لاحاصل

وہ مجھے عمیق اندھیروں سے نکا لتا ہے اور روشنی کی رعنائیں سے روشناس کرواتا ہے۔جب ذرا مانوسیت بڑھنے لگتی ہے تو پھر سے ایک پرچھا ئی اندھیر نگری میں دھکیل دیتی ہے۔اب مجھے اندھیرے سے خوف محسوس نہیں ہوتا لیکن روشنی کی ایک لطیف سی کرن بھی وحشت برپا کر دیتی ہے۔لاحاصل منزلوں کی جستجو میں محوسفر غیرمتعین راستوں کا راہی درحقیقت ہمسفر کی تلاش میں ہے۔میں اکثر اسکا ہمسفر بنتا ہوں یا شاید وہ میرا ہمسفر بنتا ہے۔میں اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں تھما دیتا ہوں اور کسی بے وزن سی چیز کی طرح اسکے پیچھے لپکا جاتا ہوں۔آہستہ آہستہ اور چھوٹے چھوٹے قد م اٹھاتے ہوئے مجھے اچانک یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں چلنا بھول گیا ہوں۔جب میں لڑکھڑاتا ہوںتو وہ مجھے سہارا دیتا ہے۔میری پشت تھپتھپاتا ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔

میں جب پھر سے چلنا سیکھ لیتا ہوں اور تیزی سے آگے بڑھنے لگتا ہوں تو وہ رک جاتا ہے۔میں جہاں سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہوں وہ اسی جگہ کو اپنی منزل مان کر ڈیرے ڈال لیتا ہے۔وہ ہر روز مجھ سے ملتا ہے۔ عجب طلسماتی شخصیت ہے اسکی۔وہ پرُاسراریت کی عجب چاشنی سے لدا ہوا ہے جس کا ذائقہ میری زبان نہیں بلکہ روح محسوس کرتی ہے۔رات کی تاریکی گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔سیاہی اپنی گھنی زلفیں پھیلائے جا رہی تھی۔اچانک ایک سفید روشنی کی کرن کھڑکی کی جالی سے چھن چھن کر تاریکی کا سینہ چاک کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔یہ مدہم سی روشنی اپنی سی کوشش میں ہر چیز کو سفیدی کا لبادہ اڑھانے لگتی ہے۔

آج مجھے وہ دور کہیں خلاؤں اور کہکشاؤں میں لے گیا۔جہاں چاند نرم و ملائم کرنوں کا فرش بچھا رہا تھا۔ قرب و جوار میں ننھے منے ستاروں کی لا تعداد ٹولیاں محو رقص تھیں۔مگر مگراندھیرا ہے کہ چھٹتا ہی نہیں۔ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ظاہر تو چمکتا دکھائی دے رہا ہے،باطن کو کون منورّ کرے گا۔؟؟ یہ تاریکی یہ سیاہی آخر کیوں ختم نہیں ہوتی۔؟؟ ارے وہ کہاں گیا ،پھر سے غائب ہوگیا۔وہ کون ہے کیا چاہتا ہے۔

کبھی سوچا ہی نہیں۔اس سے پوچھنے کی زحمت ہی گواراہ نہیں کی اور اس نے بھی کبھی نہیں بتایا۔اس کے بارے میں تو درکنار،میں نے کبھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔کیا کی ہے کبھی۔؟ میں کون ہوں ،کیا ہوں، کس لئیے ہوں،سوچا کبھی۔۔۔؟؟؟

اپنے آپ کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں تو کانوں میں سیٹیاں بجنے لگتی ہیں،دل میں اک شور سا ہوتا ہے۔اور میں اس ادھوری کوشش میں ہر بار کی طرح ناکام ہو جاتا ہوں۔وہ میری خفیہ صلاحیتوں کے بارے میں جانتا ہے۔انہیں باہر نکالنا چاہتا ہے۔مگر وہ مجھے زنگ آلود ہونے سے بچانے کے لئے اس قدر ہوا بند کر دیتا ہے کہ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔میری سانس اکھڑنے لگتی ہے۔اور میں بے ہوش ہو جاتا ہوں۔پھر نہ جانے کب اور کیسے ہوش میں آتا ہوں۔مگر کیا میں واقعی ہوش میں آجاتا ہوں۔۔۔؟ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں نہایت دشواری ہوتی ہے کہ میں ہوش میں آچکا ہوں یا نہیں۔ایک دن جب شدید بارش کے بعد موسم کھل گیا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے تن بدن کو سہلا رہے تھے۔تو وہ مجھے اپنے ساتھ ایک ایسے خوشنما قطعے پر لے گیا جہاں ہر طرف سکھ،شانتی اور اطمینان کا راج تھا۔کھلتے پھول،چہچہاتے پرندے کس قدر مسحور کن منظر تھا۔ پر شکوہ پہاڑیوں کے درمیان بہتی ندی کا شفاف پانی اور اس میں اچھلتی کودتی مچھلیاں دل نوشاد پر اپنا عکس ثبت کر دیتیں۔

میں اٹکھیلیاں کرتی ہوئی تتلیوں کے پیچھے بھاگتا ہوں تو راستے میں پڑے سنگریزے کی ہلکی سی ٹھوکر سے سارا منظر نقشے سے غائب ہو جاتا ہے وہ بے حد خوش دکھائی دے رہا تھا۔ چہرے پر پھیلی رونق،لبوں پہ سجی شادمانی عیاں تھی۔حسب معمول آج بھی میں اسکے ساتھ ہو لیا۔چند لمحوں بعد پھر سے خونخوار اندھیرا، لا متناہی تاریکی۔اچانک نور ہی نور پھیل گیا۔جس کے سامنے سورج کی تندوتیز زرد کرنیں اور چاند کی سفید ملائم تاریں بھی ہیچ نظر آتیں۔ سامنے ایک پرانے برگد کے درخت تلے نورانی چہرے اور بے حد سفید لباس میں ملبوس بزرگ براجمان تھے۔

چہرے کی دمک اور آنکھوں کی چمک ،چندھیا دینے والی۔خفیف مسکراہٹ بھرے ہونٹوں پر پھیلی سرخی۔۔۔ عجب رنگ سحر سے سارا جسم کپکپا سا گیا۔قوس قزاء کے سارے رنگ بکھر گئے۔اور خوشبوئیں پھیلنے لگیں۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سارا اندھیرا چھٹ گیا،تمام تاریکی دور ہو گئی۔ظاہر کے ساتھ ساتھ جیسے باطن بھی منورّ ہو گیا۔جیسے اندر کی ساری سیاہی معدوم ہو گئی ہو۔میں ذرا کروٹ بدلتا ہوں کہ سارا خواب ٹوٹ جاتا ہے۔

اب وہ مجھ سے صرف آئینے میں ملاقات کرتا ہے۔ آہ۔۔۔۔ سانس جیسے سینے میں رک سی گئی، غم کا ایک الاؤ دل میں جل اٹھا۔درد بھری ٹیس اٹھنے لگی۔آئینہ میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔اب میں اپنے آپ کو آئینے کے ٹکڑوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہوا پڑا محسوس کرتا ہوں۔وہ مجھ سے اب کبھی نہیں مل پائے گا۔وہ مجھ سے بچھڑ گیا ہے یا میں خود سے جدا ہو چکا ہوں۔۔۔؟

مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے میرا ساکت وجود اسی برگد کے پیڑ تلے پڑا ہے۔اور میری روح بدن سے نکل کر فضاء میں تیرتی پھر رہی ہے۔میں خود کو بالکل ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔میں بے سدھ پڑا نہ جانے کیوں یہ سوچ رہا ہوں کہ ” وہ“ شاید ”میں“ ہی ہوں۔۔۔۔۔۔
Muhammad Nouman Zia
About the Author: Muhammad Nouman Zia Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.