خودہی مدعی،خودہی منصف

پچھلے پانچ برسوں سے عمران خان نے جس سیاسی جارحیت کاآغازکیا بالآخر اپنی انتھک محنت کے اقتدارکاہمااپنے سرپربٹھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور ان کے بیانات ہمیشہ سے جہاں بڑے دلچسپ رہے ہیں وہاں ان سے کبھی بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے بیانات سے یکدم ''یوٹرن''لینے میں لمحہ بھر کیلئے بھی کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے اوریہی حال ان کے ساتھیوں بالخصوص مرکزاورصوبہ پنجاب کے وزیراطلاعات اوراسمبلی میں ان کے ایسے جیالے بھی موجودہیں جن کے بیانات کوبالکل سنجیدہ نہیں لیاجاتابلکہ اب تووقت کاضیاع سمجھ کرخودان کیپرانے سیاسی ورکرسوشل میڈیا پردہائیاں دیتے ہوئے نظرآرہے ہیں لیکن عمران خان جب سے وزیراعظم کے منصب پر فائزہوئے ہیں ان کی تقاریر اور بیانات کی اپمیت بھی زیادہ ہوگئی ہے۔وہ کچھ بھی بات کریں میڈیاکیلئے اس کی اہمیت غیرمعمولی ہوجاتی ہے لیکن ان کے حالیہ بیان نے توسب کوچونکادیاہے۔

وزیراعظم عمران خان کے بقول ان کی حکومت کوپہلے دن سے ہی گرانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔انہوں نے افواہوں کوبھی عدمِ استحکام پیداکرنے کاحربہ قراردیاہے۔اس بیان کی فوری وجہ کیابنی یاوزیراعظم نے اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کاذکرکرناضروری کیوں سمجھااس کی کوئی وضاحت نہیں کی تاہم جس ماحول میں انہوں نے روایتی حکمرانوں والابیانیہ اختیارکرکے اپنی حکومت اورخودکومظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔وزیراعظم نے قوم کوجوپہلے سودن میں حکومت کی جس واضح ڈائریکشن اوراصلاحات کاجووعدہ کیاتھا وہ بھی بوجوہ کہیں نظرنہیں آرہیں تاہم ان کے وزیراطلاعات جوان دنوں ''فساد''کے لقب سے کافی شہرت حاصل کرچکے ہیں،ان کاکام صرف سیاسی مخالفین کردہمکانے اور ڈرانے اوراپنی حکومت کی ان دیکھی کامیابیوں کے سواشائداورکچھ نہیں اوراگرانہیں ان کے کسی اپنے پرانے بیان کی طرف توجہ دلائی دی جائے تو اس امرکوبھی بڑی آسانی کے ساتھ لیتے ہیں جس طرح انہوں نے اپنے سیاسی سفرمیں قلابازیاں کھانے میں لمحہ بھرتاخیرنہیں کی۔

اگرچہ یہ رائے رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے کہ سودن کسی بھی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں رائے قائم کرنے کوشش مناسب نہیں ہے ،اس لئے نئی حکومت کوپوراموقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے منصوبوں اوراہداف کے حصول کیلئے کافی کام کرسکے۔یہ رائے وزن رکھتی ہے مگر اس کاکیا کیجئے کہ عمران خان نے خودہی سودن کے بارے میں عوام میں مبالغہ آمیزامیدوں کا ماحول پیداکیا،وزیروں کی کارکردگی جانچنے کے بارے میں نئی سوچ پیش کی اورسابقہ حکمرانوں کے بعد اپنی حکومت کے قیام کوایساانقلاب آفریں قراردیاکہ سب ہی حکومت کی بنت اوربناوٹ کے سارے مراحل اوراسباب کے باوجودتوقع باندھناپڑی کہ اب واقعی تبدیلی آئے گی اورعوام کے سارے دلدردورہوجائیں گے لیکن سودن بعدبھی ڈھاک کے وہی تین پات والامنظررہا۔پہلے کہاگیاکہ کوئی بڑا لیڈرہوہی نہیں سکتاجب تک وہ اپنے مفادات کیلئے ''یوٹرن''نہ لے۔

اس پس منظرمیں ہٹلراوردوسرے لیڈروں کی مثالیں بھی تاریخ کے اوراق سے نکال نکال کرپیش کی گئیں۔پھرکیاہواکہ سودن کوحکومتی سمتوں کے تعین کامحل بتایاگیامگرہوتایہ رہاکہ جو کچھ ماضی میں عمران خان خودیاان کے ساتھی دعوے کرتے رہے اورعوام کے ساتھ وعدے کرتے رہے ۔ان سے ہٹ کراہداف کی ترتیب اورترجیح کودوسرے رنگ میں پیش کیا جانے لگا۔عوام کیلئے ریلیف کی کوئی صورت سوائے اس کے سامنے نہ آسکی کہ بجلی،گیس اورپٹرول کی قیمتوں سمیت روز مرہ کے استعمال کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی آسمان کی طرف منہ کرکے اڑان بھرنے لگیں ،عوام کیلئے ٹیکسوں کی نئی نئی شکلیں اورصورتیں ایجادکرنے کی کوششیں سامنے آنے لگیں اور ڈالرکوایسابے لگام کردیاگیاکہ اس نے عوامی توقعات اور امیدوں کوتہہ وبالاہی کردیا۔

حکومتی وزراء اورگورننس کامنظرکھینچاکہ وزیراعظم عمران خان یوں شکوہ وکناںملے کہ بیوریو کریسی تعاون نہیں کررہی۔اس تبدیلی کے نعروں اور دعوؤں کے ساتھ برسراقتدارآنے والی پی ٹی آئی حکومت کے آنے کے بعدسب سے زیادہ بدمزہ وزارتِ خزانہ نے کیا۔ڈالرکابے قابوہوجانا،آئی ایم ایف کے بارے میں حکومتی کہہ مکرنیاں اورباربارکے یوٹرنزنے ابہام اورالجھاوے کی نئی دنیاآباد کردی۔وفاقی وزیرخزانہ اگرچہ عمران خان کے سب سے قریبی ،قابل اعتماداورکابینہ کے ارکان میں سے نمایاں نورتنوں میں ان کاشمارہوتاہے لیکن ان کی کارکردگی کے بارے میں خودان کی اپنی جماعت سے ایسی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ وہ اپنے ناکامی پردل برداشتہ ہوکراپنے منصب سے مستعفی ہورہے ہیں لیکن بعدازاں خودوزیراعظم ہاؤس کو اس افواہ کی یتردیدکرناپڑی لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ عمران کے ترکش میں موجودیہ تیربھی ابھی تک اک تیرنیم کش کی صورت بے ہدف اوربے سمت نظر آرہاہے۔

ایک جانب آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے کے بارے میں کنفیوژن ابھی تک جاری ہیں نتیجتاً آئی ایم ایف سے قرضہ لینے یانہ لینے کے بارے میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکاہے۔ اس سے پہلے ان کے بھائی نوازلیگ میں نجکاری کے وزیرتھے توان کی وزارتی کارکردگی بھی اسی سطح کی رہی ۔اب اسدعمر فائزہوئے ہیں توان کی کارکردگی کم ازکم اب تک اپنے بھائی زبیرکی طرح بھی متاثر کن نہیں ہے۔ممکن ہے پارٹی کے اندرپائی جانے والی مفاداتی جنگ سے بھی انہیں نقصان ہواہو اور اسدعمرکوپارٹی کے بعض عناصرنے شعوری طورپر ناکام ثابت کرنے کی کوشش کی ہو لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسدعمرکی وزارت سے عام آدمی کواب تک بے شمارشکایات کے سوا اور کچھ نہیں ملااورآنے والے دنوں میں بھی کوئی خیرکی توقع دورتک نظر نہیں آرہی۔ البتہ وزیراعظم کاگاہے بگاہے عوام کوجھوٹی سچی تسلیاں دینامعمول بن گیاہے اورعوام اس پرنہ یقین کررہی ہے اورنہ ہی کان دھررہی ہے۔

دوسری جانب وزیرخزانہ کی اب تک کی خزانے کوسنبھالادینے کی ساری کوششیں اب تک بار آور ثابت نہیں ہورہی ہیں،حدیہ ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے جوتین ارب ڈالرکی نوید سنائی گئی تھی ،وہ بھی ابھی تک ادھوری ہے اوراب تک تین قسطوں میں موصول ہونے والے تین ارب ڈالر کی پہلی قسط ہی موصول ہوئی ہے البتی یواے ای کی طرف سے تین ارب ڈالرکی امدادکی نوید سننے کوملی لیکن جس پربعدمیں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ امدادنہیں بلکہ معمولی سودکی شرح بھی عائدکی گئی ہے لیکن اس رقم کی صرف خزانے میں حفاظت کی جائے گی اوراس کواستعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ادھرچین نے صاف صاف بتادیاہے کہ چین قرضوں اورامدادکی صورت میں پاکستان کوبیل آؤٹ کرنے کی کوشش نہیں کرے گابلکہ سرمایہ کاری کے ذریعے بیل آؤٹ پیکج دے گا۔وزیراعظم کادورۂ ملائشیابھی کم ازکم اس پس منظرمیں کامیاب نہیں کہاجاسکتا کہ ملائشیاکے مالی حالات بھی اب پہلے کی طرح اچھے نہیں رہے اورملائشیاکے نئے سربراہ مہاتیر محمدنے بھی اپنی سابقہ حکومت کوکڑے امتحان میں ڈال رکھاہے اوروہاں بھی سابقہ حکومت کو کرپشن کے الزامات کاسامناہے۔

ڈیم بنانے کیلئے چیف جسٹس ثاقب نثارکی شروع کی گئی مہم میں بعدازاں وزیراعظم کے شریک ہونے کے باوجودابھی عوامی تائیداگرفنڈزکے حوالے سے جانچاجائے توزیادہ متاثرکن نہیں ہے۔ حکومت کواب تک جوکامیابی ملی ہے اس کامیابی کاتعلق اس کے منشوراوراعلانات یادعوؤں سے نہیں بلکہ اچانک سامنے آنے والے کرتارپوربارڈرکے حوالے سے ہے۔یہ ایک آؤٹ آف باکس کامیابی کہی جاسکتی ہےجس کاساراکریڈٹ یاڈس کریڈٹ بھی صرف پی ٹی آئی کی حکومت کے کھاتے میں نہیں ڈالاجاسکتاہے کہ راہداری کے کھولے جانے کاعندیہ سب سے پہلے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی طرف سے دیاگیاتھا۔اس صورتحال کوسامنے رکھا جائے تووزیراعظم عمران خان کایہ شکوہ کرناکہ ان کی حکومت کوگرانے کی سازشیں پہلے دن سے ہی شروع ہو رہی ہیں،تعجب انگیز ہے۔ان کایہ مؤقف بھی محل نظرہے کہ افواہیں بھی عدم استحکام پیداکرنے کا حربہ ہیں۔

بلاشبہ افواہوں کومثبت تعارف کے ساتھ کوئی بھی پیش نہیںکرسکتاہے لیکن آئے روزایک نیایوٹرن لینے کاتعارف رکھنے والی حکومت اورقیادت کوئی بھی ہو،اس کواسی طرح کی صورتحال کاسامنافطری نتیجے کے طورپرکرناپڑسکتاہے۔ حکومت کی ابلاغی ٹیم کاجواسلوب واندازہے وہ حکومت کے دفاع اور پروموشن کیلئے نہیں بلکہ اپوزیشن کونقد،کھری کھری سنانے اوربراثابت کرنے کیلئے ہے۔ایسے میں حکومت کے خلاف پہلے دن سے ہی سازشیں شروع ہوجانے کاوزیراعظم کاانکشاف حیران کن ہے۔وزیروں کی کارکردگی کاباربارجائزہ لینے کی باتیں کرنااوران کی کارکردگی کی بناء پرکابینہ میں ردّوبدل کی پھلجڑی چھوڑنابھی حکومت کااپناکیا دھراماناجاناچاہئے۔اب آکے اگروزیراعظم نے خودہی وفاقی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کاجائزہ لینے کیلئے نوگھنٹے تک کاطویل اجلاس کے بعدخودہی سارے وزاراء کوباوجودپاس کردیاکہ کئی ارکان کابینہ کوانہوں نے کارکردگی بہتر کرنے کاانتباہ بھی کیا اوران کی پرفارمنس پرنکتہ چینی بھی کی۔

یہ اسلوب پاکستان کے اندر نیابھی ہے اورکئی سوالوں کوجنم دینے والابھی۔وزیراعظم نے خودہی وزیربنائے ،خودہی ان کی کارکردگی کاجائزہ لے لیااورانہیں خودہی پاس بھی کردیا۔اس ''خوشگوار'' نتیجے کے اعلان سے پہلے یہ بھی نہ سوچاکہ عوام کی رائے اورمیڈیاکی بھی رائے بھی کوئی معنی رکھتا ہے۔ یہ توپنجابی کے محاورے''آپے ای میں رجی کجی،آپے ای میرے بچے جیون'' کے مصداق ہے کہ خودہے جیساکہ وزیراعظم نے وزارتِ داخلہ کی کارکردگی کی تحسین ہے۔ تحسین کرتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھاگیاکہ کراچی اوربعض دوسری جگہوں پردہشتگردانہ واقعات بھی سامنے آئے۔ اسلام آبادکے جڑواں شہرراولپنڈی میں ملک کے سیاسی اوردینی رہنماء مولاناسمیع الحق کابہیمانہ قتل ہوا،اورآج تک قاتلوں کاسراغ تک نہیں مل سکااورنہ ہی قاتلوں تک ان کے ہاتھ پہنچے ہیں۔

ایک نئی جماعت تحریک لبیک کے وابستہ ہزاروں سیاسی کارکنوں اوران کی قیادت کواسی وزارتِ داخلہ کی حکمت عملی کے تحت گرفتارکرکے جیلوں میں بندکردیاگیاہے۔زیرحراست ان ہزاروں افرادکے ساتھ ان کے اہل خانہ کوملاقات کی بھی اجازت نہیں جبکہ وزارتِ داخلہ کی تحسین کی جارہی ہے۔اتنی بڑی تعدادمیں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اتنے تھوڑے دنوں میں اگرحکومتی کامیابی کسی صورت قرارنہیں دی جاسکتی۔جمہوری ادوار اور جمہوری ملکوں میں ایسی کاروائیوں کوفاشزم کانام دیاجاتاہے۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کانعرہ لگانے والوں کے دورِحکومت میں یہ کارکن ناموس رسالت کے حق میں سڑکوں پرآئے تھے لیکن ریاستی رٹ کوچیلنج کرنے کاالزام ان پرلگ گیا۔اگراس جماعت کے ایک لیڈرنے میڈیامیں اپنی زبان کو استعمال کرنے میں احتیاط سے کام نہیںلیاتوکیاعمران خان یہ بھول گئے کہ نوازحکومت کے دورمیں جب ان افرادنے اسلام آبادکامحاصرہ کیاتوعمران خان نے نہ صرف ان کی بھرپورحمائت کی تھی بلکہ ان کے ساتھ دھرنے میں بیٹھنے کی خواہش کابھی اظہارکیاتھا۔

وزیراعظم کاخودہی اپنی کابینہ کوبلاواسطہ اورخودکوبالواسطہ پاس کردینا،توخودہی مدعی اورخود ہی منصف بننے والی بات ہے،ایسے احتساب اورجائزے کوکون اہمت دے گا۔تبدیلی کی خواہش مند حکومت نے اپنی اوراپنی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کے بارے میں عوام سے پوچھانہ میڈیاکے سامنے کارکردگی پیش کی کہ اس بارے میں میڈیاپنانکتۂ نظرسامنے لائے اورفیصلہ کرے کہ تبدیلی کے دعوے کی عملی صورت اب تک کیابن چکی ہے،اس بارے میں یہ بھی ہوسکتاتھاکہ ماہرین کے کسی پینلزسے وفاقی کابینہ کے ارکان کے کارہائے نمایاں کے بارے میں رائے حاصل کرلی جاتی۔ اس کے برعکس اپوزیشن جماعتیں ہیں کہ نئی حکومت کے پہلے روز سے ہی باہم بٹی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندراپوزیشن جماعتیں اپنی غیرمعمولی عددی قوت کے باوجودایک ایجنڈے اور حکومت مخالف نکتے پرمتفق ہوسکی ہے،نہ ہی آل پارٹیزکانفرنس کرنے پراتفاق کرسکی ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حکومت کے تمامتر جارحانہ ندازکے بعدبھی ابھی تک اپوزیشن جماعتیں ایک جانب نیب کے احتسابی کوڑے کی زدمیں ہیں اوردوسری جانب ارادے اورعمل کے ضعف کاشکارہیں۔

میاں شہبازشریف کی بطوراپوزیشن لیڈرکی کئی تقاریرہوچکی ہیں لیکن ان تقاریرمیں بھی ایساکوئی تاثرنہیں ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کھڑی ہوگی یامزاحمتی اندازاختیارکرے گی۔تادمِ تحریرایساکوئی اشارۂ بھی نہیں ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف کسی منظم اورمنضبط اندازمیں یکجہت ہوکرآگے بڑھنے کوتیارہے۔قومی حکومت کی کمزور تجویز بھی سوچی سمجھی تجویزیا تدبیرنہیں لگ رہی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی اندرونی کمزوریوں کے باوجودیہ کہناہے کہ پہلے دن سے ہی ان کی حکومت کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں تھیں،قابل غورہے۔اگروزیراعظم اس انکشاف کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ اس مبینہ سازش کامرکزکہاں ہے اوراس سازش میں کون کون شریک ہیں؟اتنے چاؤ سے لائی گئی حکومت کاوزیراعظم یہ انکشاف کررہاہے توحیران کن ہے۔وزیراعظم کے اس انکشاف نے عملی طورپرتبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئی حکومت کا ٹریک ہی تبدیل کردیاہے۔ سازش کاروناروکرحکومت کے تبدیلی پرفوکس کونظری طورپربھی باقی نہیں رہنے دیابلکہ سابقہ ادوارکی حکومتوں اورحکمرانوں کی طرح روایتی بیانیہ اختیارکرتے ہوئے خودکومظلوم اورسازشوں کاشکار بناکرپیش کردیاہے۔

اس سے پہلے کابینہ میں ردّوبدل کی باتیں بھی حکومت نے خودشروع کیں۔سودن کاایجنڈہ بھی خود ہی دیا،تبدیلی کے خوابوں کااسیربھی خودبنایااورتبدیلی کے بیانیے کی جگہ روایتی انداز بھی خودہی اپنالیا۔وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کے سارے ارکان کوخودہی پاس کرکے کلین چٹ دیکر درحقیقت اپنی حکومت اورقیادت کوعوامی غم وغصے سے محفوظ کرنے کی اپنے تئیں ایک سبیل پیداکی ہے ۔یہ مہلت عوام کی طرف سے کب تک ملی رہتی ہے ،اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت ہوگالیکن حکومت جس تیزی سے اپنی ساکھ پر خودحملہ آورہے،یہ خوفناک ہے۔ احتساب کے حوالے سے بھی حکومت پرانگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ احتساب کوکوڑاصرف اپوزیشن جماعتوں کے خلاف برس رہاہے۔رہے وہ لوگ جو حکومتی یا پی ٹی آئی کے پرچم کے سائے تلے آچکے ہیں ،ان کے بارے میں نیب بھی اس طرح ابھی متحرک نظرنہیں آتی ہے۔ خودحکومت بھی تبدیلی کے حقیقی ماحول کے طورپراپنی کمٹمنٹ ثابت کرنے کی خاطرہی سہی اپنے ساتھیوں کی قربانی یاانہیں احتساب کی کاروائی مکمل ہونے تک انہیں خودسے جداکرنے کوتیارنہیں جبکہ میڈیا کوبااندازدگرقابوکرنے کی حکمت عملی بھی بروئے کارہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.