احتجاج! مگر ہوش کے ساتھ

آج کل ہمارے ملک میں احتجاج اور ہڑتال کا رواج شروع ہو گیا ہے۔ کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ہو، کوئی ایک فرد یا محلے کا مسئلہ ہو تو ہڑتال اور احتجاج شروع کر دیا جاتا ہے۔ پر امن احتجاج کی تو کوئی بری بات نہیں مگر ہمارے ہاں احتجاج کو کچھ شرپسند عناصر تشدد اور توڑ پھوڑ کا رنگ دے دیتے ہیں جس سے نہ صرف سرکاری یعنی قومی املا ک کا بہت نقصان ہوتا ہے بلکہ نجی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ احتجاج ہو مگر اجتماعی اور قومی مفاد کے لئے ہو اور کسی اجتماعی اور قومی مسئلے پر ہو اور سب سے بڑی بات وقت کو مدنظر رکھ کر کیا جائے ایسا نہ ہو کہ مناسب وقت گزر جائے تو احتجاج شروع ہو جائے کیونکہ وقت گزرنے کے بعد کا احتجاج بےفائدہ اور فضول ہوتا ہے۔ میں یہ کالم اس لیے لکھ رہا ہوں کہ لوگوں کو مناسب اور درست وقت پر احتجاج کرنے کی اہمیت معلوم ہو سکے۔

ہمارے علاقے پپلاں جو کہ ضلع میانوالی کی تحصیل ہے کے عدالت اور تحصیل دفاتر پپلاں سے ہرنولی منتقل ہو گئے ہیں جو کہ ناانصافی پر مبنی عمل ہے خاص کر تحصیل کا دفتر یہاں سے جانا۔ یہ کام کئی عرصے سے شروع تھا پہلے تجویز اور مشورہ دیا گیا پھر پپلان کے سیاستدانوں کو راضی کیا گیا اس کے بعد منتقلی کے آرڈر ہوئے پھر ہرنولی پر موجود جنگل کو کٹوایا گیا اور کروڑوں روپے سے شاندار عمارت بنائی گئی اور کچھ دن پہلے ہی عدالت اور تحصیل دونوں دفاتر کا سازو سامان اور عملہ بھی منتقل ہو گیا۔ اب پپلاں کے کچھ افراد خاص کر بازار کے نئے منتخب شدہ صدر اور انتظامیہ نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا کہ یہ ناانصافی ہے اور پپلاں کا حق چھینا جا رہا ہے۔ شروع میں پر امن احتجاج تھا جس میں اشتعال بڑھتا گیا اور ٹرین کو روک لیا گیا۔جس سے سواریوں کو کافی تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سواریوں میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے کسی امتحان کے پیپرز دینے تھے یا انٹرویو دینا تھا وہ منت سماجت بھی کرتے رہے لیکن کسی نے پرواہ نہ کی اور بہت زیادہ دیر کے بعد ٹرین کو جانے دیا مگر جن کا نقصان ہونا تھا وہ تو ہو گیا تھا۔ دوسرے دن پھر احتجاج کیا گیا اور سرکاری املاک خاص کر گیس پائپوں کو نقصان پہنچا یا گیا اور شام کو جو ٹرین پپلاں اسٹیشن ہر آئی اس پر پتھراؤ کیا گیا جس سے اس کے کئی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور کچھ افراد جن میں گاڑی کا ڈرائیور بھی شامل تھا زخمی بھی ہوئے۔ یاد رہے یہ کاروائی کرنے سے احتجاج شروع کرانے والے افراد روکتے رہے لیکن شرپسند لوگ قابو نہ آسکے۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ان دو دنوں میں بازار کی مکمکل ہڑتال رہی اور کوئی دکان نہ کھلی۔ اس سے آپ اس احتجاج سے دکانداروں ، شہریوں اور قومی نقصان کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو اس احتجاج کے دوران ہوا۔

اگر عقل اور سمجھ سے کام لیا جاتا تو یہ احتجاج اس وقت کیا جاتا جب اس کے آرڈر یا کوشش کی جا رہی تھی اس وقت نہ جنگل کاٹا گیا تھا اور نہ کروڑوں روپے خرچ ہوئے تھے اگر اس وقت جب پپلاں کے نام نہاد خیر خواہوں یعنی سیاستدانوں خاص کر خان برادری جنھوں نے اس کا م کی اجازت دی تھی کے خلاف احتجاج ، ہڑتال اور جلوس نکالا جاتا تو اس کام کو روکا جا سکتا تھا پپلاں کو اس کا جائز حق دلایا جا سکتا تھا مگر اس وقت کسی کو ان کے خلاف قدم اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اور اب بھی حکومت کے خلاف بات کر رہیں مگر حقیقی قصور والوں کے خلاف نہیں۔

اس واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں احتجاج ،جلوس اور ہڑتال کے لئے کچھ اصول اپنانے ہوں گے جو کہ درج ذیل ہو سکتے ہیں:
١۔ احتجاج کے بارے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ اجتماعی اور قومی مسئلہ ہو تو احتجاج کریں۔
٢۔ احتجاج مناسب وقت اور مناسب لوگوں کے خلاف کریں
٣۔ احتجاج پر امن ہونا چاہیے اور تشدد اور توڑ پھوڑ سے پرہیز کرنا چاہئے۔
٤۔ سرکاری اور نجی املاک کا بھی خیال رکھنا چاہیےاور ان کو نقصان نہ پہنچانا چاہیے۔
٥۔ عام شہریوں کی پریشانی اور مجبوریوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
٦۔ تشدد پسند عناصر پر نظر رکھنی چاہیے اور اس کے لیے باقائدہ افراد مقرر کرنے چاہیے تاکہ ایسے افراد کو ان کے ارادوں سے باز رکھا جا سکے۔
٧۔ احتجاج اور جلوس وغیرہ کے لیے مناسب اور درست افراد کو سربراہ بنا دیا جائے تاکہ مناسب وقت پر وہ سرکردہ افراد، ادارہ یا حکومت سے مذاکرات کر سکے۔

اگر ہم درج بالا اصولوں کو اپنا لین تو اپنے، محلے، تمام شہریوں اور ملک کے حقوق اور مفادات کا تحفظ بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمیں ملک وقوم کی خاطر تن من اور دھن قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین (للہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو)
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 157139 views I live in Piplan District Miawnali... View More