سلطانوں کی لڑائی!!!

شہرت،دولت اور خوش آمد ایک نفسیاتی بیماری ھے،جس کو لگ جاتی ھے اسے غذا کم ھونے پر دورے پڑنے شروع ہو جاتے ھیں۔فرحت اللہ بیگ نے اسے ریہ کی بیماری قرار دیا تھا کہ جس کو لگ جائے اسے دیمک کی طرح چاٹ جاتی ھے۔سر سید احمد خان نے ڈیڑھ سو سال پہلے اپنے مضمون"خوش آ مد "میں برصغیر کے مسلمانوں کو آ گاہ کیا تھا۔یہ بیماری آ ج بھی مذہبی،سیاسی اور سماجی طور پر عام ھے۔دنیا میں جو لوگ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے وہ اپنے وسیع ظرف کی وجہ سے محفوظ رہے۔جیسے ھی ظرف کا فرق پیدا ھوا بڑے بڑے علماء،لیڈر،اداکار۔فنکار ،شہزادے دھڑم سے گرے کہ آٹھ نہ سکے۔لیڈی ڈیانہ۔مائیکل جیکسن،صدام حسین،قذافی،عرفات،شاہ فیصل۔نیکسن،اور دنیا کے کئی منظر آ پ کے سامنے ھوں گے۔مگر جس نے ظرف اور قربانی کا مظاہرہ کیا وہ امر ھو گے نیلسن مینڈیلا،مارٹن لوتھر کنگ جونیئر،مدر ٹریسہ۔ایدھی۔سر سید۔قائداعظم کی مثالیں آپ کے سامنے ھیں۔

عمران خان نے ایک طویل عرصہ جدوجہد کے بعد یہ مقام پایا ہے۔مگر ملتان کے سلطان۔۔ شاہ محمود قریشی۔جاوید ھاشمی،اور جہانگیر ترین کے درمیان شروع سے مخاصمت موجود تھی،جاوید ھاشمی نے کنارہ کشی اختیار کی،عمران پر کاری ضرب لگائی مگر ھاشمی جو بڑا آ دمی تھا کہیں دھول میں گم ھو گیا،مگر شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے درمیان شہرت ،مخاصمت میں بدلتے بدلتے،باقاعدہ لڑائی میں تبدیل ہو گئی۔کون حق پر ھے اور نقصان کس کا ھو گا۔؟ دونوں کو تجزیہ کر لینا چاہیئے،جہانگیر ترین کے ساتھ ھمیں کام کا تجربہ ھے وہ انتہائی محنتی۔جدوجہد پر یقین رکھنے والا اور پروفیشنل شخص ھے۔بد قسمتی سے نااہلی کا شکار ہو کر تنہا رہ گیا۔شاہ محمود کو اس سے تسکین ضرور پہنچی ھو گی جیسے نواز شریف کی نااہلی سے شہباز شریف کو اطمینان قلب ہوا۔یا مریم نواز کے آؤٹ ہونے سے ھمزہ کے خوابوں کو تقویت ملنے لگی۔یہ کھیل ایسا ھی بھیانک ھوتا ھے۔ملتان کے سلطان ٹکٹوں کی تقسیم پر،پھر جیت اور ہار میں بھی الجھے مگر جہانگیر ترین کی بادشاہ گری نے سب گرد بیٹھا دی تھی۔شاہ محمود قریشی نے اس خلا اور جہانگیر ترین کی عدم موجودگی سے خوب اندرون ملک اور بیرون ملک شہرت پائی۔حالیہ پاک۔بھارت کشیدگی میں بھی شاہ جی کا گراف ان کی محنت ، عمران خان کی شخصیت اور فوج کی اعلیٰ ترین کارکردگی سے اور بلند ھو گیا۔جو ان ک رگ وپے میں آ گ بن کے دوڑنے لگا۔خدا کرے اس آ گ سے حکومت کا کمزور آ شیانہ نہ جل جائے یا شاہ جی فطری انجام سے دوچار نہ ھو جائیں۔چونکہ شہرت بیماری ھے جو اچھے خاصے صحت مند آ دمی کو بستر مرگ تک لے آتی ھے۔دوسرا جھگڑا پنجاب یا کم ازکم جنوبی پنجاب کی سلطانی حاصل کرنے کا ھےوہاں جہانگیر ترین کو اپنی محنت،خدمت اور بے لوث حکومت سازی کی وجہ سے برتری حاصل ہے۔اگر یہ موقع پرستی ھے یا کوئی اشارہ تو بھی نقصان شاہ جی کا زیادہ ھو گا۔قیادت عمران خان کے پاس ھے۔اور اس کے بغیر تحریک انصاف کچھ نہیں۔کیا ایک اور بھٹو بننے کی خواہش مند ی ھے تو وہ سکہ اب بیداری اور سوشل میڈیا کے ھوتے نہیں چل سکتا۔ہاں وکٹ پر رہ کر کھیلنے سے شاہ جی کو بہت کچھ مل سکتا ھے۔جہانگیر ترین کو عمران خان اور ان کا کام پسند کرتے ھیں۔شہرت کی بیماری کو روگ نہ بنائیں اسی میں ملک اور حکومت کا بھلا ھے۔جو براہ راست عوام کو منتقل ھو گا۔

عشق کی چوٹ یکساں پڑتی ھے دلوں پر۔۔۔۔۔۔ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے۔یوسف رضا گیلانی۔جاوید ھاشمی،اور شہرت کے کئی سلطانوں سے سبق سیکھیں۔قربانی آپ کو آ مر کر دے گی
 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 60766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.