میاں نواز شریف یاد تو آرہے ہوں گے ․․․!!

ملک کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں،پہلی بار عوام کو اس کی واضح تصویر نظر آ رہی ہے ۔ملک کی تباہی بربادی کے اصل ذمہ داروں پر کوئی کشمکش میں مبتلا نہیں ہے ۔حکمران جماعت اور حزب اختلاف جماعتوں میں تکرار جمہوریت کا حسن ہے ، مگر اس طرح کی گالی گلوچ والی تکرار غیر مہذب کے زمرے میں آتا ہے ،جسے کسی صورت زیادہ دیر قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ہر خاص و عام کی زندگی کی کتاب میں کچھ ایسے اوراق ضرور ہوتے ہیں، جنہیں وہ کبھی بھی منظر عام پر لانا پسند نہیں کرتے ،ایسے لمحے ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں جب وہ نفس کی پیروی میں یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر ایسی حرکتیں کر بیٹھتا ہے ،جن پر وہ پوری زندگی پچھتاتا ہے ۔دوسروں کے نقائص اور عیوب کی تلاش میں رہنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر عزت و ذلت کا معاملہ اﷲ نے انسانوں کے ہاتھ میں دیا ہوتا تو ہم میں سے کوئی شخص اپنے حریف و مقابل کو کبھی با عزت زندگی گزارنے ہی نہ دیتااور ہر شخص ذلت و خواری کی زندگی گزار رہا ہوتا۔یہ تو اس کریم کی شان کریمی ہے کہ اس نے عزت اور ذلت اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ۔لیکن حکمران جماعت شاید سمجھتی ہے کہ حزب اختلاف میں بیٹھنے والوں کی عزت اچھال کر ان کو عوامی حمایت ملے گی،پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر جذباتی اور نفرت انگیز تقریریں کر کے عوامی مسائل پر چشم پوشی کے لئے متنازعہ مسائل پیدا کئے جاتے ہیں ۔آج ہماری جمہوریت کی روح مجروح ہو کر رکھ دی گئی ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی ہے۔پاکستان پر اندرونی و بیرونی ناپاک سازشوں کی وجہ سے ملک پر دیوالیہ ہونے کے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔ملک میں مسائل بے شمار ہیں ، حکومت انہیں حل کرنے پر توجہ دینے کی بجائے اپنا تمام تر قوتیں عوام کو بیوقوف بنانے پر لگا رہی ہے ۔مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو نشانہ بنایا جا رہاہے۔عمران خان کی زبان سے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف آگ نکالنے کے سواکچھ نہیں ہے۔اپنی حکومت کی نو ماہ میں کارکردگی پر گفتگو کرنے کی بجائے صرف حزب اختلاف کی جماعتوں کیدو چار شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنا کر عوام کے مخلص بننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔لیکن ان کا یہ ڈرامہ اب فلاپ ہو چکا ہے ۔عمران خان کی نفرت انگیزی کی وجہ سے نہ صرف ملک کے اندر ایک خاص طبقے کے لئے نفرت کا بازار گرم ہوا ہے بلکہ ملک کی سالمیت اور خاص کر جمہوریت کے لئے بھی بڑا خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔

تبدیلی کے نام پر عوام سے بہت بڑا کھلواڑ کیا گیا ہے ،ماضی کے قرضوں کا بہانہ بنا کر عوام پر مہنگائی کے بم گرائے گئے ،وزیر خزانہ نئے نئے بہانے سنانے لگے ،ڈرانے ،دھمکانے اور عوام پر مسکرانے لگے ۔ڈالر کی کروٹ نے حکومت کا بھانڈا پھوڑ دیا ، 110سے بڑھ کر 145تک کا سفر صرف 9ماہ میں طے ہوا۔پہلے عوام کا خوف تھا جو اب ختم ہو کر رہ گیا ہے ،IMFسے مذاکرات کی کامیابی کی نوید سنا چکے ہیں ،اصل قوم کی چیخویں چند ہفتوں میں پوری دنیا کو سنائی دیں گی۔ایک طرف مہنگائی دوسری طرف بیروزگاری ،بازار خریداروں سے خالی ، صنعت کار بجلی ،تیل اور گیس کے بل بھر بھر کر دام بڑھانے پر مجبور۔وزیر کہتے ہیں کہ شکر کرو پیٹرول میں 6روپے کا اضافہ کیا ہے ،اوگرا تو 12روپے کا اضافہ چاہتا تھا ،انہوں نے قوم کی لوٹی ہوئی رقم کیا نکالنی تھی ،ان کے اپنے پیٹ کرپشن سے بھرے پڑے ہیں ۔خیبر پختونخوا کی سابقہ پانچ سال میں کرپشن کے ریکارڈ سامنے آ چکے ،مگر اس پر لب کشائی نہیں ،مگر ماڈل ٹاؤن میں نیب کے ذریعے جو تماشہ لگوایاگیا،اس کا مقصد کیا تھا ․․․؟عوام عمران خان کے ڈراموں سے تنگ آ چکی ہے،ان کے چھچھورے ہتھ کنڈے مقتدر اداروں کے لئے بھی شرمندگی کا باعث ہیں ۔لیکن اسکرپٹ ایسا ہی ہے ،وہ ایسا ہی چھچھورا پن چاہتے ہیں ،سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ․․․؟اس کی وجوہات بعد میں۔ پہلے حکومت ایسے ڈرامے کیوں کر رہی ہے ؟کیونکہ بجٹ سیشن سر پر ہے ،فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ لٹک گیا ہے ، معیشت تیز رفتاری سے تحت الشریٰ میں جا رہی ہے ۔اب حکومت ان ڈراموں سے عوامی توجہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی دوسری جانب کرنا چاہتی ہے ۔ایسا کون سا طوفان آ گیا تھا کہ حمزہ شہباز کی گرفتاری اتنی ضروری ہو گئی تھی۔اصل میں عمران خان شریف برادران کو ملنے والی رعاتیوں سے پریشان ہو چکے ہیں ،ظاہر ہے عمران خان کے پاس عوام کو لبھانے کے لئے میاں برادارن کے خلاف اعلان جنگ کے علاوہ اور ہتھیار نہیں ہے جس سے عوام کو ورغلایا جاسکے ۔ان کا عوام کو کہنا تھا کہ 90دنوں میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دوں گا،مگر 9ماہ میں عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکلوانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔خیر وہ ناراض ہیں کہ شریف برادران کو رعایت کیوں دی جا رہی ہے ۔جمرود میں ان کی تقریرمیں اپوزیشن پر آگ برسانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔انہیں خطرہ ہے کہ کہیں مقتدر ادارے شریف برادران اور آصف علی زرداری کو این آر او نہ دے دیں ۔یہ عمران خان یا ان کے وزراء کی این آر او کی رٹ اپوزیشن کے لئے نہیں ہوتی بلکہ مقتدر حلقوں کو سنانے کے لئے ہوتی ہے ۔لیکن مقتدر حلقے خود سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں ۔عمران خان سے حکومت سنبھل نہیں رہی،بعض ایشوز کو عمران خان نے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے ۔وہ ان معاملات میں رائے لینا بھی ترک کر چکے ہیں ۔مقتدر حلقوں کے پاس کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کو اب تک برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔حالانکہ ملک میں بے یقینی اور سیاسی افراتفری ختم ہونے سے ہی کمزور معیشت کا مقابلہ ہو سکتا ہے ۔لیکن سب اس حکومت کی نا اہلی کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں ۔عمران خان کی خفگی اس وقت کم ہوتی ہے جب شریف خاندان کا ایک آدھ فرد جیل میں ہو ۔آصف علی زرداری کو جیل بھیجنا مشکل ہو رہا ہے ۔

عوام عمران خان کا کرپشن مٹاؤ یا غربت مٹاؤ ٹوپی ڈرامے کو سمجھ چکے ہیں ۔اسی لئے عمران خان نے کم از کم حمزہ شہباز کو سیاسی بیانیہ کے لئے گرفتار کروانے کی نا کام کوشش کی ۔اس صورتحال سے شریف خاندان با خوبی آشنا تھا ، انہوں نے حمزہ شریف کی گرفتاری کو سیاسی شو میں تبدیل کر دیا۔نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے ’’ڈامیٹک اینٹری‘‘ دی مگر تماشہ کرنے میں سیاست دانوں کا مقابلہ کون کر سکتا ہے ۔وہ بھی مسلم لیگ (ن) کے گڑھ لاہور میں، جہاں ایسے مخصوص جوشیلے ورکرز ہیں جو حمزہ شریف پر جان نچھاور کرتے ہیں ۔نیب نے بڑی سوچی سمجھی سکیم لڑائی ہفتہ کے دن حمزہ شہباز کی گرفتاری کی کوشش کی ،مگر نا کام واپسی ہوئی ،جس سے نہ صرف نیب ادارے کی ساکھ مجروح ہوئی،بلکہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ نیب اور عمران خان کا کٹھ جوڑ ہے ۔نیب کو بی آر ٹی اور مالم جبہ کی کرپشن تو نظر نہیں آتی ،وہاں تو ایسے گارد کے ساتھ چھاپے نہیں مارے جاتے ۔نیب سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔یہ صورتحال بڑی سنگین ہے ۔عمران خان اپنی انا کی خاطر آئین ،قانون اور عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔

اب حکومت کے اس چھچھورے پن سے نقصانات کیا ہوں گے ․․؟عمران خان کو استعمال کر کے تمام سیاست دانوں کو گندہ کر دیا گیا ہے۔ملک میں مسائل کا انبار کھڑا ہو چکا ہے ۔ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کوئی آپشن باقی نہیں رہی ۔لیکن ملک کو کسی نہ کسی طرح چلانا ہے ۔ مستقبل قریب میں اب جواز بنایا جائے گا،کہ کیونکہ سب سیاست دان کرپٹ ہیں ،جسے صادق وامین کہتے تھے اس میں ملک چلانے کی اہلیت نہیں ہے ۔یہ سب کاوشیں ’’ون یونٹ ‘‘کی طرف راستہ ہنوار کرنے کے لئے ہیں ۔جنرل ضیاء الحق ،جنرل مشرف کی طرز کا ٹیکنوکریٹ حکومت کو اقتدار سوپنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہے ۔مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی اس خطرے کو با خوبی بھانپ چکے ہیں ۔اسی لئے میاں نواز شریف ،آصف علی زرداری حالات کو سمجھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں ، بلاول بھٹو تو چیخ چیخ کر عمران خان سمیت سب کو باور کروا رہے ہیں کہ ہوش کرلیں ،مگر عمران خان کو سیاسی سوجھ بوجھ ہوتی تو ان کا انداز یہ نہ ہوتا۔جمہوریت کی بساط لپٹی تو نقصان تمام سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا بھی ہو گا۔ملک کی بہتری فیئر الیکشن میں ہے۔عوام کی خواہش کے مطابق جو حکومت بھی بنے ،حکومت کرنے کا صرف اسے حق ہونا چاہیے ۔ادارے اپنی حدود میں کام کریں ،کیسے ہو سکتا ہے کہ ملک کے تمام مسائل حل نہ ہوں ۔’’سلیکٹڈ‘‘حکمران والا رواج بلکل ختم کرنا پڑے گا۔اب میاں نواز شریف کی باتیں یاد آ رہی ہوں گی ۔ووٹ کو عزت دلوانا کیوں ضروری ہے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.