اجتماعی سزاﺅں کی شروعات

میرے نزدیک اجتماعی غلطیوں پر قدرت کا قانون متحرک ہو چکاہے اور اجتماعی سزاﺅں کی شروعات بھی ہو چکی ہے اب ہم سڑکوں پر آئیں یا گھر بیٹھے رہیں اپنے رویوں اور کردار کی شیرینی تو چکھنی پڑے گی ۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، ناحق خون بہانے والوں کی ضمانتیں اور سرعام پکڑے جانے والے چوروں کا ساتھ دینا ہماری اخلاقیات کا جنازہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہمارے ہی گھروں میں ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکوﺅں کے حق میں دھرنے ، لانگ مارچ، احتجاج اور پھر ان ڈاکوﺅں کو اپنے قافلے کا سربراہ بنانے کی ضد ہماری سیاسیات کی ”ارتھی “نہیں تو اور کیا ہے ؟بوند بوند صاف پانی کو ترستی قوم ، مذبحہ خانوں سے بھی بد تر ہسپتال اور طبقاتی تقسیم پر مشتمل تعلیمی ڈھانچہ ہماری اجتماعی قبر نہیں تو اور کیا ہے ؟

نہ جانے بدبو دار سیاست اور ملاوٹ شدہ معیشت کی اذیتوں کو کب تک بھگتنا ہو گا ،کب تک عوام سرمایہ دارانہ نظام کی بلی چڑھتی رہے گی،بجٹ خسارے کا آسیب کب پیچھا چھوڑے گا ، کب ترقی اور خوشحالی کے اہداف حاصل ہوں گے ،اہل کو جہل پرکب فوقیت ملے گی ،امیر طبقہ کی جدوجہد آزادی تو 47ءمیں ختم ہوگئی لیکن پسماندہ طبقہ کی جدوجہد کب آزادی کے ثمرات چکھے گی ، غریب کے کندھے تو سیاسی کرداروں یا بدکرداروں کے لیے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہیں، بظاہر تو تبدیلی کے رنگین خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن پس پردہ یہ کندھے طاقت کے ایوانوں تک پہنچنے کی سیڑھی ہیں، یہ سلسلہ کب ختم ہو گا ؟ختم بھی ہو گا یا نہیں؟ایک مسیحا کے جانے کے بعد دوسرے کے انتظار میں70برس بیت گئے، ایک نسل ختم ہو چکی ، ایک ختم ہونے کو ہے ، تیسری نسل اسی تبدیلی کی آس لگائے بیٹھی ہے ؟ سیاست سے دور رہیں تو ارتقاءکا عمل رک جاتا ہے سیاست کے نزدیک جائیں تو پاک دامنی ہاتھ سے جاتی ہے ، جائیں تو کہاں جائیں ، کس کا در کھٹکھٹائیں، کسے آواز دیں؟کوئی چے گویرا کے انتظار میں ہے تو کوئی جوزف اسٹالن کا دیوانہ ہے ، کوئی محمد بن قاسم کی یاد سے چمٹا ہوا ہے تو کوئی قائد اعظم ؒ ثانی کی راہ دیکھ رہا ہے ، کوئی بھٹو کی قبرپر گوشہ نشیں ہے تو کوئی ضیاءالحق جیسے حکمران کو نجات دہندہ سمجھے بیٹھا ہے ،ایک نے ”روٹی ،کپڑا اور مکان“ کی نوید سنائی تو دوسرا ”اسلامی انقلاب “کے نام پر گیارہ سال مسلط رہا ، کسی نے” سب سے پہلے پاکستان “کا نعرہ لگا کر قوم کو درگور کر ڈالاتوکسی نے ”پاکستان کھپے “ کے نام پر خوب لوٹ مار مچائی ،کسی نے ”روشن پاکستا ن “کے نام پر اپنی دکانداری چمکائی تو کوئی ”نئے پاکستان “کے نعرے کے سہارے مقتدر ایوانوں تک پہنچ گیا ،اور اب ریاست مدینہ کا خواب دکھا کر عوام کو ایک نئی ٹرین میں بٹھا دیا گیا ہے اورنتائج سے لاعلم عوام اپنی نئی منزل پر آنکھیں جمائے تکالیف و مصائب کے پہاڑوں کی تاریک غاروں میںسے گزر رہی ہے اور یہ غار ہے کہ ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ،یہ تاریکیاں کب ختم ہوں گی ،روشنیاں کب نمودار ہونگی ؟ عوام نے تو اپنے ہر نمائندے کی آواز پر لبیک کہا یہاں تک کہ اپنے اوپر مسلط ہونے والے ہر آمر کو بھی آنکھوں پر بٹھایا، کسی کو مرد مومن اور مرد حق تو کسی کو صلاح الدین ایوبی سے مشابہت دیدی لیکن حالات نہ بدلے ،پھر خرابی کہاں ہے ؟اکثریت موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری حکمرانوں پر عائد کرتی ہے پھر اسی اکثریت میں بیشتر آمریت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ، چند ایسے بھی سر پھرے ہیں جو ان حالات کا ذمہ دار غیر ملکی طاقتوں کو ٹھہراتے ہیں لیکن کتنے ہی ایسے ہیں جو خود کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ، کتنے ایسے ہیں جو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا پسندکرتے ہیں، یہ حکمران ہمارے ہی ووٹوں کی بدولت ہیں ،آمریت کو ہماری ہی بزدلی تقویت دیتی ہے ،ہم خود انہیں اپنے سر کا تاج بناتے ہیں پھر خود انہیں اتارنے کے لیے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں پھر صرف حکمران ہی موجودہ صورتحال کا موجب کیسے ہو سکتے ہیں؟ میری نظر میں موجودہ حالات کے ذمہ دار اکیلے حکمران نہیں ہو سکتے ، ہم سب اس تباہی میں حصہ دار ہیں۔آج کا نوجوان صرف حکومتی موافقت اور مخالفت میں بٹ چکا ہے اور اختلاف رائے کی اہمیت سے قطعاً نابلد ہے ۔اختلاف رائے ارتقائی عمل کا اہم حصہ ہے جو قوموں پر طاری جمود کو توڑتا اور ترقی کی نئی منازل کی نشاندہی کرتا ہے لیکن بدقسمی سے ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے دشمنی کی صورت اختیار کر چکا ہے جبکہ سچ کی جستجو دم توڑتی نظر آتی ہے، تراشے گئے سچ اور گھڑے ہوئے جھوٹ کے درمیان حقیقت خرافات میں کھو چکی ہے ۔یہاں سچ کون سننا چاہتا ہے ،ہر کوئی اپنی پسند کی خبر اور تجزیے کو ترجیح دیتا ہے ،ہر جماعت کا اپنا پسندیدہ صحافی ، اخبار اور چینل ہے ۔

میرے نزدیک جب حالات اس نہج تک پہنچ جائیں کہ علیحدگی پسند تحاریک سر اٹھانے لگیں،ریاست کے شہری حکمرانوں سے حقوق کی بجائے حق حکمرانی مانگنے لگیں ،مفاہمت کی بجائے مسلح مزاحمت کو ترجیح دی جانے لگے تو پھر سانحہ سقوط ڈھاکہ جیسے کسی سانحے کا انتظار کیا جائے ۔ ان حالات میں سارا ملبہ حکمرانوں پر عائد کر کے قوم کس طوربری الذمہ ہو سکتی ہے ۔زندہ قومیں ایشوز پر بات کرتی ہیں، مسائل پر آواز اٹھاتی ہیں، ذاتی مفادا ت کی بجائے مشترکہ قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ ، فرقے ، مسلک یا کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو ۔جب ان کے قائد مجوزہ راستے سے ہٹ جائیں تو انہیں طے کردہ راستے پر لانے کے لیے نہ صرف آواز اٹھاتی ہیں بلکہ عملی میدان میں اپنا سیاسی کردار ادا کرتی ہیں ، زندہ قومیں اپنے قائدین کی اندھی تقلید کرنے کی بجائے فقط زبانی نظریات پر اکتفانہیں کرتی بلکہ عملی اقدامات پر نظر رکھتی ہیں ۔بقول معروف دانشور حسن نثار”ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہم میں عمر بن خطابؓ نہیں ہیں بلکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم میں ایسے بدتمیز بدو بھی ختم ہو چکے ہیں جو سرعام امیر المومنین سے ان کے لباس بارے پوچھ سکیں کہ یہ کپڑا کہاں سے آیا ؟ بیرون ممالک جائیدادیں تو دور کی بات۔۔“

آج ہم اپنے اردگرد ماحول کا جائزہ لے لیں ، سڑکوں ، گلیوں ، نالیوں میں پھینکا گیا کچر ا ہمارے بیمار مزاج کی عکاسی کرتاہے ۔جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دہی ، رشوت ، ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ ، بددیانتی اور منافقت ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے ۔خود کو برائیوں کے بحر میں ڈبو کر اگر یہ سمجھیں کہ کوئی باہر سے آکر ہماری ڈوبتی ناﺅ کو سہارا دے گا تو یہ خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے ؟عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، ناحق خون بہانے والوں کی ضمانتیں اور سرعام پکڑے جانے والے چوروں کا ساتھ دینا ہماری اخلاقیات کا جنازہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہمارے ہی گھروں میں ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکوﺅں کے حق میں دھرنے ، لانگ مارچ، احتجاج اور پھر ان ڈاکوﺅں کو اپنے قافلے کا سربراہ بنانے کی ضد ہماری سیاسیات کی ”ارتھی “نہیں تو اور کیا ہے ؟بوند بوند صاف پانی کو ترستی قوم ، مذبحہ خانوں سے بھی بد تر ہسپتال اور طبقاتی تقسیم پر مشتمل تعلیمی ڈھانچہ ہماری اجتماعی قبر نہیں تو اور کیا ہے ؟ایسے بیمار رویوں کے بعد ہمارا سیاسی ، سماجی و معاشی نظام ایسا نہ ہوتا تو اور کیسا ہوتا ؟خطا اسے کہتے ہیں جو ایک مرتبہ ہو لیکن اگر یہ عمل بار بار دہرایا جائے تو اسے غلطی کہا جا تا ہے جس پر سزا لازم ہو جاتی ہے ۔ایک محاورہ ہے کہ ”لمحوں نے خطا کی ، صدیوں نے سزا پائی “ لیکن ہماری تو خطائیں بھی صدیوں پر محیط ہیں تو ہماری سزائیں کتنی لمبی ہوسکتی ہیں ۔بیمار معیشت کی صورت میںابھی تو اجتماعی سزاﺅں کی پہلی قسط جاری ہے ،دوسری قسط آئندہ بجٹ میں سنائی جانے والی ہے ۔اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ماضی میں ہم نے کتنی غلطیاں کی اور آئندہ مستقبل میں پھر سے کرنے جا رہے ہیں۔دس ماہ کی حکومت سے دس سالوں کا حساب لینے سڑکوں پر آرہے ہیں۔میرے نزدیک اجتماعی غلطیوں پر قدرت کا قانون متحرک ہو چکاہے اور اجتماعی سزاﺅں کی شروعات بھی ہو چکی ہے اب ہم سڑکوں پر آئیں یا گھر بیٹھے رہیں اپنے رویوں اور کردار کی شیرینی تو چکھنی پڑے گی ۔

Sheraz Khokhar
About the Author: Sheraz Khokhar Read More Articles by Sheraz Khokhar: 23 Articles with 14504 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.