اے 63 کا اطلاق صرف پنجاب پر کیوں؟

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس کے 10 نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد نہ ہونے پر پیپلز پارٹی سے علیحدگی اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے وزراء کو نکالنے کے بعد ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاسی سرگرمیوں میں نہ صرف تیزی آئی ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست 90ءکی دہائی کی طرح تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان کے10نکات پر عمل نہیں کیا گیا اور 3سال تک ہم لوگوں کے طعنے برداشت کرتے رہے اب الگ ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی فوری ردعمل کے ذریعے کسی حد تک اشارہ دے دیا ہے کہ اب دما دم مست قلندر ہوگا۔ بابر اعوان نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہا ہے کہ اب وفاقی حکومت پنجاب میں محتسب کا کردار ادا کرے گی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اب ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بازی اور کاروائیاں کی جائیں گی تاکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھا سکیں یقیناً اگر ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو یہ انتہائی افسوسناک ہوگا۔

ماضی کا تلخ تجربہ ہے کہ جب بھی سیاسی قوتوں کے درمیان محاذ آرائی ہوئی اس کا بھرپور فائدہ آمرانہ قوتوں نے اٹھایا اور پھر ملک ایک طویل عرصے تک آمروں کے چنگل میں پھنس گیا ۔ ایک آمر کی پالیسیوں کی ہی سزا اس وقت ملک بھگت رہا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور میں پاکستان عملا ً امریکی غلام بن چکا تھا جس کی واضح مثال اس ملک میں کھلے عام گھومنے والے امریکی دہشت گرد ہیں۔ جمعہ(25فروری2011) کو وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے قومی اسمبلی میں ایک تحریری سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ پاکستان میں دنیا کے 78 ممالک کے 2570 افراد کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اور امریکہ واحد ملک ہے جس کے لاہور قونصلیٹ میں کام کرنے والے افراد کو بھی استثنیٰ ملا ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ 851 امریکی سفارتکار مستثنیٰ ہیں۔ امریکہ کے لاہور قونصلیٹ میں30افراد سفارتی جبکہ ایک اہلکار غیر سفارتی عہدے پر کام کر رہا ہے۔ 78ممالک کے 2570سفارتکاروں کو استثنیٰ حاصل ہے جن میں سے 1119 سفارتی جبکہ 551 افراد غیرسفارتی عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ 170 برطانوی، 168 سعودی،117بھارتی،98 روسی، 87چینی،64 ایرانی افراد، افغانستان اور فرانس کے 60، جرمنی کے56 اور دیگر ممالک کے سفارتی استثنیٰ کے حامل افراد کی تعداد 500سے بھی کم ہے ۔ اطلاعات کے مطابق اکثر امریکیوں کو سفارتی استثنیٰ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ملا یا اس کے کئے ہوئے معاہدوں کا نتیجہ تھا۔ ایک اور اطلاع کے مطابق 364 سی آئی اے اہلکار بھی کام کر رہے ہیں جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ تعداد حتمی نہیں ہے اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔سابق فوجی سربراہ جنرل(ر) اسلم بیگ کا تو کہنا ہے کہ کراچی سے گلگت تک امریکا کا جاسوسی جال بچھا ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امریکی یہاں کیا کر رہے ہیں یقیناً وہی جو ریمنڈ ڈیوس کر رہا تھا جو بلیک واٹر کے اہلکار کر رہے ہیں ۔

ماضی میں جب بھی کوئی آمر آیا اس کی پالیسیوں کا نتیجہ کسی نہ کسی حد تک قوم کو بھگتنا پڑا ہے تاہم مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سابق فوجی سربراہ جنرل ضیاءالحق کا دور ملکی سلامتی کے حوالے سے کسی حد تک مثبت راہ پر رہا ہے ممکن ہے کہ یہ اس وقت کے عالمی حالات کا یہ تقاضا ہو۔

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین ایک دوسرے سے علیحدگی کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) پر مسلم لیگ (ق) کے ذریعے وار کرے گی۔ شاید ان کا پہلا شکار مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنے والا مسلم لیگ (ق) کا یونیفکیشن گروپ ہو۔ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے مجموعی ارکان کی تعداد 79 ہے جن میں سے 47 ارکان یونیفکیشن گروپ میں شامل ہیں جبکہ 32 ارکان اس وقت بھی چوہدری شجاعت یا ہم خیال گروپ ساتھ ہیں، اس طرح پنجاب اسمبلی میں مجموعی طور پر اکثریتی گروپ مسلم لیگ (ن) کا حامی ہے یہی وجہ ہے کہ اس گروپ کا یہ دعویٰ ہے کہ اکثریت کھو جانے کے بعد چوہدری شجاعت کے نامزد کردہ پارلیمانی لیڈر کے پاس شوکاز نوٹس جاری کرنے کا کوئی استحقاق نہیں جبکہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو دئے گئے اختیارات کے مطابق پارلیمانی لیڈر وہی کہلائے گا جس کو پارٹی کا سربراہ نامزد کرے گا اور پارٹی سربراہ کی پالیسی سے انحراف کر کے کسی بل یا عدم اعتماد میں ووٹ دیا جائے تو نااہلی ثابت ہوگی۔

اگر ہم اس امر کو مد نظر رکھیں تو پھر اس نااہلی کا دائرہ صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں رہے گا ۔ملک میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے قومی وصوبائی اسمبلی اور ممبران سینیٹ کی تعداد مجموعی طور پر 189 ہے۔ جن میں سے 106 پر یہ الزام ہے کہ وہ پارٹی سربراہ کے مخالف گروپوں میں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے 49 ارکان ہیں جن میں سے 21 چوہدری شجاعت مخالف گروپوں میں شامل ہیں۔ سینیٹ میں مسلم لیگ (ق) کے 21 ارکان ہیں جن میں سے 11 ارکان چوہدری شجاعت مخالف گروپوں میں شامل ہیں۔ پنجاب میں 79 میں سے 47 نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ سندھ میں 11 میں سے 5 مسلم لیگ ہم خیال اور 3 پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں(2008ءسے ہی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں )۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ق) کے 19 ارکان 3 گروپوں میں تقسیم ہیں۔ ایک گروپ ہم خیال گروپ کے نام سے روز اول سے پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل ہے جس کے ارکان کی تعداد 13 ہے اس گروپ کا سیلم سیف اللہ والے ہم خیال گروپ سے کوئی تعلق نہیں ۔دوسرا گروپ مسلم لیگ (ق) کے نام سے کام کر رہا ہے جس کے ارکان کی تعداد 5 ہے یہ گروپ بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہے جبکہ ایک رکن مسلم لیگ (ق) کے نام سے حزب اختلاف کا کردار ادا کررہا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں وہ حکومت کا حصہ نہیں ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ چوہدری شجاعت کو بلوچستان میں ان کی اپنی جماعت کے 19 میں سے صرف ایک رکن کی حمایت حاصل ہے ۔ البتہ خیبر پختونخواہ واحد صوبہ ہے جہاں پر چوہدری شجاعت کو اپنے تمام 6 ارکان کی حمایت حاصل ہے اسی طرح گلگت بلتستان کی اسمبلی میں بھی مسلم لیگ (ق) کے 3 ارکان ہیں جن میں سے 2 پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) سے ملے ہوئے ہیں یا کونسل کے انتخابات میں انہوں نے آزاد امیدوار کی حمایت کر کے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا ہے۔

اگر 18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو دیئے گئے اختیارات اورآئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کاروائی ہوتی ہے تو یہ کاروائی صرف پنجاب تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ اس کا اطلاق قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہونا چاہیے کیونکہ اگر پنجاب کے یونیفکیشن گروپ سے تعلق رکھنے والے 47 ارکان کے عمل کو ہارس ٹریڈنگ یا فلور کراسنگ کا نام دیا جاسکتا ہے تو پھر باقی 59 کے قریب ارکان کے عمل کو کیا کہا جائے گا جو پارٹی کے مرکزی سربراہ چوہدری شجاعت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ہر کوئی اپنے مطلب اور مقصد کیلئے قانون اور آئین کو استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ق) کے سندھ میں 3، بلوچستان میں 18 ارکان کی حمایت حاصل ہے اور وہ پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا حصہ بھی بن چکے ہیں اس کے باوجود پیپلز پارٹی ان کی تو بات نہیں کرتی لیکن پنجاب کے 47 ارکان کی بات کرتی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین اور ان کے ساتھی 47 ارکان کے گروپ پر تو اعتراض کرتے ہیں لیکن ہم خیال گروپ کے نام سے ان کی اپنی جماعت میں بننے والے گروپ کو نااہل قرار دینے کیلئے وہ آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان مسلم لیگ (ق) کے نام سے کوئی بھی جماعت رجسٹرڈ نہیں ہے جو جماعت رجسٹرڈ ہے وہ ہے” پاکستان مسلم لیگ“ جس کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت بھی اس پر توجہ نہیں دیتی ہے اور 2008ءمیں قائم پاکستان مسلم لیگ کے189 کے قریب ارکان اس وقت مجموعی طور پر 5 گروپوں میں تقسیم ہیں۔ ہم خیال کے نام سے ایک گروپ تو ملکی سطح پر سلیم سیف اللہ کی سربراہی میں کام کررہا ہے۔ اسی نام سے دوسرا گروپ بلوچستان میں 13 ارکان پر مشتمل ہے۔ پنجاب میں 47 ارکان نے یونیفکیشن کے نام سے تیسرا گروپ بنایا ہے جبکہ چوتھے گروپ کے ارکان نے باقاعدہ طور پر کسی گروپ کا اعلان نہیں کیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گروپ پس پردہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ملا ہوا ہے اور وہ پیپلز پارٹی کو ہر سطح پر اپنے تعاون کی یقین دہانی کرارہا ہے جس کی جانب اشارہ وفاقی وزیر قانون ظہیر الدین بابر اعوان نے جمعہ کو اسلام آباد میں ہونے والی پریس کانفرنس میں بھی کیا اگر واقعی فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ سے سیاست کو پاک صاف کرنا ہے تو پھر سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے اور عدالتوں کو بھی چاہیے کہ اگر اس طرح کے کیس آتے ہیں تو پھر اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہیے۔63.A کا اطلاق صرف پنجاب پر کیوں؟؟ سب کو اس کٹہرے پر لانا ہوگا۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے ہم کسی تصادم کے متحمل نہیں ہوسکتے اور اگر کسی صوبے یا وفاق میں حکومت کو اعتماد حاصل نہیں ہے تو پھر درمیانی مدت کے انتخابات ہی بہترین راستہ ہے۔ ویسے بھی جو محاذ آرائی شروع ہوئی ہے اس سے یہ محسوس ہوا ہے کہ اب درمیانی مدت کے انتخابات ہوں گے یا پھر ”کوئی اور“ قوت درمیان میں کود پڑے گی۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 96557 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.