کہتے ہیں جسے اردو

اردو زبان و بیان کی اہمیت ' افادیت اور ضرورت ایک عرصے سے قدر دانوں کے زیر بحث رہی ہے۔ہمیں اس بات کا بھی شکوہ رہا ہے کہ اردو کے ساتھ سوتیلوں جیساسلوک کیا جا رہا ہے ہمارا یہ مطالبہ بھی جائز کہ اردو کو سرکاری سطح پر نافذ کیا جائے مگر عام بول چال کی زبان میں اردو کی بگڑتی صورتحال مییں تبدیلی کے لئے ہم نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ تہذیب و تمدن کا حسین مرقع ہے۔جیسا کہ روش صدیقی کا شعر ہے
"اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئ"

زبان کسی بھی قوم کے نہ صرف ابلاغ کا ذریعہ ہے بلکہ یہ قوموں کے تشخص کی پہچان ہے۔
"لفظ تاثیر سے بنتے ہیں تلفظ سے نہیں
اہل دل آج بھی ہیں اہل ذباں سے آگے"

لیکن یہاں تو نہ تلفظ ہے نہ تاثیرآج کے بچے اپنی اصل زبان سے واقف ہی نہیں اگر آپکو لگتا ہے کہ سب ٹھیک ہی تو ہے تو آپ گلی میں انگلش میڈیم اسکولوں کے زیر تعلیم کرکٹ کھیلنے والے بچوں سے لیکر کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے بچوں کی زبان سن لیں وہ وقت گزر گیا جب لکھنئو کی دبیز اردو پر آپ جناب کے غلاف چڑھائے جاتے تھے اب تو تو تڑاک کے پتھر بمبئی کی سڑک چھاپ ڈوری میں پرو کر ایک دوسرے پر تیرونشتر کی طرح برسائے جاتے ہیں ۔واضح رہے کہ ہم اکثر و بیشتر کی بات کر رہے ہیں تاہم ایسا نہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہو۔ لیکن ہماری نطر میں اگرایک بچہ بھی ایسا ہے تو کیوں ہے؟
"وہ عطر دان سا لہجہ میرےبزرگوں کا
رچی بسی ہوئ اردو زبان کی خوشبو"

اور ہمیں یقین ہے کہ ان اکثر بچوں کے بزرگوار بھی اچھی اردو کے واقف کار رہے ہونگےاور یہ واقفیت آج کے بچوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پڑوسی ملک کی نشریات نے نہ صرف ہماری ثقافت اور رسم و رواج بلکہ ہماری زبان و بیان پر گہرے اور منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔اس سلسلےمیں تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل چیف جسٹس صاحب نے نہایت اہم اقدام کیا اور پڑوسی ملک کی نشریات پر فوری پابندی عائد کردی جس سے تمام کیبل آپریٹرز نے بھارتی فلمیں، ڈرامے اور چینلز کی بندش کا آغاز کردیا۔یہاں تک کے ہمارے اپنے ملکی چینلز بھی جو اپنی نشریات میں انڈین چینلز کے بغیر کہانی والے بے سروپا ڈرامے اپنی نشریات کا حصہ بنا چکے تھے انہیں بند کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن کیا آپکو معلوم ہے کہ ہمارا اور آپ کا کیبل آپریٹر جو ہالی ووڈ فلمیں اردو میں لگاتا ہے وہ دراصل اردو نہیں بلکہ ہندی زبان میں ترجمہ کی جاتی ہیں اگرچہ اب ہمارے ملک میں اینیمیٹڈ موویز کا رجحان تقویت پا رہا ہے اور نہ صرف یہ فلمیں بن رہی ہیں بلکہ خوب چل رہی ہیں لیکن یہ تعداد میں کچھ ہی ہیں ۔اور اگر آپ اپنے بچوں کو ہالی ووڈ کی بلاک بسٹر اینیمیٹڈ موویز اردو زبان میں دکھانا چاہیں تو نہیں دکھا سکتے کیونکہ انہیں ذیادہ تر ہندی میں ہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ہمیں پتا ہے کہ ہم جدید دور میں جی رہے ہیں ہمارے بچے پڑھ کر کم اور دیکھ کر اور سن کر ذیادہ سیکھتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں پرنٹ میڈیا کے علاوہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ایسے معیاری کام کی اشد ضرورت ہے۔ جب ہماری زبان اتنی خوبصورتی اور خوبیوں سے مزین ہے تو کیوں نہ ہمارے بچے اسے اسکی اصل شکل و صورت کے ساتھ سیکھیں اور بولیں۔ کل کو ہم سے یہ شکایت تو نہ کریں
"لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہونگے
میرے اجداد کو تہذیب نہ آتی ہوگی"

اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے ہمیں مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔صرف نشریات کی بندش سے فرق نہیں پڑے گا۔بلکہ ہمیں ان نشریات کے منفی اثرات دور کرنے کے لئے اپنی زبان پر کام کرنا ہوگا اور وافر مقدار میں کرنا ہوگا۔

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 35894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.