جیتا جاگتا افسانہ

*سلطانئ جمھور کا آتا ہے زمانہ* ۔
*جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو*- پچپن میں یم جاسوسی ناول بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔اس دور میں ابن صفی کی عمران سیریز بہت مشہور تھی۔خاص طور اس کا ہیرو عمران جوکہ جوان رعنا تھا بظاہر معصوم اور بے ضرر نظر آنے والا یہ ہیرو دراصل ایک انتہائی چالاک جاسوس تھا جس سے دنیا بھر کی انٹیلیجنس ایجنسیاں پناہ مانگتی تھیں وہ اپنے ملک کے خلاف بنے والی سازش اور منصوبے کو ناکام بنا دیتا تھا۔نیتوں میں اخلاص ہو اور جذبات میں صداقت تو خوابوں کو حقیقت کا روپ دھارے میں دیر نہیں لگتی۔آپ درست سوچ رہے ہیں ابن صفی کے تخیل کردہ یہ شاہکار اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ خوش نصیب ہیں ہم لوگ کہ یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔عمران خان ہی وہ جوان رعنا ہے کہ جس پر مشرق مغرب سب فدا تھے۔مصر کی عورتوں نے تو صرف اپنی انگلیاں ہی کاٹی تھیں عمران کے لیے تو اس کے چاہنے والے گردنیں بھی کاٹنے کو تیار ہیں(اپنی نہیں اسکے مخالفین کی)۔

عمران خان ایک رومانوی شخص یے۔ پہلے افسانہ تھا مگر اب زندہ حقیقت بن چکا ہے۔مگر شومئ قسمت جب سے حقیقی دنیا میں آیا ہے ملک کی حالت دگرگروں ہے ۔خزانہ خالی ہے پیشرو ملک جھاڑو پھیر کر جاچکے ہیں ۔صرف چوہے چھوڑ گے ہیں جو ہر طرف دوڑتے پھر رہے ہیں اسکی وجہ سے خان پریشان وہلکان رہتا ہے۔پریشانیوں کا حل ڈھونڈتا رہتا ہے۔مزاج چونکہ رومانی ہے اس لے اسے بھینسیں بہت پسند ہیں ۔ بھینس کی چال میں جو نغمگی اور سرور ہے وہ کسی اور میں نہیں ۔اس کی بھینی بھینی خوشبو ایک نشہ سا طاری کردیتی ہے۔مگر اس کمزوری کو بھانپتے ہوے وزیراعظم میں داخلے سے پہلے ہی یہ شرط رکھ دیگئ کہ بھینسوں کو وزیراعظم ہاوس سے نکال باہر کیا جاے ورنہ اس کا دھیان امور مملکت میں نہیں لگے گا ۔قوم کی خاطر یہ بھینسیں سر بازار نیلام ہوگیں۔ خان چونکہ بہت رومینٹک ہے اور قوم کی فکر بھی دامنگیر رہتی ہے اس لیے اسے پھر مرغی کا خیال آیا ۔ایک مرغے کے ساتھ چار مرغیاں ۔ماضی کی دلفریب یادیں تازہ ہوئیں۔اب آپ جب بھی خوبصورت مرغیوں کے ساتھ خوبرو مرغا دیکھیں اپنا وزیراعظم ہی نظر آئے گا۔بات کہاں سے چلی کہاں پہنچ گئ۔۔خیر کوئی بات نہیں ۔خان کو انگریزوں سے بڑی الفت ہے مگر ظالم سماج نے اس کی سوچوں کو شٹل کاک برقعہ پہنا دیا ہے۔وہ ان پرانی یادوں کو قوم کی خاطر بھلانا چاہتا ہے۔اس لیے وہ ا انگریزوں سے وابستہ ہر یاد کو دل سے مٹانا چاہتا ہے۔گورنر ھاوس بھی انگریز کی یاد دلاتے ہیں۔اس لیے اس کی دیواریں گرا کر اپنے دل کی خلش کو کم کرنا مطمع نظر ہے۔مگر افسوس ظالم سماج کہاں چین سے جینے دیتا ہے ۔ دیواریں قومی یادگار قرار دے دیں۔شنید ہے کہ گورنر ھاوس کی سیر کے لئے آنے والوں سے دس دس روپے ٹکٹ لیا جائے گا۔چاروں صوبوں میں تقریبا لاکھوں افراد سیروتفریح کی غرض سے یہاں آتے ہیں ۔اگر اس میں مزید کچھ اضافہ کردیا جاے تو اتنا فنڈ اکھٹا ہوسکتا ہے کہ باہر جاکر مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی۔مثلا گورنر عوام کے درمیان رہیں اگر خواہشمند خواتین حضرات گورنر کے ساتھ سیلفی لینا چاہیں تو فی کس پانچ سو، چاہے پینے کے فی پیالی ایک ہزار،ڈنر کے دس ہزار۔

وزیراعظم ھاؤس میں بھی ٹکٹ لگایا جاسکتا ہے ۔ خان صاحب باضابطہ طور پر یہاں طعام وقیام کی فیس مقرر کردیں تو کاروباری حلقوں کا کافی بھلا ہوجائے گا فائلوں کو جیسے پر لگ جائیں گے۔خزانہ بھر جاے گا نئے ڈیم بنیں گے خوشحالی آئے گی اور ملک خوب ترقی کرے گا۔

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50864 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.