گاڑی نئی انجن پرانا

وفاقی کابینہ کافی دنوں سے عالم نزاع میں تھی ،جان کنی کا مرحلہ بہت ہی جان لیوا ہوتا ہے،جان جاتے جاتے کافی دن لے گئی۔کون چاہتا ہے کہ اس کا ہوٹر اور پروٹوکول ختم ہو، اس کے جاہ و جلال میں کمی آئے، اس کی عیاشیاں اس سے چھین لی جائیں۔ لیکن کیا کریں کرسی کسی کی نہیں ہوتی،کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی، کسی کالحاظ نہیں کرتی۔کتنے ہی مضبوط کرسیوں والوں کا دھڑن تختہ ہوا،نہ ان کی کرسی سنبھلی اور نہ ہی وہ خود سنبھل سکے۔گردش ِ ایام کے جھمیلوں میں کسی نے جانے والوں کو یاد بھی نہیں کیا،ہماری موجودہ وفاقی کابینہ بھی چلی گئی، ان میں سے کچھ تو یقیناً اپنی ’اعلیٰ کارکردگی‘کی بنا پر مزید کچھ عرصہ کے لئے کرسی پر قابو پالیں گے ، مگر کئی اپنی خاص کوتاہیوں کی وجہ سے دوبارہ قوم کی خدمت پر بحال نہیں ہوسکیں گے، اب قوم ان کی خدمات سے محروم ہوجائے گی۔

کابینہ میں تبدیلی کی ایک وجہ تو مولانا فضل الرحمان کا حکومت کو داغِ مفارقت دے جانا ہے،ان کی وزارتوں سے پیدا شدہ خلا بھی پر کرنا تھا ، اور میاں نواز شریف نے بھی حکومت کو بہتری کے لئے الٹی میٹم دیا ہوا ہے ، اس کو بھی حکومت نے مدنظر رکھا ہوا ہے ، اس کے تحت بھی انھوں نے اپنے اخراجات میں کمی کرنی ہے۔ اب دیکھیں نئی کابینہ کتنے افراد پر مشتمل ہوتی ہے ، اور اس میں کون کون سے شفاف لوگ سامنے آتے ہیں اور کون کون سے داغدار کردار والے وزراء فارغ ہوتے ہیں ، ممکن ہے اس کالم کی اشاعت تک نئی کابینہ کی پہلی قسط معرض وجود میں آچکی ہوگی۔

کابینہ کے آخری اجلاس میں جب دو مستقل اور پکے وزیروں بابر اعوان اور قمرالزماں کائرہ نے کابینہ کو اپنے اپنے اسیعفے پیش کرنے کے لئے کہا گیا تو ایک وزیر صاحب سخت ناراض ہوئے، انھوں نے کہا کہ آپ کوئی فوجی ہیں جو ہم سے استعفے طلب کر رہے ہیں، انہیں بتایا گیا کہ ہم فوجی نہیں ہیں بلکہ حوالدار ہیں۔ تاہم ایک اخبار نے یہ خبر یوں شائع کی کہ وفاقی کابینہ رضاکارانہ طور پر مستعفی ،ایسی رضاکاریوں کا کس کو علم نہیں۔تاہم اپنی مرضی کے مطابق مستعفی ہونے والے وزراء ناراض اور مایوس ہوکر ہی روانہ ہوئے، ’نکلنا خلد سے آدم کا ‘ بعض وزراء کا اس قدر موڈ خراب تھا کہ وہ الوداعی تصویر بنائے بغیر ہی چلے گئے۔ کابینہ کی رخصتی کے ضمن میں ایک اور بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جس روز کابینہ کو نو دو گیارہ کیا گیا ، اس روز تاریخ بھی نو دو گیارہ ہی تھی ، یعنی دو فروری 2011ء۔

خبر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے انجام کو پہنچنے والی کابینہ کے ارکان کو خراج تحسین بھی پیش کیا ، ”ہم نے مشکل حالات میں اقتدار سنبھالا،تین سال کے دوران کئی تاریخی فیصلے کئے (ان تین سالوں میں سب سے اہم اور تاریخی فیصلہ خود یہ کابینہ کی تحلیل کا ہے)قوم کو چیلنجز سے کامیابی سے نکالا، کابینہ کے 77فیصد فیصلو ں پر عمل درآمد ہوا“ خراج تحسین میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آپ لوگوں کی وجہ سے ہماری بدنامی ہوئی،آپ کے کردار کی بنا پر ہی ہمیں یہ مشکل فیصلے کرنے پڑے، آپ کی سرگرمیوں کی وجہ سے ہم اس مقام کو پہنچے۔خراج ِ تحسین کی خبر بذات ِ خود مضحکہ خیز ہے،کہ جن لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت یہاں تک پہنچی ، وزیراعظم انہی کو خراج ِ تحسین پیش کررہے ہیں۔اگر قوم کو چیلنجز سے نکالا تھا تو پھر کابینہ کو تحلیل کرنے جیسے چیلنج کاسامنا کیوں کرنا پڑا؟کابینہ کے 77فیصد فیصلو ں پر عمل کی بات بھی قابل گرفت ہے ، کہ آخر باقی 23فیصد فیصلوں پر عمل کے راستے میں کیا رکاوٹ تھی ، کیا کابینہ اتنی ہی بے اختیا رتھی کہ اپنے فیصلو ں پر عمل کروانے میں بے بس تھی۔

آخری اور اہم ترین بات یہ کہ ٹرین کی 70بوگیوں میں سے کچھ تبدیل کی جارہی ہیں ، کچھ یہی رہیں گی۔مگر انجن وہی رہے گا،جس گاڑی کا انجن ہی گڑ بڑ ہو ، اس پر کیا بھروسہ ،جو انجن خود بھی مجموعہ اضداد ہو وہ گاڑی کو کیسے تیز رفتاری اور حفاظت سے کسی منزل کی طرف لے جاسکتا ہے؟اور جس گاڑی کی کوئی منزل ہی نہ ہو، اس کے سفر پر اظہار ِ ہمدردی ہی کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ انصاف کی کونسی قسم ہے کہ وزیراعظم خود اپنے منصب پر قائم رہیں اور اپنے دیگر معاونین کو نااہل قرار دے کر فارغ کردیں، اگر یہ نااہلیت نہیں، بچت پروگرام ہے تو قوم کو بتایا جائے کہ وزیر اعظم نے خود اپنی ذات کی حد تک کتنی بچت شروع کی ہے، عیاشیوں میں کس قدر کمی کا اعلان کیا ہے ، اپنی اقربا پروری (کہ یہ ان کا پرانا شوق ہے)کو کتنا کم کیا ہے،کونسی ایسی اصلاحات کیں ہیں جو آنے والی حکومتیں بھی جاری رکھنے پر خود کو مجبور پائیں گی۔اگر جاتے تو سب ہی جاتے ، سربراہ اگر وہی ہے جس کے ہوتے ہوئے کابینہ کوئی کارِ نمایا ں نہیں کرسکی تو اسی سربراہ کے ہوتے آنے والی کابینہ کونسی آسمان میں پیوند کاری کر لے گی۔ جو تیر سابقہ کابینہ نے چلایا ہے ، وہی آنے والی کابینہ چلائے گی ۔ ان تبدیلیوں سے بھلا بھلائی اور بہتر ی کی کیا توقع۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430417 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.