تفسیرقرآن اور اس کی قسمیں

 تفسیر کی دو قسمیں ہیں۔1۔تفسیر بالماثور اورتفسیر بالرائے،ان کی تعریف اور تفصیلات ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
(1)تفسیر بالماثور
ایسی تفسیر جس میں قرآن وسنت ا،قوال صحابہ رضوان اﷲ عنھم اجمعین اور تابعینؒ،سیر وتاریخ کی مستند روایات کو ہی مد نظر رکھا جائے۔اس قسم کی تفسیر کو تفسیر منقول بھی کہتے ہیں۔ حضرات کو اصحاب الحدیث بھی کہتے ہیں۔تفسیر بالماثور کی درج ذیل انواع ہیں:
تفسیر القرآن بالقرآن
قرآن مجید خود کئی مقامات پر اپنی تشریح کرتا ہے۔اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ارشاد ربانی ہے:
فتلقیٰٰ ادم مِن ربِہِ کلِمٰت فتاب علیہِ اِنہ ہو التواب الرحیم( سورالبقرۃ ۷۳...)
"پس سیکھ لیں آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے کچھ باتیں۔پس پھر آیا اور اس کے تحقیق وہ پھر آنے والا ہے مہربان۔"
ان کلمات کی وضاحت جو حضرت آدم علیہ السلام نے سیکھے تھے۔قرآن مجید میں ہی دوسرے مقام پر اس طرح سے ہے۔:
قالا ربنا ظلمناا نفسنا واِن لم تغفِر لنا وترحمنا لنکونن مِن الخٰسِرین (سورۃالاعراف۳۲... )
"کہا دونوں نے اے ہمارے رب ظلم کیا ہم نے جانوں اپنی کو اور اگر نہ بخشے گا تو ہم کو اور نہ رحم کرے گا تو ہم کو البتہ ہوجائیں گے ہم خسارہ پانے والوں میں سے۔"
اسی طرح تفسیر القرآن بالقرآن میں اﷲ تعالی کاارشاد ہے:ِاناا نزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ ا ِناکّنا منذِرین (سورۃ الدخان۳... )
"تحقیق اتارا ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں،تحقیق ہم ہیں ڈرانے والے۔"لیلۃ مبارکہ کی توضیح اس طرح سے خود ہی قرآن نے بیان کی ہے:
ِاناا نزلنہ فی لیلۃالقدر(سورۃالقدر۱……)
"تحقیق ہم نے قرآن کو قدر کی رات میں نازل کیا۔"
تفسیرالقرآن بالسنۃ
قرآن مجید کی جس بات کو جاننے کی ضرورت تھی،یا جو بات تشریح طلب تھی،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمادی۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کائنات ارضی پر قرآن مجید کے پہلے مفسر ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر تھی۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا سے جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق مبارکہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:کان خلقہ القرن(آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن مجید تھا۔)
کئی آیات قرآنی کو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تفسیر بیان فرمائی۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
مفاتیح الغیب خمس " ثم قراء:اِن اللّٰہ عِندہ عِلم الساعۃ ("غیب کی پانچ چابیاں ہیں‘‘۔پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ آیت ِن اﷲ عِندہ عِلم الساعۃ تلاوت فرمائی۔")
اس بات کو ایک اورحدیث میں اس طرح سے بیان کیا ۔حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:"غیب کی پانچ چابیاں ہیں جن کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا کل کیا ہوگا۔رحم جو کمی کرتے ہیں ان کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا بارش کب ہوگی؟ اﷲ کیسوا کوئی نہیں جانتا اس کو موت کہاں مل جائے گی۔اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا قیامت کب ہوگی۔"
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں آنحضرت نے جو تشریح کی ہے وہ واضح ہے ۔ایک اور حدیث حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے ،جب یہ آیت اتری:الذین ٰامنوا ولم یلبِسوا ایمٰنہم بِظلم(سورۃالانعام...۲۸... )
"جو لوگ ایمان لائے اور ا پنے ایمان میں ظلم نہیں ملایا۔"
صحابہ کرام رضوان اﷲ عنھم اجمعین کو یہ بات بہت گراں گزری اور کہنے لگے ہم میں سے کون ہے جس نے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہ ملایا ہو،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا،بات یہ نہیں ہے۔پھر فرمایا کہ کیا تم کو حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیتے کو نصیحت کا علم نہیں کہ:ِان الشِرک لظلم عظیم(سور لقمان ۳۱... )
"بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔"
تفسیرالقرآن بآثارالصحابہؓوالتابعینؒ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اﷲ عنھم اجمعین کادرجہ ہے جو پوری امت میں ہرلحاظ سے افضل لوگ تھے۔قرآن مجید کی جوتشریح اور تفسیر ان کی زبان سے نکلی اس کے ثقہ اور صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ۔کیونکہ ان کی موجودگی میں قرآن نازل ہوا۔امام حاکم فرماتے ہیں:’’صحابی کو تفسیر کو جو وحی اور تنزیل کے وقت موجود تھا،مرفوع کاحکم ہے۔" کئی آیات کی تفسیر صحابہ رضوان اﷲ عنھم اجمعین سے مروی ہے۔اسی طرح تابعین کے اقوال بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ان لوگوں نے صحابہ کرام ؓسے فیض حاصل کیا۔یہ تینوں تفسیر القرآن بالقرآن یا تفسیر القرآن بالسنۃکا اعلی درجہ رکھتی ہیں۔
(2)تفسیر بالرائے
تفسیر بالرائے سے مراد قرآن کی اجتہاد سے تفسیر بیان کرنا ہے۔رائے اجتہاد کے معنی میں ہے۔ رائے کا لفظ قیاس کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔بعض نے تفسیر بالرای سے مراد ایسی تفسیر لی ہے جس میں مفسر قرآن معنی کے بیان میں اپنے فہم خاص اور مجردرائے سے استنباط کر تاہے۔ان دونوں طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رائے اور قیاس کو اگر شریعت کے تابع رکھاجائے تو اس سے شریعت کی روح متاثر نہیں ہوتی۔بلکہ فائدہ ہوتا ہے۔لیکن اگر رائے اور اجتہاد کو غلط استعمال کیا جائے تو یہ شریعت کی رو ح کے منافی ہے۔اس کو اہل علم نے تفسیر بالرای المحمود اور تفسیر بالرای المذموم قرار دیا ہے۔احمدون ڈنفر نے تفسیر بالرای کی اس طرح وضاحت کی ہے:ایسی تفسیر بالرای جو اپنی مرضی سے کی جائے جس میں محض رائے ہو۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ناجائز قرار دی ہے۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اپنی مرضی سے قرآن مجید کی تفسیر بیان کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔"دوسری روایت ا بن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ سے ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح سے فرمایا:"جس نے قرآن مجید کے متعلق علم کے بغیر بیان کیا۔وہ ا پنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔"اس قسم کی تفاسیر اہل بدعت اور معتزلہ وغیرہ نے بیان کی ہیں۔اگر تفسیر بالرای کو غور وفکر سے بیان کیا جائے تو یہ دین کی خدمت ہے اور ملحدین کے جواب بھی اس میں آتے ہیں۔جدید علوم وفنون کے ذریعے جو نت نئے موضوعات سامنے آئے ہیں۔اس مکتب فکر کے حامل لوگوں نے ان کو اپنا موضوع بنایا۔اور ایک متوازن نقطہ نظر پیش کیا۔مولانا محمد حنیف ندوی اس گروہ کے متعلق فرماتے ہیں:"اصحاب الرائے کی خدمات کادائرہ بھی خاصا وسیع اور قابل قدر ہے۔اس گروہ نے قرآن وسنت کے فقہی مضمرات کی نشان دہی کی۔فکری اور کلامی نکتہ سینچوں کو نکھارا اور تعبیر وتشریح کے دائروں میں وسعت وعمق پیدا کیا۔یہ اس گروہ کا فیضان ہے۔کہ اسلام ایک مکمل اور منضبط نظریہ حیات کی شکل میں مدون ہوا۔ائمہ سلف سے یہ آثار صحیحہ جو منقول ہیں۔ان کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تفسیر بیان کرنے میں حرج ہے جو علم کے بغیر بیان کی گئی ہے جہاں تک لغت اور شریعت پرمبنی تفسیر کا تعلق ہے اس کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 282549 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More