جنگ مسائل کا حل نہیں۔۔مودی سرکار ہوش کے ناخن لے

بڑی بڑی جنگوں کے بعد اقوام مل بیٹھنے پر مجبور ہوجاتیں ہیں یہی تاریخ ہے اور یہی حقیقت بھی ،کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں ،مسائل کا حل صرف مذاکرات میں ہی تلاش کرنا ممکن ہے، پاکستان معاملات کی احساسیت کوجانچتے ہوئے بارہا بھارت کو مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے ، مگر بھارت ہے کہ سر سے جنگی جنون اُترنے کا نام نہیں لے رہا ۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر بھارت قبضہ جمائے بیٹھا ہے ،پاکستان کے پانی پر وہ بلاجواز مسلط ہے ،پاکستان میں تخریب کاری میں بھی وہ عملاً براہ راست ملوث ہے ۔مطلب بھارت کی جانب سے جنگ کسی خطے یا حقوق کی نہیں فقط مفادات کی جنگ ہے، اور یہ مفادات ہیں خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے، اور بھارت کی موجودہ اندرونی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بات کریں تو آئندہ الیکشن میں شکست سے دوچار ہوتے مودی اپنی الیکشن مہم کو کامیاب کرنے کیلئے سرحدوں پر صورتحال کو مزید سے مزید بھڑکانا چاہتے ہیں۔یہاں یہ بھی غورطلب بات ہے کہ جنگیں گلیوں بازاروں میں خون بہانے کے علاوہ معاشی اور اقتصادی بدحالی کا سبب بنتی ہیں ۔تو اس میں مفادات کہاں رہ جاتے ہیں ؟صرف چند دن کاجنگی ماحول بھارتی معیشت پر جس بُر ے انداز میں اثرانداز ہوا ہے کسی ڈھکا چھپا نہیں،بھارتی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور غیرملکی سرمایہ کاروں یہ موقف اپناتے ہوئے صرف 3 دن کے اندر اندر بھارت سے کھربوں روپے کا سرمایہ نکال لیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ملک میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتے جہاں جنگ کا ماحول ہو۔ بھارت کی دراندازی ،جارحیت، چڑھائی جیسے پالیسی نے ایک طرف اگر تمام پاکستان کو بھارت کے خلاف یک زبان کر دیا ہے تودوسری طرف خود مودی سرکار کیلئے زہر قاتل کے مترادف ہے۔اور یوں بھارت کی 21 اپوزیشن جماعتوں نے مودی پر فوج کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا الزام عائدکر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے موجودہ صورتحال کا ذمہ دار بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو قرار دیا۔اپوزیشن جماعتوں کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مودی نے اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا اور اپنے طور پر پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے نکل پڑے۔جبکہ بھارتی عوام بھی نریندر مودی کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور سوشل میڈیا پر جنگ کے خلاف ہیش ٹیک ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔ادھر پاکستان مسلسل امن کی بات کر رہا ہے پہلی دخل اندازی پر تحمل کا مظاہرہ کیا مگر دوسری دراندازی کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی ،گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ اب ہم یہاں سے کہاں جائیں گے، اس لیے بھارت سے کہتا ہوں کہ یہاں عقل اور حکمت کا استعمال بہت ضروری ہے، دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں سب جنگوں میں غلط اندازے لگے، کسی نے نہیں سوچا کہ جنگ شروع کرکے کدھر جائیں گے، پہلی عالمی جنگ مہینوں کے بجائے سالوں میں ختم ہوئی، دوسری جنگِ عظیم میں بھی ایسا ہوا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اسے 17 سال افغانستان میں پھنسے رہنا پڑے گا۔وزیراعظم کا کہنا تھا دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں، بھارت سے سوال ہے کہ جو ہتھیار آپ کے اور ہمارے پاس ہیں کیا ہم غلط اندازے برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا ہمیں اس وقت سوچنا نہیں چاہیے کہ اس وقت جو بڑھاوا ہوگا تو بات کہاں جائے گی؟ پھر یہ نہ میرے اور نہ مودی کے کنٹرول میں ہوگی۔عمران خان نے کہا کہ بھارت کو پھر سے دعوت دیتا ہوں، ہم پلوامہ واقعے کی تحقیقات کے لیے تیار ہیں، ہم بات چیت چاہتے ہیں اور دہشت گردی پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں، اس وقت ہمیں بیٹھ کر بات چیت سے مسئلے حل کرنے چاہئیں۔جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی افواج کے پاس صلاحیت، طاقت اور عوام کا ساتھ، ہر قسم کی چیز موجود ہے، ہم ذمہ دار رہنا چاہتے ہیں اور جنگ کی طرف نہیں جانا چاہتے، اگر آپ کہتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو تعلیم، صحت اور روزگار دینے کی ضرورت ہے تو پھر بات چیت کریں کیونکہ جنگ مسئلوں کا حل نہیں، دنیا میں کوئی مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہوا، بھارت کو چاہیے ہماری پیشکش پر ٹھنڈے دل سے غور کرے اور دیکھے ہم کہاں جانا چاہتے ہیں۔ہمیں ریاستِ پاکستان، حکومتِ پاکستان اور ایک باصلاحیت افواج کے طور پر امن کا پیغام دینا ہے، ہم نے پیغام دیا ہیکہ صلاحیت ہونے کے باوجود ہم امن کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں، اگر ہم پر جارحیت نافذ کی گئی تو ہم جواب دیں گے۔بہرحا ل وزیراعظم پاکستان کے تقریر کے بعد بھارت سرکار نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پلوامہ واقعہ کی تحقیقات کی پاکستانی پیشکش قبول کر لی اور ڈوزیئر پر مبنی تحقیقاتی تقاضا سفارتی طور پر پاکستان کے حوالے کر دیا ،جو بظاہری طور پر اس بات کی عکاس ہے کہ برف پگھلنے لگی ہے ،مگر اگر ماضی کو دیکھا جائے کہ اس قسم کی تحقیقاتی عمل میں بھارت نے بعدازاں ہمیشہ فرار کا راستہ ہی اختیار کیا ہے ، ممبئی حملے میں پروپیگنڈے کے سوا تحقیقاتی عمل میں بھارت غائب رہا۔اُس تناظر میں بھارت سے اچھے کی امید ابھی نہیں کیونکہ کوئی باقاعدہ بھارت حکومت کا موقف یا بیان سامنے نہیں آیا۔یہی وجہ ہے حالات کو بھاپنتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے مزید حرکت کا خدشہ موجودہے ۔ تاہم ہم پاکستان کے دفاع کیلئے پوری طرح سے تیار ہیں۔ پاکستان کی طرف عقل و حکمت اور بھارت میں جہالت اور جنگ کی بات ہورہی ہے، بھارتی میڈیا اپنی سیاسی، فوجی اور انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے، وزیراعظم پاکستان اپنی تقریر میں دنیا کو اشارہ دے چکے ہیں کہ اس خطے میں قیامت صغریٰ آئی تو اس کا ذمہ دار بھارت ہوگا،پاکستان امن کیلئے اپنی حصے کی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے اب عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو مداخلت کرتے ہوئے اس سے پہلے بھارت کا جنگی جنون خود بھارت اُس حالت زار پر پہنچا دے جہاں کوئی اسکا پرسان حال نہ ہو، فوری طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت کومذاکرات کیلئے آمادہ کرے۔

Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 121 Articles with 117177 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More