دور حاضر میں حق شناسی و رہنمائی کیلئے روشنی کی ایک کرن-حصہ اول

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی تمام تر مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب نوازا اور عقل و شعور و فکر عطا کیا تاکہ خیروشر اور حق و باطل میں تمیز کر سکے اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق و مالک کو پہچان سکے کہ اسکو اور تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا اور تمام جہانوں کو بنانے والا رب کریم ایک الله ہے۔ وہی واحدہ لاشریک ہے۔ نور علی نور اور نوراسموات والارض ہے۔ رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی بلکہ رب العالمین ہے۔ وہی لائق ہر سجدہ ہے۔ یعنی سجدہ صرف اور صرف رب تعالیٰ ہی کو ہے اور رب تعالیٰ کے علاوہ کسی بھی خیال سے اور کسی بھی نظریے سے کسی کو بھی سجدہ کرنا شرک ہے اور قرآن کریم میں سب سے بڑا گناہ بلکہ ظلم عظیم شرک ہی کو کہا گیا ہے جو کہ ناقابل معافی ہے ہم مسلمان دوران نماز بھی کعبتہ الله کی طرف منہ کرنے کی نیت ضرور کرتے ہیں مگر کعبتہ الله کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ رب تعالیٰ کو ہی سجدہ کرتے ہیں۔ اسی طرح احتراماً بزرگوں کے ہاتھ یا پاؤں پر بوسہ دینا سجدہ نہیں بلکہ ادب و احترام ہے۔

الله رب العالمین کا ارشاد ہے: “اور ہم تمہاری رگ جان سے بھی زیاوہ قریب ہیں“۔ (القرآن)

مگر انسان چونکہ پیدائشی طور پر انتہائی کمزور اور جاہل (ناواقف اور نا سمجھ ہے ۔ اس لئے رب العالمین نے اسکی راہنمائی کیلیے روز ازل سے ہی انبیاء و رسل علیہم الصلوت والسلام اجمعین اور اولیائے کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کا سلسلہ جاری فرمایا اور ان نفو س قدسیہ کو خاص اپنی جناب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے علم میں سے جتنا اور جس قدر چاہا علم عطا فرمایا (والله اعلم باالصواب) اور یکے بعد دیگرے اپنے اپنے دور یا زمانے میں اپنا نائب (خلیفتہ الله) بنا کر نبوت و رسالت اور ولایت کے عہدے پر فائز کر کے روز آخرت تک کے لیے چن لیا۔ قرآن کریم میں تخلیق حضرت آدم علیہ السلام کے بعد کئی ادوار میں انبیائے کرام اور اولیائے کرام کا ذکر اکٹھے ایک ساتھ ایک ہی دور یا زمانے میں ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ایک صاحب ( جنہیں کتاب کا علم عطا کیا گیا تھا) کا ذکر ہے جو کہ پلک جھپکتے ہی ملکہ سبا کا تخت حاضر کر دیتے ہیں۔ دوسرے موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام (جنہیں الله تعالیٰ نے اپنی رحمت سے علم لدنی ، یعنی قدرتی علم عطا فرمایا تھا) کا اکٹھے سفر کرنا، ظاہر ہے یہ ایک ہی زمانے میں ہوا۔۔ اور بعض اوقات ایک نبی پاک کے وصال سے دوسرے نبی پاک کی بعثت کے درمیانی وقفہ میں لوگوں کی رشد و ہدایت پر فائز ہونا یعنی حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کا ایک سرکش قوم پر نگران اور ہادی مقر ہونا اور اصحاب کہف کے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔

سلسلہ نبوت ہمارے نبی کریم، خاتم الانبیاء، رحمتہ اللعالمین، محبوب رب، نور مجسم حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر آ کر اختتام پذیر ہوا اور آپ رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی نبوت روز آخرت تک قائم ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات کامل کی آغوش قدسیہ میں پروان چڑھنے والا سلسلہ ولایت آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی کرم الله وجہ الکریم کو عطا ہوا اور حضرت علی کرم الله وجہ الکریم کے بعد آنے والے آپ کرم الله وجہ کے جانشینان کا سلسلہ قیامت سے پہلے روز آخر تک جاری رہے گا۔

جاری ہے
Iqbal javed
About the Author: Iqbal javed Read More Articles by Iqbal javed: 11 Articles with 17774 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.