پہلی اور آخری جنگ

ہمارے دلائل اگر دنیا سمجھ نہیں پا رہی تو ہم دنیا کو اپنا موقف سمجھا بھی نہیں پا رہےہیں ۔ ہمیں مقدمے کے لیے اپنے وکیل ہی نہیں پیش کرنے کا سلیقہ بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ بہتری کے لیے ہمیں اعتراف کا کڑوا پیالہ پینا ہی ہو گا ۔ ہمارا مقدمہ حقائق پر مبنی ہے، ستر ہزار جانوں کی قربانی، دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، اور کشمیریوںکا ہر فورم پر سینہ سپر ہونا، ایسے حقائق ہیں جن کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا

دنیا کی پہلی جنگ میں چوتھائی آبادی تباہ ہو گئی تھی۔ اس تباہی پر پوری دنیا غم میں ڈوب گئی۔ انسانیت اپنے خالق کے سامنے شرمندگی سے جھکی ۔ مارنے والے بھی اپنے عمل پر شرمندہ ہی تھے وہ وقتی اشتعال تھاجو پچھتاوہ بن گیا۔ ظلم کرنے کے بعد ظالم پچھتانے لگے، معافی مانگے ، اپنے ظالم ہونے کا اعتراف کرے ، منصف کی دی سزا قبول کرنے کا عندیہ ظاہر کرے تو منصف بھی مہربان ہو جایا کرتا ہے۔ اس بار منصف خود انسان کا خالق تھا۔ جس نے انسان کو بناتے ہوئے فرشتوں کے اس قول کو پسند نہیں کیا تھا کہ یہ خود اپنے ہی بھائیوں کا خون بہائیں گے۔ مگر بھائی نے بھائی کا خون بہا دیا تھا۔ قابیل ہابیل کو قتل کر کے دنیا پر پہلی جنگ برپا کر چکا تھا۔ اس وقت ایٹم بم تو موجود نہیں تھا مگر چار لوگوں کی بستی میں ایک جنگ کی نذر ہو چکا تھا۔یہ پچھتاوہ پورے ایک سو تیس برس تک رہا ۔ خالق نے شیت عطا کر کے ابو البشرکی دلجوئی کی۔اللہ نے قابیل سے بدلہ لیا نہ آدم ہی نے اپنے لاڈلے بیٹے ہابیل کے مار ڈالنے پر قابیل کی موت مانگی ۔ ہابیل کی ماں نے بھی بدلے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔

انسانیت کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں غلط عمل صرف دو ہیں ۔ ایک دنیا پیدا کرنے والے خالق کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا لینا ، حضرت لقمان کے بارے میں خدا کا فرمان ہے کہ ہم نے اسے حکمت عطا کی تھی ۔ اس حکیم شخص نے اپنی اولاد کو نصیحت کی تھی ْ بیٹا خدا کے ساتھ شرک نہ کرنا ، شرک سب سے بڑا ظلم ہےْ ۔ حضرت ابراہیم و یعقوب کی اپنی اولادوں کو اسی طرح کی نصیحت کتابوں میں مذکور ہے ۔خدا نے اٹھارہ عظیم و برگزیدہ اشخاص کا ذکر کے بتایا کہ اگر یہ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال برباد ہو جاتے۔

دوسرا غلط عمل بے انصافی ہے۔یہ ایسا کریہہ عمل ہے جو بغاوت، انتقام، حسد اور بد امنی کو جنم دیتا ہے ۔ آج کے دور میں موجود ہشت گردی کا منبع بھی بے انصافی ہی ہے۔ ہر معاشرہ اور ملک اپنے عوام کو انصاف مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ملک ، معاشرے، خاندان اور افراد کی زندگی میں امن رہے۔ انسان حکمت کے اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں انصاف کی اہمیت کا اسے ادراک ہو چکا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ہر ملک میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدالتیں فعال ہیں۔

عدالت کسی قصبے کی ہو، بڑے شہر کی یا پوری دنیا کے معاملات پر فیصلے کرنے والی۔ اس میں یہ تو ممکن ہے کہ سو فی صد انصاف مہیا نہ ہو سکے ۔ کیونکہ منصف فیصلہ اپنے دماغ سے کرتے ہیں اور ہر انسان کے دماغ کی سوچ کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ اس امر کا اندازہ ایک تاریخی واقعے سے ہوتا ہے ۔ حضرت داود کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا۔ دعویٰ دار ایک کھیت کا مالک تھا۔ اس کے کھیت میں رات کے وقت بکریاں داخل ہوئیں اور کھیت کی ساری فصل برباد کر دی۔ منصف نے کھیت میں ہونے والے نقصان کا مالی اندازہ لگوایا۔ یہ مالیت بکریوں کی مجموعی مالیت کے برابر تھی۔ حضرت داود نے بکریوں کے مالک کو حکم دیا کہ وہ کھیت والے کے نقصان کے بدلے اپنی بکریاں کھیت کے مالک کے حوالے کر دے۔ اس فیصلے پر ایک دوسرے منصف حضرت سلیمان نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا حکم کیوں نہیں دیتے جو انصاف کے قریب تر ہو ۔ اور بتایا کہ بکریاں کھیت والے کے حوالے کر دی جائیں وہ بکریوں کے دودھ اور اون سے مستفید ہو مگر بکریاں اس کی ملکیت میں نہ جائیں۔ بکریوں کا مالک اس دوران کھیتی میں زراعت کرے ، زراعت کو سیراب کرے اور جب زراعت اس نوبت تک پہنچ جائے ، جس نوبت پر بکریوں نے اسے تباہ کیا تھا۔ تو بکریوں والا کھیت کی زراعت حوالے کر کے اپنی بکریاں واپس لے لے۔یہ فیصلہ پہلے فیصلے کی نسبت انصاف کے قریب تر تھا۔ دونوں منصف اس فیصلے پر متفق ہو گئے۔

عدالتوں میں مقدمہ پیش کرنا اور اس پر اپنے مدلل کلام کے ذریعے اثر انداز ہونے کا ذکر سیرت کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ مگر بنیادی بات یہ ہے کہ جب کوئی مقدمہ عدالت میں پیش ہو اس پر کسی فریق کو یہ شکائت پیدا ہونا تو ممکن ہے کہ اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کیا گیا مگر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کہ مظلوم کی شکائت سنی ہی نہ جائے اور اس کو انصاف مہیا کرنے ہی سے انکار کر دیا جائے۔سابقہ وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب کے پنامہ کیس کے بارے میں کچھ لوگ یہ تو کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ سو فی صد انصاف نہیں کیا گیا مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عدالت نے ان کے مقدمے کو سنا ہی نہیں ہے۔ ۱۹۶۹ میں اسلامی ممالک کی تنطیم کے قیام کے بعد جب مسٗلہ فلسطین کو اقوام عالم کی عدالت میں لایا گیاتو اس فیصلے پر اکثر مسلمانوں کو اعتراض ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اقوام عالم نے مسٰلے کو سنا۔ اس پر غور کیا اور ایک قرار داد منظور کی۔ یہ گلہ کسی کو بھی نہیں ہے کہ بات سنی نہیں جاتی یا انصاف نہیں کیا جاتا مگر انصاف کے معیار پر تنقید کی جاتی ہے۔ کم معیار کا انصاف بھی گلے شکوے دور کرنے میں مددگار ہی ہوتا ہے۔ اعلی معیار کا انصاف اعلی معیار کا امن قائم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

جب پاکستان کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ سیاسی طور پر زندگی اور موت جیسے حالات تھے قائد اعظم نے اپنا مقدمہ اس مدلل انداز سے پیش کیا کہ گاندہی اور نہرو ہی نہیں لارد مونٹ بیٹن سے لے کر برطانوی وزیر اعظم تک ان کے دلائل کو رد نہ کر سکے اور پرامن طور پر ایک نئی مملکت معرض وجود میںآ گئی۔ مگر وجود میں آنے کے اعلان کے ساتھ ہی ایسی قتل و غارت شروع ہوئی جس کو قائداعظم اور
مہاتما گاندہی بھی بند نہ کراسکے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا مقدمہ کئی دہائیوں تک لڑا گیا مگر قائد اعظم نے پاکستان بنا کر یہ سبق بھی دیا کہ سچے مقدمے کو لڑنے کے لیے بھی قابلیت اور سلیقہ اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
بر صغیر میں ۱۹۴۷ میں انسانی خون سے جو رنگین ہولی کھیلی گئی۔ شیطانی اور انسانیت دشمن قوتیں وقفے وقفے سے اس عمل کو دہراتی رہی ہیں۔ ہندو اورمسلم کش فسادات کے بعد یہ کام پاک و ہند کے مابین جنگوں کی صورت میں جاری ہے۔۱۹۴۸ کی جنگ میں کشمیر کا کچھ حصہ کھو جانے کے بعد ۵۶ میں پورے کشمیر کو چھین لینے کے لیے ۵۶ کا معرکہ برپا ہوا۔ اکہتر میں بتایا گیا یہ ۵۶ کی جنگ کا بدلہ ہے۔ بلوچستان کی بد امنی کا ڈانڈےخالصتان سے جا ملتے ہیں۔ کارگل کے بدلے سرجیکل سٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔سرجیکل سٹرائیک کا بدلہ پلوامہ کہا گیا۔ پلوامہ کا بدلہ دو جہاز گرا کر اور ایک ہوا باز کو قیدی بنا کر لیا گیا ۔ بدلہ لینا انسان کی جبلت میں شامل ہے مگر اللہ اور اس کے بندوں سے رحمت العالمیں کا لقب پانے والے نبی نےبدلہ کی بجائے قصاص کو رواج دے کرانسانیت کو ایک نئی راہ دکھائی اور اللہ تعالی نے بدلے سے دستبردار ہونے کو بڑی بات قرار دیا

الہامی کتابوں میں جو جنگوں کے واقعات کا ذکر ملتا ہے ان میں یمن کی ملکہ بلقیس کے الفاظ قران نے نقل کرتے ہوئے اس تباہی اور بربادی کا ذکر کیا ہے جو جنگیں معاشروں پر مسلط کرتی ہیں کہ معیشت تباہ ہو جاتی ہے اور با عزت لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں۔ انسان بلقیس کی اس جسارت پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب اس کے جرنیل اس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرا چکے تو اس نے اپنے عوام کو امن دینے کا فیصلہ کیا ۔ قران نے بلقیس کے واقعے کو بیان کر کے حکمرانوں کو مشکل فیصلے کرنے کی ترغیب دی ہے وقتی طور پر مشکل فیصلے بڑی کامیابی کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کا مشکل فیصلہ اس کی مثال ہے

پائیدار اور مشکل فیصلے وقتی طور پر شکست دکھائی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں واجپائی کو بزدل اور نواز شریف کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑہانے کے طعنے دیے گئے۔ مودی کو جب وہ نواز شریف کی سالگرہ پر لاہور آیا تو بھارت میں اس پر پھبتیاں کسی گئیں۔ پاکستان میں مشرف کے کارگل کے کارنامہ کو پاکستان کی ایسی فتح بنا کر پیش کیا گیا جیسے اس نے پورا بھارت فتح کر لیا ہو۔ نواز شریف کی امن کی خواہش کو مودی کا یار کہہ کرطعنہ بنا دیا گیا مگر وقت نے ثابت کیا دو جوہری طاقتوں کے مابین امن کی خواہش زندگی اور انتقامی نعرے انسانیت کی بربادی ہے ۔

بر صغیر میں ۲۶ جنوری کے بعد کنٹرول لائن کے دونوں اطراف امن کی خواہش ایک امید بن کر اٹھی ہے۔ پاک و ہند میں موجود امن پسندوں، انسانیت کے دوستوں، محبت و آشتی کے مبلغوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس خواہش کو امن کے بیج کی طرح اس کی کاشت کریں ، جب ننھی کونپلیں نکلیں تو اس کے گردآگاہی اور دلائل کی مضبوط باڑھ لگائیں، یہ آسان کام نہیں ہے مگر ممکنات میں سے ہے۔

ہماری حکومت نیا پاکستان بنانے کی دعویدار ہے ، اس نے کئی درجن مسلح گروہوں کو نابود کر دینے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے حکومت کی پشت پر ہیں۔ حکومت کو پاکستان کے امن پسند، محب وطن، امن کا مقدمہ مدلل طور پر لڑنے کے اہل شہری اپنی پشت پر کھڑے ملیں گے البتہ اندرونی حالات بہتر کرنے کے لیے ان لاوڈسپیکروں کی بیٹری نکالنے کی ضرورت ہے جو اپنی ساری توانایاں پاکستانیوں کو غیر ملکی ایجنٹ اور وطن دشمن ثابت کرنے پر صرف کرتےہیں ۔ ایک وقت تھا کفر کا فتوہ استعمال کیا جاتا تھا اس کی جگہ غدار کا لفظ استعمال کر کے سیاسی مخالفیں سے اپنے بغض و حسد کی تسکین کی جاتی ہے۔ ہم نے اکہتر میں اس رویے سے نقصان اٹھایا ہے

۴۸ سے لے کر بھارتی ہوا باز کہ رہائی تک تمام جنگوں اور معرکوں کے ڈانڈے کشمیر سے ملتے ہیں۔ کشمیر کو نہ بھارت ہڑپ کر سکتا ہے نہ پاکستان چھین سکتا ہے۔ اس خونی لکیر کے آرپار ستر ہزار انسانوں کا خون بہہ چکا ہے۔ اس مسٗلے نے آخر کار بات چیت سے حل ہونا ہے۔ کشمیری جان کی بازی لگا کر بھی اور پاکستان اپنے وجود کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنا نقطہ نظر اقوام عالم کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہے۔ ہمیں اپنی ان خامیوں پر قابو پانا ہوگا۔ فیصلہ میز پر بیٹھ کر ہو یا کسی عدالت میں ہمیں یہ مقدمہ لڑنے کے لیے سیاستدانوں کو موقع دینا ہوگا۔ عدالت کوئی بھی ہو جانبدار نہیں ہوا کرتی ۔ مقدمہ جیتنے کے لیے مضبوط دلائل کے ساتھ ساتھ دلائل پیش کرنے کا سلیقہ بھی ایک مقام رکھتا ہے۔ ہمارے دلائل اگر دنیا سمجھ نہیں پا رہی تو ہم دنیا کو اپنا موقف سمجھا بھی نہیں پا رہےہیں ۔ ہمیں مقدمے کے لیے اپنے وکیل ہی نہیں پیش کرنے کا سلیقہ بھی تبدیل کرنا ہو گا۔ بہتری کے لیے ہمیں اعتراف کا کڑوا پیالہ پینا ہی ہو گا ۔ ہمارا مقدمہ حقائق پر مبنی ہے، ستر ہزار جانوں کی قربانی، دو جوہری طاقتوں کا آمنے سامنے ہونا، اور کشمیریوںکا ہر فورم پر سینہ سپر ہونا، ایسے حقائق ہیں جن کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا

گھر کی صفائی شروع کر ہی دی گئی ہے تو سیاسی اختلافات، قانونی بے انصافیوں اور حکومتی جبر کے تاثرات کو بھی دھو ڈالنے کا یہی موقع ہے۔ یہ بات وقت نے سچ ثابت کر دی ہے کہ پاکستان کو خطرہ کسی بیرونی طاقت سے نہیں اندرونی طاقت ور عناصر سے ہے۔ اندرونی عناصر کو نابود کرنے کی بجائے ان کو رواں دھارے میں شامل کرنے کے لیے بات چیت ہی بہتر اور کامیاب کوئی لائحہ عمل ثابت ہو گی۔

ابن آدم کی برپا کردہ پہلی جنگ نے چار مین سے ایک کو نگل کر چوتھائی انسانیت کو ختم کر دیا تھا۔ اب انسان کےپاس ایسے مہلک ہتھیارموجود ہیں کہ جنگ کی صورت میں چوتھائی انسانوں کا بچ جانا بھی معجزہ ہی ہو گا۔

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 150518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.