ٹرمپ کا اوچھا وار

جب سے ٹرمپ نے امریکااورمودی نے بھارت میں اقتدارسنبھالاہے تب سے دنیابھرمیں آئے دن ان کی پالیسیوں سے چائے کی پیالی میں طوفان برپارہتاہے اورعالمی امن کے تلپٹ رہنے کااندیشہ زورپکڑتاجارہاہے۔افغانستان میں بری طرح پِٹ جانے اور''ڈومور''کی پرانی پالیسی پرعملدرآمد میں منہ کی کھانے کے بعدامریکی صدرٹرمپ اب نت نئے حربوں سے پاکستان پردباؤ بڑھانے کیلئے مبینہ کاروائیوں کوآزمانے کیلئے میدان کوگرم رکھنے کی بیماری میں مبتلاہے۔ایک طرف افغانستان کیلئے اپنے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ہاتھوں ایک مراسلے میں جہاں افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے امدادکی درخواست کررہاہے وہاں پاکستان کودباؤ میں لانے کیلئے ایک مزیدوارمذہبی آزادیوں کی صورتحال پراپنی رپورٹ میں خدشات ظاہرکرکے کیا۔امریکانے یہ رپورٹ 1998ءکے بین الاقوامی ایکٹ برائے مذہبی آزادی کے تحت مرتب کی۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکے مطابق اس حوالے سے پاکستان کوگزشتہ ایک سال سے واچ لسٹ میں رکھاگیاتھا۔ اس رپورٹ کے بنیادپرامریکاچاہے توپاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں بھی لگاسکتاہے اورچاہے تواس رپورٹ میں سے پاکستان کانام نکال کراسے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے زیردباؤبھی لاسکتا ہے۔مصیبت یہ ہے کہ مبینہ رپورٹ یااس طرح کی دوسری تمام امریکی یایورپی یونین یایورپی ممالک کی پاکستان کے بارے میں رپورٹس دباؤ کے حربے اور بلیک میلنگ کے طریقہ ہائے واردات ہیں۔

ایک مخصوص وقت پرایک ملک کی طرف سے کوئی آوازہ بلندکیاجاتاہے اورایک خاص نوعیت کی واچ لسٹ یارپورٹ میں پاکستان کانام شامل کردیا جاتاہے۔ اگرہم نے اسے مقامی طور طریقوں کے پیرائے میں سمجھناچاہیں تویہ ایک بعینہ ایک گھاگ جاگیردارکاطریقۂ واردات ہے جواپنے سامنے کسی کوسراٹھانے کی اجازت دینے کوتیارنہیں ہوتااورکمزورمخالفین یا ابھرتے ہوئے افراد کوجھوٹے مقدمات میں الجھاتارہتاہے تاکہ ان کی ساری توانائی،قوت اورسرمایہ انہی مقدمات کی پیروی اورصفائیاں پیش کرنے میں کام آتارہے۔یورپی یونین کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کا شکنجہ ہویاانسانی حقوق کے نام پرامریکی دام ہویااب سامنے والاپاکستان سے متعلق مذہبی آزادیوں کے بارے میں رپورٹ کی نئی واردات ہو۔ان سب کاایک ہی مقصدہے کہ کسی طرح پاکستان اوراس طرح کے تیسری دنیاکے دیگرممالک کودباؤ سے نکلنے اورسکھ کاسانس نہیں لینے دینابلکہ عالمی سامراج کے مکروہ جال کے شکنجے سے کبھی بھی کسی طریقے سے نکلنے نہ پائیں۔
ایک معتبرملک امریکااوراس کی بظاہر بڑے اہم موضوع پرسامنے آنے والی اس رپورٹ کوواردات کانام اس لیے دیاجانااس لئے جائزہے کہ اسے امریکاکی طرف سے جو''ٹیری جونز''ایسے مذہبی پادریوں اورجنونیوں کاملک ہے جہاں آزادیٔ اظہارکے سارے دعوؤں کے باوجودمسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن مجیدکونذرِآتش کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے مگرٹیری جونز نامی بدبخت اورملعون پادری کونہ توکوئی پوچھتاہے نہ اس کے چیلے چانٹوں کو،کہ امریکانے تودنیاکواپنا تعارف مجسمۂ آزادی اورانسانی آزادیوں کے حوالے سے کرارکھاہے۔اسے نئی امریکی واردات کہنا اس لئے بھی جائزہے کہ امریکاکاصدرڈونالڈٹرمپ ہے جواپنی تنگ نظری کی انتخابی مہم کے بل بوتے پروائٹ ہاؤس تک پہنچنے میں کامیاب رہاہے۔واقعہ یہ ہے کہ اگرٹرمپ ان منفی نعروں کی بنیادپرامریکی عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرتاتوآج کم ازکم وائٹ ہاؤس میں نہ ہوتا،ایسے وائT ہاؤس میں جس کی بنیادوں میں نسل پرستی ،وعدہ خلافی اورظلم وستم کاینٹ گاراہے،جس کاوائٹ ہاؤس کہلاناخودامریکیوں کے نسل پرستی پرگہرے یقین اوراس کے ساتھ اس مہذب دورمیں بھی گہری کمٹمنٹ پردلالت کرتاہے۔

اسی ٹرمپ کے آنے کے بعدہی کہیں پہلے اوباماکے دورِ صدارت میں بھی امریکاکی کئی ریاستوں میں سیاہ فام ،سفیدفامون کے ہاتھوں تشدداور گولیوں کانشانہ بنتے رہے تھے لیکن امریکی کانگرس نے یاکسی انسانی حقوق کے نام نہاددعویدارسینیٹرنے سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ آج بھی روارکھے جانے والے سلوک پرکوئی رپورٹ مرتب کرنے کا"انی شیٹو"لیا،حدیہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم نفرت آمیزنعروں سے ہی شروع کی اورمنتخب ہونے کے بعدبھی اپنی تعصب زدہ پالیسیوں میں مسلم ممالک کے شہریوں کوویزے جاری کرنے میں امتیازی قوانین پر عملدرآمدکرانے کی بھرپور عملی کوششوں میں مصروف رہا،اس حوالے سے سات ممالک ٹرمپ کے فوکس میں رہے۔اگر امریکاکے اس طریقۂ واردات میں تھوڑے سے شبہے کی بھی گنجائش ہوتی توامریکی کانگرس اوربہانے بازی امریکی انتظامیہ کی تھوڑی توجہ سوئٹزرلینڈمیں مساجدوں کے میناروں پرلگائی گئی پابندی ،ریفرنڈم میں ستاون فیصدآبادی کی حمائت کابھی ان نوبرسوں میں کبھی تونوٹس لیا جاتا اورکوئی توامریکی ادارہ ہوتاجواس ریفرنڈم کوسوئٹزرلینڈ کے اندرمذہبی آزادیوں سے متصادم اور عالمی سطح پرمذہبی تناؤ پیداکرنے کاموجب قرار دیتا، مگرایساکچھ نہیں ہوا۔

یورپی ملکوں میں مسلمان خواتین کے سکارف اوربرقعہ اوڑھنے پرپابندی کے حق میں نفرت انگیز مہم چلتی رہی،مسلمان خواتین کے مداخلت کیلئے یورپ کی غیرمسلم حکومتیں اورقانون ساز ادارے متحرک رہے لیکن 1988ءسے امریکامیں وجودپاچکنے والے مذہبی آزادی کے بین الاقوامی ایکٹ اوراس کے تحقیق کاراندھے اوربہرے بنے بیٹھے رہے۔مقبوضہ فلسطین اورمقبوضہ کشمیرکے علاوہ میانمارمیں مسلمانوں کے خلاف ظلم وجبر اوروحشت ودہشت کی بدترین مثالیں صبح وشام کے منظرنامے کاحصہ ہے لیکن انسانی اورمذہبی آزادیوں کے''جعلی لبادے''والے امریکاکوان امور پرجھنجھوڑنے کے بعدبھی بیدارکرنامشکل ہوتاہے۔

پاکستان میں مذہبی آزادیوں کے بارے میں امریکی خدشات پرمبنی رپورٹ اگلے دنوں میں امریکی دباؤاورایجنڈے کی آئینہ دارہے۔پاکستان میں انتشاروافتراق طویل عرصے سے امریکی پالیسی اور ضرورت کاحصہ ہے۔اس مقصدکیلئے وہ کبھی بھی لسانیت اورعلاقائیت کواستعمال کرتارہاہے اور اب پاکستان میں اقلیتوں کے نام نہادمسائل کواپنے مفادات کیلئے بروئے کارلانے کی سازش تیار کر رہاہے۔پاکستان نے کرتارپورسرحدسکھ برادری کیلئے ایک مثبت عندیہ کے طورپرکھولنے کااعلان کیاجس پربھارت نے روایتی حیلہ سازی آزمائی اورب ھارتی پنجاب اسمبلی میں ایک ایسی قرارداد منظورکروائی گئی جوبراہِ راست پاکستان کے جغرافیہ پراثراندازہونے کی سازش اورسکھوں کو پاکستان کے خلاف کرنے کی بیمارسوچ کامظہربھی ہے۔ایسے موقع پرپاکستان امریکی درخواست پرامریکاکے طالبان سے مذاکرات کرانے میں بھی کامیاب رہاہے۔امریکاکی اب یہ نئی واردات سرا سراحسان فراموشی اوربدنیتی پرمبنی ہے۔

امریکی اوریورپی سفارتکارپچھلے کئی ہفتوں سے اسلام آبادمیں بیٹھے قادیان تک اہل ربوہ کی رسائی کیلئے پریشان ہیں۔مذہبی آزادیوں سے متعلق اس امریکی رپورٹ کے بعدواضح خدشہ ہے کہ کرتارپوربارڈر کے کھولنے کے مثبت اقدامات کوامریکاقادیان کے حوالے سے اپنے ایجنڈے سے آلودہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ان دنوں میں اس کی یہ رپورٹ اس ثمرکادیباچہ سمجھاجانا چاہئے ۔یورپ اورامریکامیں پھیلے یہ قادیانی عناصرکافی متحرک ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثارکے حالیہ لندن کے نجی دورے میں بھاشا ڈیم کی تعمیرمیں فنڈریزنگ کیلئے کئی پروگرام منعقدکئے گئے جس میںایک انتہائی کامیاب پروگرام ''اورلڈاوورسیزکانگرس''محمدناہیدرندھاواکی سرپرستی میں منعقدکیاگیاجس میں ایک مشہور قادیانی نمائندے نے ایک خطیررقم کاچیک اس امدادی فنڈمیں دینے کی محض اس لئے کوشش کی کہ کسی طرح چیف جسٹس ثاقب نثارکی قربت حاصل کرنے اوران کے ساتھ تصاویربنوانے کے بعداپنے مقاصدمیں کامیابی حاصل کی جاسکے لیکن بروقت ناہیدرندھاواکی فراست نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیاتاہم اس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات کی لندن میں موجودگی کے دوران بھی لندن کے قادیانی بہت فعال اوران کے قریب رہے۔برطانیہ کے ریاستی وزیراورقادیانی اقلیت کے اہم عہدیدارطارق احمدکی اس موقع پرملاقاتیں بھی اہم رہیں لیکن اس سے پہلے امریکاجس کے سفارتکار قادیانی ایجنڈے کیلئے بالواسطہ بات کرنے اورپاکستانی میڈیاکی ذہن سازی کیلئے کوشاں رہتے ہیں، اب امریکی رپورٹ آنے کے بعدزیادہ فعالیت دکھاسکتے ہیں۔
اس پس منظرمیں اہلپاکستان کوبالعموم اورحکومتی عہدیداروں کے علاوہ ریاستی اداروں کے ذمہ داروں کوبالخصوص چوکنارہناہوگا کہ پاکستان کے آئین اورپارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہ کرنے والی قادیانی کیمونٹی امریکااوریورپ میں اپنی غیرمعمولی سرپرستیاورپشت پناہی کاناجائزفائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتی ہے خصوصاً جب یہ باتیں بھی مختلف سطحوں پرشروع ہو چکی ہیں کہ قادیانی اپنے حکومت وسیاست کے اندرغیراعلانیہ اثرات اور بیرونی دنیامیں کھلے رسوخ کوبروئے کارلانے کی کوشش میں ہیں تاکہ پاکستان کے آئین میں قادیانیوں سے ،تعلق ترامیم کوواپس کرسکیں ۔قادیانی میاں عاطف وغیرہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی تک نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے قادیانی پہلے سے زیادہ متحرک ہیں اورنجی محفلوں میں بڑے بڑے دعوے بھی کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ان کیلئے بہترین حکومت ہے۔

پاکستان میں تمام اقلیتیں قابلاحترام ہیں اورقانون وآئین میں ان کے حقوق واضح ہیں ۔پاکستانی معاشرے میں اتنی وسعت ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ اچھے برتاؤکااہتمام ایک دینی روایت کے اندازمیں جاری رکھے لیکن قادیانیوں کامعاملہ ان کی اپنی پیداکردہ وجوہ کی بنیادپرمختلف ہے۔قادیانی پاکستانی میں سب سے آسودہ اقلیت ہے۔اس کے متعلقین اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں تک پہنچتے ہیں لیکن قادیانی بطورکیمونٹی پاکستان کے آئین اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کوتسلیم کرنے پرتیارنہیں،اس کے باوجودانہیں پاکستان میں پوراتحفظ میسر ہے۔چناب نگر(ربوہ)میں توانہوں نے ایک طرح سے ریاست کے اندرریاست کاماحول بنارکھاہے حتیٰ کہ عدالت بھی اپنی قائم کررکھی ہے۔دیکھاجائے تویہ سہولت کسی بھی دوسری اقلیت تودرکنار عام مسلمانوں کوبھی حاصل نہیں ہے۔مخصوص میڈیامیں قادیانی عناصراگربراہِ راست نہیں توکم ازکم بالواسطہ کافی مؤثرہوچکے ہیں،اس لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ غیرملکی این جی اوزکے کورمیں قادیانیوں کے محافظ ،میڈیامیں پائے جانے والے خوشہ چینوں ،اہم سرکاری مناصب پرموجودحکام اور بڑی سیاسی جماعتوں میں قیادتوں کی سطح تک پائے جانے والے نرم گوشے کے ہوتے ہیں ۔اس قادیانی اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی کرسکے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں سے عام مسلمانوں اورریاست پاکستان اورآئین وپارلیمنٹ کی عزت بھی محفوظ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے میڈیایاحکومت کی سطح پرکبھی کسی نے قادیانیوں کے اس لاڈلے پن پرانگلی اٹھائی ہے نہ اس کوآئین قانون سے متصادم سمجھتے ہوئے روکنے کی بات کی ہے۔اسے تجاہل عارفانہ کہاجائے یاریاستی رٹ اورآئین وقانون کی بالادستی سے بے تعلقی ،مگریہ ایک حقیقت کے طورپر موجود ہے ۔اس پس منظرمیں یہ امریکی رپورٹ پرپاکستان کے دفترخارجہ کا امریکی سفارتی حکام کوطلب کرکے صاف صاف اوردوٹوک اندازمیں بتادیناکہ پاکستان میں تمام اقلیتٰں مکمل محفوظ ہیں اور اس سلسلے میں امریکی رپورٹ لایعنی وبے معنی اورسیاسی وجوہ کی بناء پرتیارکردہ رمضحکہ خیزپورٹ ہے۔نیز امریکاکو پاکستان میں مذہبی آزادیوں کے بارے میں لیکچردینے کی ضرورت نہیں ہے،بڑا ہی خوش آئند قدم ہے۔

پاکستانی دفترخارجہ کے دوٹوک مؤقف نے پاکستان کودباؤ میں لانے کی امریکی خواہشات کوبری طرح ناکام بنادیاہے لیکن اس کے باوجودہوشیاررہنے کی ضرورت ہے کیونکہ خطے میں امریکی ناکامیوں کے ماحول میں امریکااپنی لنگوٹ بچاکر بھاگنے سے پہلے اپنے لئے نئے امکانات اورآنے والے برسوں میں کام آنے والی سازشوں کاابھی سے آبیاری کا خواہشمند ہے۔ان مکروہ ضرورتوں کیلئے امریکاپاکستان میں قادیانی اقلیت کوبروئے کارلاسکتاہے ، خالصتاً تاج برطانیہ کے تسلط میں کاشتہ قادیانی پودابھی اپنے وجودکیلئے امریکی ویورپی سرپرستی کوازحد ضروری خیال کرتاہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کوبھی اپنی مصلحتوں سے بالاترہوکرسوچنے کی ضرورت ہے کہ محض امریکی اورغیرملکی حمائت کے حصول کیلئے پاکستان کے اندرہی پاکستان کے آئین وقانون اورپارلیمنٹ کے ساتھ قادیانیوں کے توہین آمیزسلوک کوکب تک برداشت کریں گے۔بلاشبہ یہ پاکستان کی ریاستی رٹ کوچیلنج کرناہے۔ پاکستان کی دینی جماعتوں کوبھی اپنے گروہی اورزاتی مفادات سے بلندترہوکر پاکستان اوراہل پاکستان کے اجتماعی وفکری مفادات کیلئے یکجان ویکجہت ہونے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔بصورت دیگرآئین کے ساتھ چھیڑچھاڑ امریکی دباؤ کے ذریعے ممکن ہوسکتی ہے۔

اسی طرح کرتارپورکے حوالے سے پاکستان کی ایک مثبت کوشش کوگدلاکرنے کی ہرکوشش ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔وہ کوشش خواہ امریکاکی طرف سے ہو،یورپی یونین کی طرف سے ہویابھارت کی طرف سے،کرتارپوربارڈرجس مقصدکیلئے بنیایااورکھولاجارہاہے ،اسے اسی حدتک رکھنے کیلئے سبھی کومل کرکام کرناہے۔اس قومی یکجہتی کے ماحول میں امریکی رپورٹ خودبخود''ریورس''ہوجائے گی،نیرامریکااوریورپی یونین سمیت برطانیہ کویہ پیغام بھی دیاجاسکے گاکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوئی بھی کوشش اب کامیاب نہیں ہوسکے گی،خصوصاًبدنیتی پرمبنی امریکی رپورٹس کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی۔ایک طرف امریکامقبوضہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر زیدالرعد حسین کی مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کے مظالم کے بارے میں آزادانی تحقیقات کی تجویزبھی قبول کرنے کوتیارنہیں ہے اوردوسری جانب امریکا پاکستان میں مذہبی آزادیوں کاجھوٹارونارونے کی کوشش کرتانظرآرہاہے۔یہ پاکستان کیلئے اب قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

اس حوالے سے پاکستان کے دفترخارجہ نے بروقت امریاکوجواب دیکرقابل تحسین اقدام کیاہے۔اہم ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کومذہبی پابندیوں کی خصوصی تشویشی فہرست سے مستثنی قرار دے دیا ہے۔امریکی وزیرخارجہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو مذہبی پابندیوں کی خصوصی تشویشی فہرست سے استثنٰی دے دیاجو کہ اس نے اہم قومی مفاد کے تحت کیا ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل امریکانے پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک کو مذہبی آزادی کے برخلاف کاروائیاں کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا تھاجس پرپاکستان نے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا۔پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ سے متعلق بیان مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیارکیاتھا کہ جیوری کی ساکھ اورغیر جانبداری پر سنجیدہ سوالات موجود ہیں کیونکہ پاکستان ایک کثیرمذہبی معاشرہ ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 317171 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.