ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے امپائر

کرکٹ کے پہلے تین عالمی کپ مقابلے انگلینڈ میں منعقد ہوئے تھے اور ان تینوں میں امپائرنگ کے فرائض انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے امپائرز نے سرانجام دیے تھے۔

سنہ 1987 میں عالمی کپ کی میزبانی پاکستان اور بھارت کو ملی تو امپائرنگ میں انگلینڈ کی اجارہ داری کا بھی خاتمہ ہوگیا اور دیگر ممالک کے امپائرز کو پہلی بار عالمی کپ میں امپائرنگ کا موقع ملا۔
 

image


اس عالمی کپ کے لیے تشکیل دیے گئے امپائرز پینل میں پاکستان کے محبوب شاہ، خضر حیات اور امان اللہ خان شامل تھے۔

محبوب شاہ کے پاس یہ منفرد اعزاز ہے کہ وہ عالمی کپ میں امپائرنگ کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ انھوں نے نیوزی لینڈ اور زمبابوے کے درمیان حیدرآباد دکن میں کھیلے گئے میچ میں سری لنکا کے ودانا گاماگے کے ساتھ امپائرنگ کے فرائض سرانجام دیے تھے۔

محبوب شاہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ انھیں بھارت کے رام بابو گپتا کے ساتھ فائنل میں امپائرنگ کے لیے منتخب کیا گیا اس طرح وہ ورلڈ کپ فائنل میں فرائض سرانجام دینے والے پہلے پاکستانی امپائر بھی ہیں۔

محبوب شاہ کے ذہن میں کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے فائنل کی یادیں آج بھی اسی طرح تازہ ہیں جیسے یہ کل کی بات ہو لیکن جس طرح انھیں فائنل میں امپائر بنائے جانے کا پتہ چلا وہ ان کے لیے زیادہ حیران کن تھا۔

’ابتدائی میچوں کے بعد ہماری ذمہ داریاں ختم ہوگئیں تھی اور تمام مہمان امپائرز کو فائنل دکھانے کے لیے کولکتہ لے جایا گیا تھا۔ ایک دن میرے ساتھی امپائر امان اللہ نے فون کرکے مجھے جگا دیا اور کہا کہ اخبار میں خبر چھپی ہے کہ آپ فائنل میں امپائرنگ کریں گے۔‘

’ظاہر ہے یہ خبر میرے لیے حیران کن تھی اور میں نے اس وقت تک یقین نہیں کرلیا جب تک خود اخبار میں وہ خبر نہ دیکھ لی۔ بعد میں امان اللہ نے مجھے کہا کہ میں نے آپ کو اس سے قبل بھی فون کرکے یہ اطلاع دی تھی لیکن اسوقت آپ پر نیند حاوی تھی اور آپ یہ سن کر پھر سوگئے تھے۔‘
 

image


محبوب شاہ کہتے ہیں کہ جس دور میں انھوں نے امپائرنگ شروع کی وہ بہت مشکل دور تھا۔

انھوں نے بتایا ’ہمارے زمانے میں امپائرز کو تیسرے درجے کا شخص سمجھا جاتا تھا۔ میں نے اس فیلڈ میں آکر اسے معتبری دلانے کی کوشش کی۔ میں جونیئر تھا لیکن اس محاذ پر اکیلا لڑتا تھا۔‘

یہاں تک کہ ورلڈ کپ سے قبل ایک میٹنگ میں انھوں نے یہ کہہ دیا کہ جب تک آپ امپائر کا امیج بلند نہیں کریں گے کوئی بھی ان کا فیصلہ قبول نہیں کرے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا ’امپائرز کی اہمیت اس وقت تسلیم کی گئی جب آئی سی سی نے پہلی بار ہر ملک سے امپائرز منتخب کرکے ان کا پینل تشکیل دیا۔‘

محبوب شاہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں بڑے کھلاڑیوں کی جانب سے بھی امپائرز پر دباؤ ہوتا تھا۔
 

image


’میں نے دو بڑے کھلاڑیوں کی شکایت کی۔ ان میں سے ایک کھلاڑی کافی اثرورسوخ والے تھے۔ کرکٹ بورڈ نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی البتہ دوسرے کے خلاف ایکشن لے لیا گیا۔‘

محبوب شاہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک کرکٹر نے ان سے کہا کہ آپ فیصلے دیتے وقت ہمارا خیال رکھا کریں کیونکہ جب ہم باہر جاتے ہیں تو وہ لوگ ہمارا برا حشر کرتے ہیں جس پر انھوں نے جواب دیا ’تو کیا ہم بھی وہی کریں جو وہ لوگ کرتے ہیں۔‘

محبوب شاہ کا کہنا ہے کہ چونکہ امپائرز کی کوئی اہمیت نہیں تھی لہٰذا معاوضوں کا بھی کوئی تصور نہ تھا۔

’ماضی میں ٹیسٹ میچ میں ایک دن کا معاوضہ پچاس روپے ملا کرتا تھا اور اگر بارش کی وجہ سے کسی دن کھیل نہ ہو تو اس دن کے پیسے کاٹ لیے جاتے تھے۔‘

محبوب شاہ اپنے ہم عصر امپائر شجاع الدین کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور علمی قابلیت کے معترف رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ’میں امپائرنگ کے قوانین سے متعلق شجاع الدین صاحب سے رہنمائی لیا کرتا تھا جو اس دور میں کرکٹ کے قوانین پر مکمل عبور رکھتے تھے۔‘

غیر ملکی امپائرز میں محبوب شاہ کو آسٹریلیا کے ڈیرل ہیئر پسند تھے کیونکہ ان کی بھی کرکٹ اور کرکٹ کے قوانین سے متعلق معلومات بہت زیادہ تھیں اور ان کی شخصیت بہت رعب دار تھی۔


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE:

While the first three World Cup tournaments were conducted in England with umpires also picked from the region, former Pakistani cricketer Mahboob Shah became the first person to represent Pakistan on a cricketing field as the umpire in a World Cup.