ورلڈ کپ٬ کمرشل ازم اور کرکٹ

باب وولمر کی ہلاکت اور ہماری کرکٹ کی نیم دِلی کو چار سال گزر گئے اور ورلڈ کپ ایک بار پھر زندہ ہوگیا۔ ورلڈ کپ ایک بار پھر ڈیڑھ ماہ کے لئے ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ کرکٹ سے شغف رکھنے والی ہر قوم کے لئے ورلڈ کپ اپنے جلو میں بھرپور مسرت اور جوش و خروش کے لمحات لیکر آتا ہے مگر اب تک یہ ایونٹ ہم سے تو صرف کھیلتا آیا ہے! کسی زمانے میں کرکٹ ورلڈ کپ سے ہماری کھٹّی میٹھی یادیں وابستہ ہوا کرتی تھیں اور پھر یہ ہوا کہ کرکٹ کے اِس میگا ایونٹ نے ہمیں تلخ یادوں کی غلامی میں دے دیا! چار سال قبل ورلڈ کپ کچھ اِس انداز سے آیا کہ ہمارے لئے تو گویا آیا ہی نہ تھا اور محض پہلی جھلک کے ختم ہوتے ہوتے ہماری ساری اُمیدوں کے ساتھ ساتھ ٹیم کے کوچ باب وولمر کو بھی اِس طرح ساتھ لے گیا کہ ہمارے پاس آنکھیں، سر اور گردن۔۔ سبھی کچھ جھکانے کے سوا کوئی آپشن نہ رہا!

دس پندرہ سال سے یہ ہو رہا ہے کہ ورلڈ کپ آتا ہے اور ہمیں کلین بولڈ کر کے چلا جاتا ہے! ایسا شاید اِس لئے ہو رہا ہے کہ ہم بہت سے معاملات کی اچھی طرح نیٹ پریکٹس نہیں کرتے! ایک زمانہ تھا کہ جب ہم صرف اور صرف کرکٹ کی بدولت اِس کھیل سے شغف رکھنے والوں کی دنیا میں پورے وقار کے ساتھ جیا کرتے تھے۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب کرکٹ میں صرف کرکٹ تھی، زیادہ پیسہ ویسہ نہیں تھا۔۔ یعنی کمرشل ازم نے کرکٹ کے میدانوں میں ڈیرے نہیں ڈالے تھے۔ جب ”مال پانی“ زیادہ تھا ہی نہیں تو جُوا کہاں سے ہوتا؟ کرکٹر بننا بجائے خود ایک بڑا جُوا تھا! کرکٹرز اُس دور میں بھی قوم کے ہیرو تھے مگر رول ماڈل یا محض ماڈل نہیں بنے تھے! وہ میڈیا اور کیمرے کی پچ سے زیادہ کرکٹ گراؤنڈ کی پچ پر کھیلنے کو اور جیبوں میں مال و زر بھرنے پر داد و تحسین کے حصول کو ترجیح دیا کرتے تھے!

کون سا کارنامہ تھا جو ہم نے (میڈیا کی مدد کے بغیر!) کرکٹ کی دنیا میں انجام نہیں دیا؟ کرکٹ کیا تھی، ایک سُہانا خواب تھا جو ہماری دل بستگی کا سامان کئے ہوئے تھا! کون چاہتا تھا کہ اِس خواب کی موت واقع ہو اور آنکھ کُھلے؟ مگر پھر یہ ہوا کہ کہیں سے سٹّہ آدھمکا اور اِس ستم ظریف نے ہماری کرکٹ ہی کو داؤ پر لگا دیا! کرکٹ جب خلیج کے خطے میں پہنچی تو اُس کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔ اِس خطے میں لوگ کمانے جاتے ہیں، کرکٹ بھی کمانے ہی پہنچی! کمرشل ازم کی ابتداء ہوئی تو کھلاڑیوں کو خریدنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ جن کی کمر کرکٹ کھیلتے کھیلتے شَل ہوچکی تھی انہوں نے کمرشل ازم پر آمنّا و صدقنا کہا! کرکٹرز کی کِٹ کا رنگ ہی تبدیل نہیں ہوا، کرکٹ کے اطوار بھی بدلتے چلے گئے! کرکٹ کھیلتے کھیلتے اہل ستم کرکٹ ہی سے کھیلنے لگے! شارجہ نے کرکٹ کو نیا انداز، گلیمر اور جوش و خروش ہی نہیں دیا، نئی کامیابیوں سے ”دوچار“ اور نئی ذِلّتوں اور رُسوائیوں سے آشنا بھی کیا! شارجہ میں ایک ایسا بھی دور گزرا ہے جب کرکٹ کے میدان میں صرف کرکٹ کی بازی جیتنے کی تگ و دو ہو رہی ہوتی تھی اور اِس میدان سے باہر طرح طرح کی بازیوں کا میدان سجتا تھا! باؤلر کے ہاتھ سے نکلنے والی گیند بیٹسمین کے سامنے گرنے یعنی ٹپّہ کھانے سے قبل کسی کو نواز چکی ہوتی تھی اور کسی کو ”ٹپکاتی“ یا چونا لگا جاتی تھی! batting رفتہ رفتہ betting میں تبدیل ہوتی گئی۔ یہ بڑا ”انقلابی“ دور تھا جس نے کرکٹ اسٹیڈیم کو کیسینو بنا ڈالا اور کرکٹ سے شغف رکھنے والوں کو سٹّے باز! اور پھر یہ ہوا کہ کرکٹ کی کشتی دولت اور بدنامی کی خلیج میں ڈوب گئی!

1960 کے عشرے میں آں جہانی گرو دت نے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے فلم ”پیاسا“ بنائی تھی۔ مرکزی کردار (جو گرو دت نے ادا کیا تھا) ایک ایسے شاعر کا تھا جسے کوئی نہیں پوچھتا اور پھر جب ایک حادثے میں اُسے مُردہ تصور کرلیا جاتا ہے تب مردہ پرستی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے لوگ اُس کی شاعری کے دیوانے ہو جاتے ہیں! اُس کے نام پر لوگ تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں اور اُس کی شاعری کو بیچ کر جیبیں بھرتے ہیں! یہ تماشا دیکھ کر شاعر حیران رہ جاتا ہے اور منظر عام پر آکر مُردہ پرستوں کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہے!

آج کرکٹ کا بھی کچھ کچھ اُس شاعر جیسا ہی حال ہے۔ کرکٹ ہی کے نام پر میلوں کا اہتمام کیا جارہا ہے، یار لوگ ”شوکن میلے دی“ بنے ہوئے ہیں اور خود کرکٹ ہی کو اِن میلوں میں شرکت کی دعوت نہیں دی جارہی! کھیل بے چارہ جوتے کے تسمے باندھتا رہ گیا ہے اور کھلاڑی آگے نکل گئے ہیں! اور شائقین بھی ”ہم کو منزل نہیں، رہنما چاہیے“ کی عملی تصویر بن گئے ہیں! اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی کارکردگی ہی کو مقابلے کا حاصل اور حسن سمجھ کر لوگ دل بہلا لیا کرتے ہیں! ہم ملٹیپل آپشنز کے دور میں جی رہے ہیں۔ کرکٹ بے چاری کی کمر پر کئی کام لاد دیئے گئے ہیں! اب کرکٹ کچھ اِس انداز سے کھیلی جاتی ہے کہ کھیل کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی نظر آئے! ہر اہم میچ ”ٹاسک فورس“ دکھائی دیتا ہے! یعنی ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے
اِک رنگ میں سو رنگ دکھاتی ہوئی کرکٹ!

آج سے کرکٹ کی چار سالہ بادشاہت کے لئے مقابلوں کا میلہ لگ رہا ہے۔ پاکستانی کرکٹ پر بڑا کٹھن وقت ہے۔ تین اہم کھلاڑیوں پر پانچ سے دس سال کی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ یہ گویا آئی سی سی کی طرف سے یارکر کرائی گئی ہے اور اب ہمیں اِس کے اثرات سے بچنا ہے! جو کرکٹ دلوں میں کدروتیں بھرتی رہی ہے اُسی نے کبھی کبھی قوم کو سرمستی اور سرخوشی سے آشنا بھی کیا ہے۔ اِس نصیبوں جلی کرکٹ ہی کی بدولت ہم نے دو چار بار قومی سطح پر جشن بھی منایا ہے۔

کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ گواہ ہے کہ میزبان آج تک چیمپین نہیں بنا۔ آج سے شروع ہونے والے ورلڈ کپ کا پاکستان بھی میزبان تھا مگر بدقسمتی سے حالات نے ہم سے میزبانی چھین لی۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ انتظامی اور سیاسی بدقسمتی کھیل کے لئے خوش قسمتی ثابت ہو اور میزبانی کی ”نحوست“ سے نجات پانے پر اب ٹیم کچھ کرکے دکھادے! ہماری کرکٹ کے لئے اب نیٹ پریکٹس اور دُعا مساوی اہمیت رکھتے ہیں! چلیے اِس بہانے ہی سہی، لوگ کچھ دن کے لئے اللہ سے لَو تو لگا لیتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 485581 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More