غنڈہ بریگیڈ یا پولیس

کہتے ہیں جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے مگر شاید بے حس اور بے غیرت لوگ اس کو جھٹلانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں سانحہ ساہیوال میں ملوث قاتلوں کی پشت پر حکومتی سرپرستی اس بات کا ثبوت ہے کہ مدینہ کی ریاست کا خواب ابھی تعبیر ہونے میں مزید وقت درکار ہے ،سانحات جب رونماہوتے ہیں تو حکومتی ادارے ،قوم اور عدلیہ پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں مگر جب اِن سانحات پر سیاست ہو معاملات کو بالاِطاق رکھا جانے لگے تو پھر یاد رکھیں الزامات ،منفی ذہنیت اور المناک واقعات رونما ہوتے ہیں ہم گزشتہ کئی عرصوں سے سانحات کا شکار ہیں کبھی میر مرتضی بھٹو کی صورت ،کبھی اکبر بگٹی ،کبھی نقیب اﷲ محسود ،کبھی انتظار حسین قتل تو اب سانحہ ساہیوال اس حادثے نے کسی کی روح کو جنجھوڑا ہو یا ہو مگر ملک خداداد کی عام عوام ضرور جاگ گئے ہیں مگر کیوں ہم سانحات پر جاگتے ہیں آج تک سمجھ سے بالاتر ہے ۔

پولیس کی بے حسی اور عوامی ردعمل سے ایک بات بلکل واضح ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ بھانپ لیا ہے وہ آزاد ہیں خواہ کسی کو کہیں بھی کسی بھی اور کیسے بھی قتل کرنے کا جواز رکھتے ہیں تھوڑا طاقتور ہو تو ایف آئی آر درج کردیتے ہیں اور غریب عا م سا آدمی ہو خاص صاحبان کوبرالگتا ہے تو اٹھا بھی لیا جاتا ہے اور قتل کر کے دہشت گرد کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے جس کا نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ دیکھنے والا ،سانحہ ساہیوا ل میں بیانات تو کئی بار تبدیل ہوئے مگر ایک بات غور کرنے یہ تھی کہ ہم انتہائی مطلوب اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو تو گرفتار کرلیتے ہیں مگر ایک عام سا نام نہاد دہشتگرد جس پر صرف الزام لگایا گیا اس کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں اور جب وہ اپنی پوری فیملی یا گھرانے کے ساتھ تھا جس میں بچے بھی تھے اور خواتین بھی ،،، گرے سے گرا معاشرہ بھی خواتین اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے کہ وہ محفوظ رہیں مگر ہماری پولیس اور اس کے ذیلی ادارے جنگل میں رہنے والے جانوروں سے بھی بدتر ہیں جو زخمی جانور پر حملہ نہیں کرتے مگر یہاں تو نہیتے خاندان کو ہی ابدی نیند سلادیا گیا اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں تھا یہ ہمارے نظام کی نااہلی ہے یا حکومتی سرپرستی بہت جلد پتہ لگ ہی جائے گا کیونکہ معاشرے کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر انصاف کے بنا نہیں ۔۔
سندھ پولیس ہو یا پنجاب پولیس دونوں نے گزشتہ سال ہزاروں آپریشن کیے کچھ کامیاب ہوئے اور کچھ ناکام بھی ہوئے ہونگے مگر اب سانحہ ساہیوال کے بعد ان آپریشنز پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے کہ وہ تمام لوگ جو آپریشن میں قتل کیے گئے دہشت گرد تھے یا پولیس کی ذاتی جپقلش کا نتیجہ ؟ سانحے نے جہاں سوالات کو جنم دیا ہے وہیں پولیس اور عوام کے درمیان فاصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے ،مہذب دنیا ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے عدالتی کارروائیاں کی جاتی ہیں مگر ہماری عدالتی کہانی ہو یا حکومتی ایک ہی سا نمونہ پیش کرتیں ہیں ،نقیب اﷲ محسود کا قتل آج تک عدالت کے چکر کاٹ رہا ہے تو وہیں انتظار قتل کیس آج بھی انصاف کے انتظار میں ہے جہاں والدین اپنے بچوں کے انصاف لیے آج بھی ٹرپ رہے ہیں مگر عدالتیں اور حکومتیں صرف دلاسے دے رہی ہیں نہ ملزمان کو گرفتار کیا گیااور نہ ہی کوئی سزا ملی ۔

واپس کیس کی طرف آؤں جہاں صرف سوالات کی ایک کتھی ہے جبکہ جواب نامعلوم ہے سانحہ کی ایف آئی آر دو طرفہ ہیں سی ٹی ڈی مقتولین کے خلاف درج کی ہے جبکہ لواحقین نے سی ٹی ڈی کے خلاف، مگر ستم بلائے ستم یہ ہے کہ ملزمان کواس ایف آئی آر میں بھی نامعلوم رکھا گیا ہے جو اس قبل گزشتہ تمام مقدمات رہے ہیں اب بھلا کوئی پنجاب پولیس سے پوچھے کیا مقابلوں میں نامعلوم افراد اور سادہ لباس اہلکار حصہ لیتے ہیں یاجن کے نام معلوم ہوں وہ؟ وزیراعظم اور ان کے وزیروں ،مشیروں نے جے آئی ٹی تو شکیل دے دی ہے مگر یہ کیوں دھیان نہیں گیا کہ اب تک کتنے کیسوں کی جے آئی ٹی عوام کے سامنے لائی گئی اور کتنوں کو سزا دی گئی کہاں ہیں وہ ملزمان جو تختہ دار کو جھولے تو شاید جواب آئے گا ہماری حکومت نہیں تھی ۔

اب احوال جو پولیس نے سانحہ ساہیوال میں انجام دیا سی ٹی ڈی پولیس کی جانب سے ایک گاڑی پر فائرنگ کردی گئی جس میں معجزاتی طور پر تین بچے محفوظ رہے البتہ چار افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے جبکہ پولیس کے اعلیٰ اہلکار بچوں کو ایک پیٹرول پمپ پر چھوڑ کرفرار بھی ہوگئے جس میں ایک بچہ زخمی تھا میڈیا پر خبر چلی تو سی ٹی ڈی کی دوڑیں لگ گئیں بچوں کو اسپتال پہنچایا گیا اور پھر کیا تھا سوالات اور پولیس کی کارکردگی کا جب پول کھولناشروع ہوا تو بیانات کی بارش ہوگئی کبھی موقف اختیار کیا گیا کہ دہشت گرد تھے ،کبھی ان کو اغواء کار بنایا گیا مگر معاملہ ٹھہرا جب اعلیٰ پولیس اہلکار کی جانب سے خود آکر یہ کہا گیا کہ مقتول دہشت گرد تھا جس کا تعلق عالمی دہشت گرد تنظیم داعش سے تھا ،یہ بیانات تھے پولیس کی جانب سے جنھوں نے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا نہ خواتین کی بس آندھا دھند گولیاں برسا دیں مگر زخمی بچے کا بیان کچھ یوں تھا کہ" میرے پاپا معافی مانگ رہے تھے اور پیسے دینے کا بھی کہا مگر انھوں ہم پر گولیاں چلادیں "اب اس بات کا اندازہ لگانا مشکل کام نہیں کہ پولیس کی کارکردگی کیا ہے۔

ان بیانات کو مدنظر ر کھا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر بگٹی ،نقیب اﷲ ،انتظار حسین اور اب یہ سانحہ ساہیوال ایک قسم کا ساخسانہ ہیں بس کراداروں کا فرق ہے تاہم پولیس ہر جانب ملوث ہے !اب کوئی بھلا بتائے ان اہلکاروں کو معطل کر کے کیا فائدہ سوال یہ ہے کہ کس کی جانب سے حکم دیا گیا اور کس کے کہنے پر سی ٹی ڈی نے کارروائی کی ۔۔

Moosa Ghani
About the Author: Moosa Ghani Read More Articles by Moosa Ghani: 22 Articles with 16690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.