشخصیت میں مثبت کردار کی ادائیگی ہے۔ بلاشبہ یہ عظیم وصف جناب ابن ِصفی کے یہاں بدرجہ ِاتم پایا جاتا ہے۔

آخر میں ہم اس اعلیٰ نوعیت کی تحقیقی کتاب کی اشاعت پر ہم اپنے دل کی گہرائیوں سے کتاب کے مولف و مرتب جناب خرم علی شفیق، ڈاکٹر احمد صفی، کتاب کے سرورق بنانے والے آرٹسٹ جناب عطاءالرحٰمن (برننگ ڈیزائیر) کو اسقدر عمدہ کارکردگی پر انہیں اور اس کتاب کے ناشر فضلی سنز کے طارق رحٰمن فضلی اور ساجد رحٰمن فضلی صاحبان اور تمام مداحین ِ ابن ِصفی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 51075 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.