ایم کیو ایم کی حلیم اور دہی بڑے۔

کل محترم وزیر داخلہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پہنچ گئے ان کے ساتھ محترم ذوالفقار مرزا اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی تھے۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے پرانے غم بھلا کر صاحبان کو حسین آباد کی حلیم اور برنس روڈ کے دہی بڑے پیش کیے، حلیم کے نشہ میں چور وزیر داخلہ نے محبت کے دعوے اور وعدے کئے اور دونوں پارٹیوں کا ساتھ ایک فطری ساتھ قرار دیا۔

ویسے تو میاں اور بیوی کا ساتھ بھی فطری ہوتا ہے لیکن حالات کشیدہ ہونے پر صرف ایک جملہ برسوں کے رشتے کو ختم کرسکتا ہے۔ ویسے تو سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا ایم کیو ایم کو کئی مرتبہ طلاق دے چکے ہیں لیکن مولوی رحمان بابا ہر مرتبہ ایک نیا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں اور دلہا دلہن کا ملاپ دوبارہ ہو جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے الطاف بھائی اور ان کے حواریوں کو چوہا کہہ دیا تھا اس وقت بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کو چوہا کا مطلب نہیں معلوم تھا ورنہ وہ ایسی گستاخی نہیں کرتیں برطانیہ میں جس طرح کتا ایک وفاداری کی علامت ہے اسی طرح چوہا بھی ایک انوکھا پالتو جانور ہے۔

میری نظر میں ایم کیو ایم اور پی پی کا ملاپ نہایت ہی غیر فطری ہے ان دونوں کا ایک نقاطی ایجنڈا ہے اور وہ ہے حکومت میں رہنا ورنہ ایم کیو ایم نے پی پی کیلئے کراچی میں جتنی پریشانی پیدا کر رکھی ہے اس کے مطابق تو ایم کیو ایم کو حکومت سے کبھی کا باہر کیا جا چکا ہوتا، ایم کیو ایم کو حکومت میں ساتھ رکھنا پی پی کی ایک مجبوری ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صاحب کی حکمت علمی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں سے اچھے روابط رکھے جائیں تاکہ ایم کیو ایم پر لگی ہوئی لسانیت کی چھاپ ہٹ سکے لیکن ہر دو یا تین ماہ بعد اس کے ہم پیالا اور ہم نوالہ حلیم اور دہی بڑے کھانے والے الطاف حسین صاحب کی محنت پر پانی پھیر دیتے ہیں۔

افسوس تو الطاف بھائی کو اس وقت ہوا ہوگا جب وسیم اختر صاحب نے نواز لیگ کے جواب میں ری ایکشن کیا تھا۔

الطاف بھائی حلیم اور دہی بڑے سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ جس دن آپ نے پشاور کے چپلی کباب کھا لیئے تو سمجھئے کہ آپ کی پارٹی پر سے لسانیت کی چھاپ ہٹ گئی۔